حسینوں کا قبیلہ
عورت راج پر مبنی اس قبیلے میں عورتیں مردوں پر حاوی ہوتی ہیں۔
ISLAMABAD:
ایک انگریزی فلم "Female 300" جسے اردو میں ''حسینوں کا قبیلہ'' کا نام دیا گیا تھا۔ دیکھنے کا اتفاق ہوا تھا۔ اس نام میں ساؤتھ امریکا کے ایمیزون کے جنگل میں 300 عورتوں پر مشتمل قبیلہ دکھایا گیا تھا۔ جب کوئی مرد ان حسیناؤں کی بستی کا رخ کرتا تو یہ عورتیں اسے گرفتار کرکے قید کرلیتیں صرف رات کے وقت انھیں آزاد رکھتے اور اس وقت تک مردوں کو زندہ رکھتے جب تک مرد جوان رہتا ،بوڑھا ہونے پر اس مرد کا سر تن سے جدا کردیتیں۔ عورت راج پر مبنی اس قبیلے میں عورتیں مردوں پر حاوی ہوتی ہیں۔ جب کوئی مرد پسند آتا ہے تو حسیناؤں کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے جو حسینہ جیت جاتی ہے تو وہ مرد اس کا ہوجاتا ہے۔
فلم کا ہیرو جو سونے کا خزانہ اس جنگل میں تلاش کرنے کے لیے آیا ہوتا ہے ان حسیناؤں کے ہتھے چڑھ جاتا ہے اور مقید ہوجاتا ہے۔ ایک دن فلم کا ولن عورتوں کے اس قبیلے پر حملہ آور ہوجاتا ہے اور پوری بستی کو آگ کی نذر کردیتا ہے اور رفو چکر ہوجاتا ہے۔ ہیرو ایک ایک کرکے حسیناؤں کو اس لگی آگ سے بچاتا ہے تب ان حسیناؤں کو احساس ہوتا ہے کہ عورت کی حفاظت کے لیے مرد کا ہونا ضروری ہے۔ فلم کے آخر میں ہیرو واپس اپنے وطن نیویارک کی طرف روانہ ہوجاتا ہے اور حسینائیں بھی عورتوں پر مشتمل ایک نئی بستی آباد کرلیتی ہیں تاکہ ان کی آزادی مردوں کے ہاتھوں نہ چلی جائے اور وہ آزاد زندہ رہ سکیں۔
یہ تو تھی ایک فلم کی مختصر کہانی جو مجھے اس لیے یاد آئی کہ حقیقی دنیا میں بھی صرف عورتوں پر مشتمل ایک بستی پائی جاتی ہے۔ جی ہاں! جنوب مشرقی برازیل کا ایک قصبہ عالمی شہرت کا حامل بن چکا ہے جہاں کی آبادی اگرچہ 600 نفوس پر مشتمل ہے لیکن اس آبادی کا سو فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے اور یہاں کسی مرد کا داخلہ سختی سے منع ہے۔ اگر اس قبیلے کی کوئی خاتون شادی کرنا چاہتی ہے تو اسے پابند کیا جاتا ہے اس کا شوہر اس بستی کا رخ نہ کرے۔ بستی کے باہر شادی شدہ عورتوں کے لیے الگ جگہ بنائی گئی ہے، خلاف ورزی کی صورت میں اس خاتون کو بستی سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔ ان خواتین کا ذریعہ معاش کھیتی باڑی ہے۔
نوئیواڈوکورڈیرو نامی قصبے میں خواتین نے قانون کے تحت اپنی آبادی رجسٹرڈ بھی کرائی ہوئی ہے اور صنف مخالف کے کسی بھی فرد کو حتیٰ کہ بچے کو بھی یہاں داخلے کی اجازت نہیں ہے۔ قصبے کے تمام تر انتظامی امور اور کھیتی باڑی خواتین سنبھالتی ہیں۔ سوشل ویب سائٹ فیس بک پر حال ہی میں اس قصبے کی تصاویر شامل کیے جانے کے بعد دنیا بھر میں اس کی شہرت ہوگئی ہے اور کئی ممالک کی خواتین یہاں آنے کی خواہش مند ہیں۔ جب کہ کئی خواتین نے اپنا گھر بار چھوڑ کر اس قصبے میں رہائش اختیار کرنے کی اجازت بھی طلب کی ہے۔ برطانوی جریدے ڈیلی میل کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جنوب مشرقی برازیل کا قصبہ ''نوئیواڈو کورڈیرو'' Noivadocordeiro عالمی سیاحوں کی توجہ کا مرکز بن گیا ہے۔ لیکن یہاں صرف خواتین سیاحوں کو آنے کی اجازت ہے۔
جریدے کے مطابق یہاں خواتین کی رجسٹرڈ آبادی 600 ہے۔ ان میں 65 خواتین شادی شدہ بھی ہیں۔ لیکن چونکہ خواتین کی حکمرانی والے اس قصبے میں کسی مرد کو آنے کی اجازت نہیں اس لیے ان کے شوہروں کی رہائش قصبے سے باہر ہی ہے۔ برازیلی اخبارات کے مطابق اس قصبے کے تمام تر کام خواتین کی ایک انجمن کرتی ہے جس میں کھیتی باڑی اور باغبانی کا کام بھی شامل ہے۔
یہاں ایسی کئی خواتین بھی ہیں کہ جنھوں نے ''خواتین کی حقیقی دنیا'' میں شمولیت اختیار کرنے کے لیے اپنے شوہروں اور بچوں کو بھی چھوڑ دیا ہے۔ شوہروں اور بچوں سے ملنے یا بیرونی دنیا سے رابطے کے لیے انھیں ہر چھ ماہ بعد ایک دن کے لیے اجازت دی جاتی ہے۔ اس روز یہ خواتین قصبے سے نکل کر باہر کی دنیا میں چلی جاتی ہیں اور اپنے شوہروں اور بچوں سے ملاقاتیں کرتی ہیں اور اگلے دن واپس آجاتی ہیں ۔ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ یہاں فارمنگ اور فش فارمنگ سے لے کر ٹریکٹر چلانے اور کلیسا میں پادری کا کام بھی خواتین ہی کرتی ہیں جس کے لیے انھیں خصوصی طور پر کیتھیڈرل سے اجازت ملی ہوئی ہے ۔
ایک خاتون کا کہنا ہے کہ ہم یہ دنیا قائم کرکے ثابت کرنا چاہتے تھے کہ خواتین، مردوں کی مدد کے بغیر بھی اپنی زندگی کا بوجھ اٹھا سکتی ہیں ۔ خواتین کی دنیا کی حکمراں 48 سالہ روسالی فرنانڈیز کہتی ہیں کہ ''میں دعوے سے کہہ سکتی ہوں کہ مردوں کی نسبت ہم خواتین سارا کام انتہائی پرسکون اور منظم انداز میں کر رہی ہیں ۔ اسی لیے اب ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ اپنی دنیا کو مزید وسعت دیں گے اور اپنے اراکین کی تعداد 600 سے بڑھاکر 2000 تک لے جانا چاہتے ہیں ۔ اس حوالے سے جلد ازجلد ہی اپنی ممبر شپ کا آغاز کر رہے ہیں ۔ دنیا بھر کی خواتین نے ہماری دنیا میں شمولیت اختیار کرنے کی اجازت طلب کی ہے ''23 سالہ خاتون نیلما کا کہنا ہے کہ ''یہ سچ ہے کہ ہمیں مردوں کو دیکھے ایک عرصہ ہوچکا ہے لیکن ہم سب اس کے عادی ہوچکے ہیں اور اپنی دنیا میں مگن ہیں ۔''
ہماری پاک فلم انڈسٹری میں اداکار رنگیلا ہر فن مولا رہا ہے ۔ برسوں پہلے انھوں نے شوہروں کے ہاتھوں مظلوم عورتوں کے مسائل کو اجاگر کرنے کے لیے ایک ایسی فلم بنائی تھی جس میں مردوں کو عورتوں کا اور عورتوں کو مردوں کا روپ دیا تھا۔ ''عورت راج'' نامی اس فلم میں ہیرو کا کردار ادا کار رانی نے اور ہیروئن کا رول وحید مراد نے ادا کیا تھا جب کہ اداکار سلطان راہی نے عورت بن کر ایک ناکام محبوبہ کا رول پلے کیا تھا ۔ یہ بہت ہی دلچسپ فلم تھی جس میں مردوں کو احساس دلایا گیا تھا کہ اگر وہ عورت ہوتی تو ان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہوتا جو وہ اپنی عورتوں کے ساتھ روا رکھتے ہیں ۔
یہ ایک خیالی فلم تھی جس میں فلم کا ہیرو وحید مراد اپنی بیوی رانی کے ساتھ ناروا سلوک کرکے سو جاتا ہے تو وہ خواب میں دیکھتا ہے کہ ایک ملنگ فقیر گا رہا ہے ''انشا جی اٹھو اب کوچ کرو'' اسی دوران ایک سائنس دان اپنے بنائے ہوئے فارمولے جو بم کی صورت میں ہوتا ہے ٹیسٹ کرتا ہے تو وہ پھٹ جاتا ہے اور اس کے دھوئیں میں سارا شہر لپیٹ میں آجاتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے مرد، عورت اور عورت، مرد بن جاتے ہیں۔
یہیں سے کہانی شروع ہوجاتی ہے اور مرد، عورت بن کر وہی کچھ سہہ لیتا ہے جو ہمارے معاشرے میں قدم بہ قدم عورت سہہ لیتی ہے۔ نیند سے بیدار ہونے کے بعد ہیرو وحید مراد کو احساس ہوجاتا ہے کہ اس کا رویہ اپنی عورت ہیروئن رانی سے بہتر کرنا چاہیے۔ آج اگر اداکار رنگیلا ہمارے درمیان ہوتا تو وہ اپنے تصور ''عورت راج'' کو اس دنیا میں بھی حقیقی معنوں میں برازیل اور انگریزی فلم "Female 300" میں دیکھ کر حیرت زدہ ہوجاتا کہ اس کے تصور نے حقیقی روپ دھار لیا ہے۔بدلتا ہے رنگ آسماں کیسے کیسے ۔