میلہ کتب و جرائد
ہمارے پاس بھی دیدہ زیب ٹائٹل سے مرصع کتب ہماری میز کی زینت بن گئی ہیں
قلمکاروں کے پاس بعض اوقات اس قدر کتابیں تحفتاً یا تبصرہ اور تنقید کے حوالے سے آجاتی ہیں کہ یوں محسوس ہوتا ہے کتابوں کا میلہ لگ گیا ہے۔ ہمارے پاس بھی دیدہ زیب ٹائٹل سے مرصع کتب ہماری میز کی زینت بن گئی ہیں اور اتفاق سے یہ تمام رسائل اور کتابیں بیک وقت موصول ہوئی ہیں، اب سوچنا یہ ہے کہ کون سی کتاب کو پہلے پڑھا جائے۔ فیصلہ کرنے سے پہلے ہی میری نگاہ معروف شاعر نسیم سحر کی کتاب ''نعت نگینے'' پر آکر ٹک گئی۔
نام سے ظاہر ہے کہ نسیم سحر نے حضور پاک صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم کی عقیدت و محبت سے سرشار ہوکر نعتیہ کلام لکھا اور ''نعت نگینے'' کا نام دے کر اسے کتابی شکل میں شایع کیا۔ نسیم سحر کم و بیش 14 کتابوں کے مصنف ہیں، انھوں نے اپنے اظہار کا ذریعہ شاعری کو منتخب کیا، ہائیکو، نظمیں، غزلیں، حمد و نعت کے ساتھ ساتھ نثر کے حوالے سے بھی کام کیا، ابتدا میں افسانے لکھے، کہانیاں اور مزاحیہ مضامین و تراجم میں بھی نام روشن کیا۔ کالم نگاری و خاکہ نگاری کے ساتھ ساتھ ایک جریدہ بھی ''سحاب'' کے نام سے شایع کرتے رہے ہیں۔ وہ ایک کہنہ مشق شاعر ہیں، ان کا انداز شاعری جداگانہ ہے۔ اس کتاب میں 7 حمد باری تعالیٰ اور تقریباً 108 نظمیں شامل ہیں۔
ذہن پر اترا اچھوتا استعارہ حمد کا
ڈھونڈ لایا ہوں سمندر سے کنارا حمد کا
اک سمندر تھا کہ جس میں راستہ ملتا نہ تھا
یک بیک پھر مل گیا مجھ کو سہارا حمد کا
حافظ نور احمد قادری، نسیم سحر کی نعتیہ شاعری کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ''نسیم سحر کی شاعری انتہائی سادہ، تراکیب عام فہم، ردیف قافیے مانوس ہیں، جو اپنے قاری کو محبت رسول صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے ہمکنار کرتے ہیں۔ وہ ایک صاحب مطالعہ اور کہنہ مشق شاعر نعت ہیں، انھیں زبان پر مہارت قامہ حاصل ہے۔ ان کے نعتیہ کلام میں نئے نئے موضوعات اور مضامین شامل ہیں، جو حضور صلی اﷲ علیہ وآلہ وسلم سے قلبی محبت و وابستگی اور شیفتگی کی عکاسی کرتے ہیں۔''
ان کا بقیہ کلام ملاحظہ فرمایے:
جب بھی وہ پاک نام لکھتا ہوں
انؐ پہ لاکھوں سلام لکھتا ہوں
رکھ کے اپنے قلم کو سجدے میں
دل پہ گزری تمام لکھتا ہوں
ابھی مذکورہ کتاب میرے مطالعہ میں تھی تو اسی دن سید اذلان شاہ کی کتاب ''آوازہ'' بذریعہ ڈاک موصول ہوئی، ''آوازہ'' نسیم سحر کی شاعری کا فنی و فکری مطالعہ ہے، ''آوازہ'' کے تبصرہ نگار سید اذلان شاہ ہیں، ایوب خاور کے نام انتساب ہے۔
128 صفحات پر مشتمل کتاب تنقیدی بصیرت اور دیدہ زیب ٹائٹل سے آراستہ ہے۔ ڈاکٹر رشید امجد کی رائے کے مطابق ''اذلان شاہ نے نسیم سحر کی شاعری کا فکری و فنی جائزہ لینے کی کوشش کی ہے، یہی چیز اس کتاب کو تنقیدی کتاب بناتی ہے۔ فکری جائزے کے بعد انھوں نے فنی پہلوؤں سے نسیم سحر کی شاعری کو پرکھنے کی کوشش کی ہے اور اس کے لیے کڑے تنقیدی معیار کو برقرار رکھا ہے، پوری کتاب کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوتا ہے کہ اذلان شاہ نے اپنے سارے کام کو ایک تجزیاتی عمل سے گزارا ہے، انھوں نے جس عمدگی سے بعض جگہ جو تقابلی جائزے لیے ہیں وہ بہت خوب اور ان کی وسیع نظر اور مطالعے کے غماز ہیں۔''
سید اذلان شاہ نے کتاب کو 6 ابواب میں تقسیم کیا ہے اور ہر باب مختلف موضوعات کا انتخاب کرکے نسیم سحر کی شاعری کا جائزہ لیا ہے، مثال کے طور پر پہلے باب میں ابتدائی شاعری، حالات زندگی اور خاندانی پس منظر وغیرہ کی عکاسی اس طرح کی ہے کہ قاری کو پڑھتے ہوئے تشنگی محسوس نہیں ہوتی ہے۔
باب نمبر 5 میں سید اذلان شاہ لکھتے ہیں کہ نسیم سحر کا نظریہ فن ہمہ گیریت اور عالم گیریت پر مشتمل ہے، وہ فن برائے زندگی کے قائل ہیں، ان کے اشعار میں کسی بڑے فنکار کی اعلیٰ پائے کی سوچ، زندگی اور اس کی خوبصورتیاں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ تمام ابواب کے مطالعے کے بعد میں اس نتیجے پر پہنچی کہ سید اذلان شاہ نے بے حد خلوص اور سچائی کے ساتھ نسیم سحر کی شاعری کا جائزہ لیا ہے اور ان کی شاعری کے مختلف گوشوں پر بات کی ہے۔
سہ ماہی 'نزول'' بھی سید اذلان شاہ کی ادارت میں شایع ہوتا ہے، نزول میں شایع ہونے والی تخلیقات اور دوسری تحریریں معیار کے اعتبار سے قابل تعریف ہوتی ہیں، اداریہ بھی کھری کھری باتوں اور نقادوں و قلمکاروں کے دہرے معیار کا عکاس ہے۔ سید اذلان ان حقائق کی نشاندہی کرتے ہیں جو واقعی قابل مذمت ہیں اور جن کی وجہ سے گلستان ادب کے کچھ پودوں کی نشوونما نہیں ہو پاتی ہے، وہ اپنے اداریہ میں لکھتے ہیں کہ ''ہر کسی کو اپنی اپنی پڑی ہوئی ہے، نئے اور روشن تر مستقبل کا خواب ایک طرف، حال کے لالے پڑے ہوئے ہیں، اگر کچھ لوگ کام کر رہے ہیں تو ان کا کام مخصوص اور محدود علاقوں کے لیے ہے، اپنے اردگرد چند داد دینے والے جمع کرکے اپنا قلعہ بناکر اپنی اپنی بادشاہی قائم کرلی گئی ہے۔''
بات تو صحیح ہے کہ فی زمانہ ایسے ہی حالات ہیں، اپنا قاری، اپنا سامع اور اپنا اپنا نقاد، جو اپنے جاننے ملنے والوں کے کام کی توصیف کرتے نہیں تھکتا، ادبی محافل میں بھی یہی رویہ ہے، اگر کوئی واقف کار ہے تو اس کی ناقص تحریر کی بھی واہ واہ کی جاتی ہے اور جھوٹ بولتے ہوئے ذرہ برابر شرم نہیں آتی، اس کے برعکس کسی مخالف پارٹی کے فنکار نے کوئی شاہکار تخلیق کیا ہے تو وہ دشمنوں کی آنکھ میں کھٹکنے لگتا ہے، اس میں اس قدر عیب تلاش کرلیے جاتے ہیں کہ داد دینے کو جی چاہتا ہے، یوں لگتا ہے کہ بدنما اعمال میں پی ایچ ڈی کیا ہوا ہے۔ خیر جانے دیجیے، ایسے لوگ منفی کام کرکے سکون قلب حاصل کرتے ہیں۔ جو بڑی حیرت کی بات ہے۔
مذکورہ پرچے میں اس بار محمد حمید شاہد کا گوشہ نکالا گیا ہے۔ محمد حمید شاہد کا نام تنقید و تحقیق کے اعتبار سے معتبر ہے، افسانے بھی لکھتے ہیں۔ انھوں نے سوشل میڈیا پر ادبی و علمی کاموں کو فروغ دینے کے لیے مثبت کام کیا ہے۔ محمد حمید شاہد نے افسانوں کے ساتھ ناول بھی لکھا ہے اور سکہ بند ادیبوں نے ان کے اعلیٰ سطح کے کاموں پر داد و تحسین سے نوازا ہے۔ ظفر اقبال صاحب کا مضمون ''مٹی آدم کھاتی ہے'' اسی ناول پر شمس الرحمٰن فاروقی کا مضمون بھی ہے، علی امام نقوی، ڈاکٹر اسلم فرخی، ڈاکٹر ضیا الحسن نے افسانوی اسلوب پر خامہ فرسائی کی ہے۔
''عکاس'' انٹرنیشنل 19 بھی دیدہ زیب ٹائٹل اور اہم گوشوں اور موثر تحریروں سے جگ مگ کرتا ہوا مجھ تک پہنچ گیا ہے، اس پرچے کے مرتب ارشد خالد ہیں۔ ارشد خالد کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ اپنے لکھنے والوں کی بے حد قدر کرتے ہیں، ساتھ میں تعصب اور گروہ بندی کے بھی سخت مخالف ہیں اسی وجہ سے ہر خاص و عام کی تحریریں عکاس کی زینت بن جاتی ہیں۔ اس بار انھوں نے عبداللہ جاوید اور شہناز خانم عابدی کے گوشے اور تیسرا گوشہ راقم الحروف کا ہے، دونوں بلکہ تینوں گوشے انھوں نے بے لوث خلوص کے ساتھ شایع کیے ہیں، ورنہ آج کے دور میں گوشوں کی اشاعت بھی خرید و فروخت کے زمرے میں آتی ہے، جتنی رقم ادا کریں اتنا ہی اچھا گوشہ منظر عام پر آتا ہے، لیکن فی زمانہ مہنگائی بہت زیادہ ہے، پرچوں کے مدیر ایسا کرنے پر مجبور ہیں لیکن سب ایسے نہیں ہوتے ہیں۔
عبداﷲ جاوید کے فن پر ناقدین نے دادوتحسین کے پھول نچھاور کیے ہیں۔ اسی طرح شہناز عابدی کے تخلیقی امور کو سراہا گیا ہے۔ راقم السطور کا گوشہ بھی ادبا و شعرا نے بے حد پسند کیا، مذکورہ گوشے میں تخلیق کار و ناقدین نے مختلف کتابوں، خصوصاً ''نرک''، ''گلاب فن'' اور دوسرے افسانے ''خاک میں صورتیں'' اور ''اردو شاعری میں تصور زن'' پر مضامین لکھ کر خراج تحسین پیش کیا ہے۔ جہاں گوشوں کی اشاعت ہے، وہاں حیدر قریشی کا قابل ذکر مضمون ستیہ پال آنند، قارئین کو دعوت فکر دیتا ہے اور بہت سی معلومات کے در وا کرتا ہے۔