ہم جان پہ کھیل کے پڑھتے ہیں

مختلف ممالک کے وہ بچے، جو خطرناک راستوں سے ہوکر اسکول جاتے ہیں ۔۔۔۔


Mirza Zafar Baig October 12, 2014
مختلف ممالک کے وہ بچے، جو خطرناک راستوں سے ہوکر اسکول جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

KARACHI: یونیسکو کے مطابق اس وقت دنیا میں لگ بھگ 57ملین بچے اسکول جانے سے محروم ہیں۔ دوسری جانب دنیا میں سیکڑوں بچے ایسے بھی ہیں جو بہت دور افتادہ اور دشوار گزار مقامات پر رہتے ہیں۔

ان کے علاقے میں آس پاس اسکول بھی نہیں ہیں، مگر تعلیم حاصل کرنے کا شوق انہیں مشکل ترین سفر کرنے پر مجبور کرتا ہے اور وہ کسی بھی طرح اسکول پہنچ جاتے ہیں۔ وہ ہر روز ناقابل یقین انداز سے اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر اسکول جاتے اور وہاں سے واپس گھر آتے ہیں۔ یہاں ہم تعلیم حاصل کرنے کے چند ایسے ہی شوقین بچوں کے بارے میں بتارہے ہیں، جن کا تعلق دنیا کے مختلف ملکوں سے ہے۔

بھارتی ریاست میگھالیہ کے بچے:

میگھالیہ انڈیا کی وہ ریاست ہے جہاں Mawsynramنامی گائوں واقع ہے۔ یہ دنیا کا وہ حیرت انگیز مقام ہے جہاں سب سے زیادہ یعنی 467 انچ سالانہ بارش ہوتی ہے۔ یہاں کھیتوں میں کام کرنے والے کسان اور مزدور کیلے اور بانس کے پتوں سے تیار کردہ ایسی برساتیاں پہنتے ہیں جو ان کے پورے جسم کو ڈھانپ لیتی ہیں۔ یہاں کے لوگوں کو ربر کے درختوں کی جڑوں سے قدرتی پل اگانے کی تربیت دی گئی ہے۔

ایسے پلوں کو ''زندہ پل'' کہا جاتا ہے۔ یہ لکڑی کے پلوں سے زیادہ پائے دار ہوتے ہیں۔ ان کے نیچے سے پانی طوفانی ریلوں کی صورت میں گزرتا ہے اور ان پلوں سے روزانہ اسکول کے بچے گزرتے ہیں۔ اسی طرح ان لوگوں نے درختوں کی جڑوں سے ''زندہ سیڑھیاں'' بھی بنالی ہیں جنہیں حسب ضرورت موڑا بھی جاسکتا ہے۔ ان سیڑھیوں کے ذریعے گائوں والے پہاڑیوں سے نیچے اتر سکتے ہیں۔ اس طرح Mawsynram کے طلبہ و طالبات تعلیم حاصل کرنے کے لیے روزانہ ایسے ہی زندہ پلوں اور زندہ سیڑھیوں سے گزرتے ہیں، مگر تعلیم کے حصول سے ایک قدم پیچھے نہیں ہٹتے۔



گولو، چین کے بچے:

چین میں گولو نام کا ایک پہاڑی گائوں دریائے دادو کی وادی کے عین اوپر واقع ہے۔ اس گائوں کے بچے پڑھنے کے بہت شوقین ہیں اور اسکول جانے کے لیے روزانہ معلق پہاڑی چھجوں کے آڑے ترچھے اور خطرناک راستوں سے گزرتے ہیں۔ اس گائوں میں بچوں کے لیے بنائے گئے ایلیمینٹری اسکول کی بہت اچھی عمارت تعمیر کی گئی ہے۔ اسکول کے سامنے خالی جگہ پر باسکٹ بال کورٹ بھی بنایا گیا ہے، جہاں اسکول کے بچے باسکٹ بال نیٹ کے بغیر کھیلتے ہیں، مگر وہ گیند کو ہٹ نہیں کرتے، کیوں کہ اس صورت میں گیند لڑھکتی ہوئی پہاڑوں سے نیچے جاسکتی ہے جو انہیں پھر کبھی نہیں ملے گی۔

زانسکر، کوہ ہمالیہ کے بچے:

تعلیم حاصل کرنے اور اسکول جانے کے شوقین یہ بچے ہمالیہ کے پہاڑی سلسلے میں واقع زانسکر نامی گائوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بچے بھی اسکول جانے کے لیے بڑا خطرناک سفر طے کرتے ہیں۔ ان کی راہ میں بعض اوقات برف کی پتلی پرتیں بھی آجاتی ہیں جو اگر ٹوٹ جائیں تو یہ بچے ان میں گرسکتے ہیں، جہاں سرد اور یخ بستہ پانی ان کی حالت خراب کرسکتا ہے، یہاں تک کہ ان کی جان بھی لے سکتا ہے۔ اس کے علاوہ برفانی میدان سخت بھی ہوتے ہیں اور پھسلواں بھی اور بعض اوقات ان میں جگہ جگہ شگاف اور جھریاں بھی نمودار ہوجاتی ہیں جو نظر نہیں آتیں۔ اگر ان میں پھنس کر کوئی گرجائے تو خوف ناک گھاؤ لگ سکتے ہیں۔ لیکن زنسکار کے بہادر اور تعلیم حاصل کرنے کے شوقین بچے کسی رکاوٹ کو خاطر میں نہیں لاتے، وہ ہر صورت اسکول جانا چاہتے ہیں اور جارہے ہیں۔



لیبک، انڈونیشیا کے بچے:

انڈونیشیا میں Sanghiang Tanjung نامی ایک گائوں ہے جو دریائے Ciberang کے دوسری طرف واقع ہے۔ اس گائوں کے بچوں کو اسکول جانے کے لیے روزانہ ایک ٹوٹا ہوا معلق پل عبور کرنا پڑتا ہے۔ ان کا اسکول پل کے دوسری طرف کے علاقے میں ہے۔ حالاں کہ ان کے لیے ایک متبادل پل موجود ہے، مگر اس سے سفر کرنے کے لیے انہیں لگ بھگ آدھا گھنٹہ زیادہ لگے گا۔ اس لیے یہ بچے پرانے پل ہی سے آنا جانا کرتے ہیں جہاں ان کی حفاظت و سلامتی کا کوئی انتظام نہیں ہے۔

اس خطرناک معلق پل کر عبور کرنے کے لیے بچوں کو بہت آہستہ چلنا ہوتا ہے۔ جب کبھی ان کے جوتے اس پر پھسلتے ہیں تو ان کے منہ سے چیخیں نکل جاتی ہیں۔ جب ان بہادر بچوں کے اس خطرناک سفر کی کہانی منظر عام پر آئی تو پورے انڈونیشیا میں دھوم مچ گئی۔ اس ملک میں PT Krakatau Steel نامی فولاد تیار کرنے والا ملک کا سب سے بڑا ادارہ ہے، جس نے کچھ این جی اوز کو ساتھ ملاکر اس مسئلے کو حل کرنے کے لیے قدم اٹھایا اور ان بچوں کے لیے ایک نیا پل تعمیر کرایا۔



Zhang Jiawan (جنوبی چین) کے بچے:

جنوبی چین کے Zhang Jiawan نامی اس گائوں کے بچوں کو اسکول جانے کے لیے لکڑی کی ایسی تنگ اور چھوٹی سیڑھیاں استعمال کرنی پڑتی ہیں جو بالکل غیرمحفوظ ہیں۔ ان پر چڑھتے ہوئے بچوں کو دیکھ کر خوف محسوس ہوتا ہے، مگر یہ بچے بلاخوف وخطر روزانہ ان سیڑھیوں پر چڑھتے اور اترتے ہیں اور روزانہ ہی یہ خطرہ خوشی سے مول لیتے ہیں۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان سیڑھیوں پر کسی بھی طرح کے حفاظتی انتظامات نہیں کیے گئے۔Zhang Jiawan نامی یہ دور افتادہ پہاڑی گائوں بیڈاگونگ پہاڑوں میں واقع ہے جو زیادہ تر عمودی بھی ہیں اور پھسلواں بھی۔

اسکول جانے کا ایک دوسرا راستہ بھی ہے، مگر اس کے ذریعے سفر کرنے میں پورے چار گھنٹے زیادہ لگیں گے اور اسکول جانے کے شوقین یہ بچے اپنا وقت ضائع کرنا پسند نہیں کرتے، وہ تو اپنے وقت کے ایک ایک منٹ کو کام میں لانا چاہتے ہیں اور پڑھنا چاہتے ہیں۔

ان بچوں کے والدین اپنے بچوں کی سلامتی کے لیے ہر وقت فکرمند رہتے ہیں، مگر وہ اپنے بچوں کو تعلیم سے محروم نہیں دیکھ سکتے، اس لیے بے بسی سے روزانہ اپنے بچوں کو یہ خطرات مول لیتے دیکھتے ہیں۔ کیا خوف ناک سیڑھیوں کا یہ سفر ان کے بچوں کو تعلیم کی دولت سے مالا مال کرے گا؟ یہ سوال انہیں ہمہ وقت پریشان کرتا رہتا ہے۔ مگر انہیں امید ہے کہ ان کے بچوں کی محنت ضرور رنگ لائے گی اور وہ بچے ایک دن تعلیم کی دولت سے مالا مال ہوں گے۔



کولمبیا کی ڈیزی:

اس بہادر اور بے خوف بچی کا تعلق کولمبیا سے ہے جو ایک فولادی رسے (کیبل وائر) پر لٹک کر ہر روز دریائے ریونیگرو عبور کرکے اسکول جاتی ہے۔ یہاں فولادی رسوں کی مدد سے وادی کے ایک گوشے کو دوسرے گوشے سے ملایا گیا ہے۔ یہ جگہ دارالحکومت بگوٹا کے جنوب مشرق میں چالیس میل دور بارانی جنگل میں واقع ہے جہاں محض چند خاندان رہتے ہیں۔ یہ معلق فولادی رسے ایک بپھرے ہوئے دریا سے 400میٹر کی بلندی پر لگائے گئے ہیں۔

اس دریا کی لمبائی کم و بیش 800میٹر ہے۔ اس مضمون کے ساتھ جو تصویر دی جارہی ہے، اس میں ڈیزی مورا اپنے چھوٹے بھائی جمید کے ساتھ یہ سفر کررہی ہے۔ اس کا چھوٹا بھائی صرف پانچ سال کا ہے اور اس کے ساتھ ایک بوری میں لٹکا ہوا ہے۔ ڈیزی اس فولادی رسے پر ایک زپر کی مدد سے سفر کرتی ہے جو رسے پر لگائی گئی پلی سے منسلک ہے۔ اس کے ہاتھ میں ایک برانچ نظر آرہی ہے جو ایک پرانے طرز کے بریک کے طور پر کام کرتی ہے۔ دیکھنے میں یہ کوئی جادوئی کہانی لگ رہی ہے، مگر یہ سب سچ ہے اور ڈیزی روزانہ اسی طرح رسے پر لٹک کر اسکول جاتی ہے۔ شاباش ڈیزی!



Cilangkap انڈونیشیا کے بچے:

جب سے دریائے Ciherangپر بنا ہوا پل ٹوٹا ہے، اس وقت سے اس علاقے کے بچے اسکول جانے کے لیے اس دریا کو بانس سے بنائے گئے عارضی تختوں کے کے ذریعے عبور کررہے ہیں۔ وہ روز اسکول جانے کے لیے خود کو خطرے میں ڈالتے ہیں، لیکن تعلیم حاصل کرنے سے پیچھے نہیں ہٹتے۔

ارباب اختیار کا فرض تھا کہ وہ یا تو ٹوٹنے والے پل کی مرمت کراتے یا اس کی جگہ نیا پل تعمیر کراتے، مگر جب کسی نے کچھ نہیں کیا تو ان بچوں نے اپنی مدد آپ کے تحت یہ انتظام کیا، مگر اپنی تعلیم کے حصول میں کوئی وقفہ نہیں آنے دیا۔ اصل میں یہ پل 2013کے شروع میں سیلاب کی وجہ سے ٹوٹ گیا تھا۔ اس وقت سے یہ بچے اس خطرناک انداز سے اسکول جارہے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ جگہ دنیا بھر کے سیاحوں کے لیے بڑی کشش رکھتی ہے اور وہ یہاں کے سفید دودھ جیسے جھاگ اڑاتے پانی کو دیکھنے بڑے شوق سے اس ملک میں آتے ہیں۔



چین کے گاؤں pili کے بچے:

چین میں piliنام کا ایک دور افتادہ گائوں ہے جسے یہ اعزاز حاصل ہے کہ جب بھی اس کے بچوں کا تعلیمی سال شروع ہوتا ہے تو اسکول کے عہدے داران اس انتہائی دور افتادہ گائوں کے80 بچوں کو اسکول لے جانے کے لیے خود آتے ہیں اور 125طویل خطرناک سفر طے کرکے بورڈنگ اسکول پہنچاتے ہیں۔ ان کا یہ سفر دور افتادہ خود مختار علاقے Xinjiang Uighurسے گزرتا ہے۔ دوران سفر بعض راستے تو ایسے آتے ہیں جو ڈھلوانی پہاڑوں کی تنگ درزوں میں تراشے گئے ہیں، ان میں سے بعض راستے صرف چند انچ چوڑے ہوتے ہیں۔

اس خطرناک سفر کو طے کرتے ہوئے انہیں بورڈنگ اسکول تک پہنچنے میں پورے دو دن لگ جاتے ہیں۔ اس دوران انہیں چار منجمد دریا عبور کرنے پڑتے ہیں، ایک 650فٹ طویل آہنی زنجیروں سے بنائے گئے پل کو عبور کرنا ہوتا ہے اور چار ایسے خوف ناک پل پار کرنے پڑتے ہیں جو درخت کے واحد لٹھے پر مشتمل ہوتے ہیں۔ اور یہ سب خطرناک کام یہ بچے خود کو تعلیم یافتہ بنانے کے لیے کرتے ہیں۔ ہے نا قابل فخر بات؟



سماترا (انڈونیشیا) کے بچے:

سمجھ میں نہیں آتا کہ اتنا خطرناک سفر کرنے کی ہمت ان بچوں میں کہاں سے آتی ہے؟ یہ سوال اس وقت ذہن میں اٹھتا ہے جب ہم مضبوط ارادے کے مالک ان بچوں کی اس تصویر کو دیکھتے ہیں جو ایک تنی ہوئی فولادی رسی (اسٹیل کیبل) پر آہستہ آہستہ چلتے ہیں۔ یہ رسی دریا کے اوپر باندھی گئی ہے جس کی اونچائی تیس فٹ ہے۔ اس سفر کے بعد یہ بچے سات میل دور جنگل سے گزر کر اپنے اسکول پہنچتے ہیں۔ واضح رہے کہ یہ اسکول Padangنامی قصبے میں واقع ہے۔

تعلیم کے شوقین ان بیس بہادر بچوں کا تعلق Batu Busukنامی گائوں سے ہے۔ یہ بچے جس انداز سے اس تنی ہوئی فولادی رسی (اسٹیل کیبل) پر اپنا توازن برقرار رکھتے ہیں، وہ حیران کن ہے۔ پہلے اس دریا پر ایک پل بنا ہوا تھا، مگر موسلادھار بارشوں اور طوفان نے اسے تباہ کردیا تھا جس کے بعد ان بچوں کو اپنے اسکول جانے کے لیے یہ طریقہ اختیار کرنا پڑا۔ اپنے اسکول وقت پر پہنچنے کی کوشش میں کئی بار بچے یہاں زخمی بھی ہوئے اور بعض تو پانی میں ڈوب کر دنیا سے رخصت بھی ہوگئے۔

جو بچے یہاں سے گزرتے ہوئے ڈرتے تھے، انہیں ان کے والدین نے اسکول پہنچانے کی ذمے داری قبول کی، لیکن اب بھی بہت سے بچے یہاں آتے ہوئے خوف محسوس کرتے ہیں، وہ ڈرتے ہیں کہ کہیں دریا کا طوفانی پانی انہیں پل سے گزرنے کی کوشش میں بہاکر نہ لے جائے۔ ایسے بچوں کو بھی ان کے والدین سنبھالتے ہیں اور اسکول تک پہنچاتے ہیں، مگر انہیں یہ ہرگز گوارہ نہیں کہ ان کے بچے تعلیم حاصل کرنے سے محروم رہ جائیں۔ اس قصبے میں مناسب سڑکیں نہیں ہیں، اسی لیے ان بچوں کو یہ خطرناک راستہ اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑتا ہے اور ہر روز ہی بہت سے بچوں کو اپنی جانوں کا نذرانہ بھی دینا پڑجاتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں