ہر فن مولا…
گیزر عموما ہمارے ہاں کی عورتوں کو چلانا ہی نہیں آتا سو اس میں کوئی معمولی خرابی بھی وہ جانچ سکتا ہے۔
''کتنے کا نقصان ہوا خالہ جی آپ کا؟ '' میں نے روایتی سا سوال پوچھا جو کہ ہم میں سے ہر کوئی اس وقت پوچھتا ہے جب کسی کے ہاں کوئی چوری چکاری کی واردات ہوتی ہے، ان کے ہاں تو تقریبا ڈاکہ ہی پڑا تھا۔
''کچھ صحیح اندازہ نہیں بیٹا... '' انھوں نے ٹھنڈی سانس کھینچی، '' بہوؤں کے اپنے اپنے کمروں میں کیا کیا دھرا تھا اور اس میں سے کیا کیا گیا اور کیا بچا، بعد میں دیکھیں گے، فی الحال تو صدمے اور خوف کے زیر اثر ہیں! ''
''پولیس میں رپورٹ لکھوائی آپ نے؟ '' کسی اور نے سوال کیا۔''ہوں لکھوائی ہے رپورٹ! '' خالہ جی نے بتایا۔
''کسی پر کوئی شک یا شبہ؟ '' میں نے پوچھا۔
''شک کیا بیٹا... پورا یقین ہے... ہم سب نے اسے پہچان لیا تھا، اس کی آواز اور قد و قامت سے!''
''کیا کوئی پرانا ملازم؟ '' ایک اور سوال۔
''نہیں بیٹا... ہے ایک پھیری والا جو کہ ہر چیزمرمت کر لیتا ہے... ''
''مثلاً؟ ''
''پتا نہیں کیا کیا... مگر ہمارے ہاں وہ سلائی مشین، پریشر ککر، گیزر، چولہا، ائر کنڈیشنر، چھت کا پنکھا، واٹر کولر، کپڑے دھونے والی مشین اور فریج ٹھیک کر چکا ہے... '' خالہ کی ایک بہو نے بتایا۔
''اچھا... '' لمبی سی اچھا میرے منہ سے نکل گئی، '' اتنا ہر فن مولا تو نہ کوئی ڈاکٹر ہو گا نہ کوئی انجینئر اور نہ ہی کوئی مکینک... آپ نے کہاں سے ڈھونڈ لیا ایسا all in one آدمی؟ ''۔ ''ہماری کام والی لائی تھی... ''
''اور آپ کی کام والی کو کون لایا تھا؟ ''
''ہمارے پڑوسیوں کے کام والی! '' فوراً جواب آیا۔
''کہاں رہتی ہے آپ کی کام والی؟ ''
''معلوم نہیں... ''
''اس کا کوئی اتا پتا نہیں آپ کے پاس تو کبھی اس سے رابطہ کرنا پڑے تو کیسے کرتے ہیں آپ؟ ''
''موبائل فون پر... '' خالہ نے بتایا۔
''کتنی بڑی غلطی کرتے ہیں ہم لوگ! '' ہم سب، میں، آپ اور خالہ جیسے سب لوگ... ہم سب ایسی بنیادی غلطی کرتے ہیں... بار بار کہا جاتا ہے کہ ملازم رکھتے وقت، کسی کو کرائے پر اپنا پورا یا آدھا گھر دیتے وقت یا گھر پر کسی چیز کی مرمت یا تعمیر کا کام کروانے سے قبل ، کام پر لگانے والوں کی جانچ پڑتال ضروری ہے۔خالہ کے گھر کی مثال لے لیں... گھر کے مرد دن بھر کام پر ہوتے ہیں اور گھر پر فقط تین عورتیں ، مرمت کرنے والا مشکوک آدمی ملازمہ کی ہمراہی یا معاونت سے گھر کا چپہ چپہ، تمام خارجی اور داخلی راستے اور گھر کا اندرونی محل وقوع سمجھ چکا تھا، نہ بھی ہوتا تو ملازمہ دن دہاڑے بھی اس کی معاونت کر سکتی تھی۔
حالانکہ ان کی ملازمہ ہر روز کے معمول کے مطابق اپنے کام پر موجود تھی اور ہمیں چائے پانی دیتے ہوئے اس کے چہرے پر پریشانی بھی مترشح نظر آ رہی تھی۔ لیکن اگر وہ اس واردات کے پس منظر میں تھی تو کمال کی اداکاری کر رہی تھی، یقینا یہ اس کی پہلی '' کارروائی '' نہ تھی، اسے جگہ جگہ خالہ او ر اس کی بہوؤں جیسے سادہ شکار بآسانی مل جاتے ہوں گے جو یوں سائیکل پر کچھ سامان دھرے گلی گلی آوازے لگاتے اور گھروں کی بیبیوں کو متوجہ کرتے ہیں۔انھیں گھر بیٹھے یوں سستا سا کام کرنے والا مل جاتا ہے... اسے پریشر ککر یا سلائی مشین کی مرمت کا کچھ نہ کچھ آئیڈیا رہا ہو گا... گیزر عموما ہمارے ہاں کی عورتوں کو چلانا ہی نہیں آتا سو اس میں کوئی معمولی خرابی بھی وہ جانچ سکتا ہے۔
ان کے ہاں کپڑے دھونے کی مشین، پنکھے، اے سی اور دیگر مشینوں میں سے اہم ترین حصہ وہ نکال کر لے جاتا تھا اور دو ایک دن کے بعد آ کر واپس لگا دیتا تھا۔ یقینا وہ کہیں اور سے مرمت کروا کر لا رہا تھا... آپ اپنے گھر سے اندازہ کریں کہ گھر کے کس کس حصے تک اس کی رسائی نہ ہوئی ہو گی!!! گھروں کی تعمیر کے وقت ہم کس قدر اس بات کا خیال رکھتے ہیں کہ دروازوں پر مضبوط تالے ہوں، کھڑکیوں اور روشن دانوں پر لوہے کی گرلیں ہوں، گیٹ اونچا اور مضبوط ہو، بیرونی دیوار اتنی اونچی ہو کہ باہر سے جھانک نہ پڑتی ہو... مگر جب معاملہ اس طرح کا ہو تو ہم ذرا بھی خیال نہیں کرتے اور چوروں اور ڈاکوؤں کو خود نہ صرف اپنے گھر میں داخلے کی اجازت دیتے ہیں بلکہ انھیں ہر طرح کا تفصیلی جائزہ لینے کی آزادی ہوتی ہے۔
اصل میں ہمیں جس طرح self medication اور نیم حکیموں سے مشوروں کی عادت ہے اور ہر کسی کی آزمودہ دوا کو بغیر ڈاکٹر سے پوچھے خود پر آزما لیتے ہیں اسی طرح ہم ہرنیم مکینک کو اپنے گھر میں گھسا لیتے ہیں... چاہے وہ بھیڑ کی کھال میں بھیڑیا ہو۔''ایک ڈاکٹر بھی ایسا نہیں ہوتا جس کے پاس ہم جسم کی ہر بیماری کے لیے جا سکیں... سر تا پا سیکڑوں نوعیت کے اعضاء اور ان اعضاء کے لیے بھی مختلف اقسام کے ڈاکٹر ہیں، آنکھوں کے لیے نظر کے عمومی معائنے کا اور ڈاکٹر ہے اور آنکھ کی بیماریوں کے علاج کا اور... آپریشن کے لیے اور۔ دانت نکالنے کا ڈاکٹر اور ہے اور نیا دانت لگانے کا اور ، اسی طرح دیگر اعضاء کے مخصوص ڈاکٹر ہیں۔ کہیں ایسا ڈاکٹر نہیں دیکھا جو کہ دانت بھی نکال اور لگا لیتا ہو اور پتے کا آپریشن بھی کر لیتا ہو، آنکھ کا موتیا بھی نکال سکتا ہو اور ہڈی کا فریکچر بھی جوڑ لیتا ہو... '' میں نے حسب عادت طویل لیکچر شروع کیا تو خالہ کی بہوؤں کو جمائیاں آنا شروع ہو گئیں کیونکہ انھیں وہی کرنا تھا جو وہ اب تک کرتی آئی تھیں۔
اس ایک '' مکینک '' کو ان سب نے پہچان لیا تھا جو کہ اپنے ساتھیوں کے ہمراہ آ کر اسلحے کے زور پر ان کے ہاں سے سب کچھ لوٹ کر چلتا بنا تھا۔ پولیس اپنی کارروائی کا آغاز کرے گی تو اسی ملازمہ سے کام شروع ہو گا مگر کیا ان کا لوٹا ہوا مال اور زیور مل جائے گا؟ کیا پولیس اس معاملے میں کسی مقام پر '' مک مکا '' کر کے انھیں چلتا نہیں کرے گی؟ یہ سب تو قیاس آرائیاں ہیں جو کہ شنید پر قیاس کی گئی ہیں...اصل مسئلہ یہ ہے کہ یہ سلسلہ ایک خالہ کے ہاں نہیں ہوا... کوئی اور کام والی رکھ لی جائے گی، یہ والی اس تفتیش سے بچ گئی تو کہیں اور تاڑ لے گی۔
ملک میں جگہ جگہ یہ چلتے پھرتے مکینک موجود ہیں، جو ہمارے گھروں میں اندر تک داخلے کا راستہ پا لیتے ہیں، لمحوں میں بھی کارروائی کر لیتے ہیں، آپ کے ایک گلاس پانی لینے کے لیے جانے کی دیر میں۔ کہیں یہ کچھ بیچنے کے لیے آتے ہیں خواہ وہ پلاسٹک کے برتن ہوں یا سستا کپڑا، کہیں پرانا لوہا ، ردی کاغذ اور ٹوٹے ہوئے جوتے اور پرانے کپڑے خریدنے کے واسطے... انھیں چور دروازوں سے اندر آنے کی ضرورت ہے نہ گیٹ پھلانگ کر نہ کھڑکیاں کاٹ کر نہ تالے توڑ کر، ہم خود انھیں سر آنکھوں پر بٹھا کر اپنے گھر کے ہر ہر حصے تک لے جاتے ہیں، لٹتے ہیں اور سر پر بانہیں رکھ کر روتے اور نقصان کو عمر بھر روتے رہتے ہیں۔ مگر کیا ہم ایک بار لٹ کر سبق سیکھ لیتے ہیں؟ کیا ہم کسی اور کے لٹنے کی داستان سن کر محتاط ہوتے ہیں؟؟؟