آپ کی باتوں سے مجھے کچھ یاد آیا
جنوری 1965 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایوب خان دھاندلی سے جیت تو گئے تھے، مگر اخلاقی جواز کھو بیٹھے تھے۔
پیپلزپارٹی کے چیئرپرسن بلاول زرداری بقرعید پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے ہر قومی رہنما پر بے بھاؤ برسے، کسی کو جینا حرام کرنے کی دھمکی دی، کسی کی سیاسی قربانیوں کو چیلنج کیا اور کسی کو دہشت گردوں کا سرپرست اعلیٰ قرار دیا۔ یہ جذباتی اور بلند آہنگ تقریر انھوں نے خود نہیں کی بلکہ انھیں کسی نے لکھ کر دی تھی، جس کے ذہن میں شاید ان کے نانا کا اندازِ سیاست سمایا ہوا ہے، جو دیگر سیاست دانوں کو مختلف ناموں سے پکارتے اور انھیں چیلنج کیا کرتے تھے۔
لیکن شاید تقریر لکھنے والے نے یہ بھلادیا کہ بلاول کے نانا کسی کی لکھی تقریر پڑھنے کے عادی نہیں تھے، بلکہ وہ اپنی بات خود کیا کرتے تھے۔ پھر وہ زمانہ اور تھا، یہ زمانہ اور ہے۔ وہ پیپلز پارٹی کے ابھار کا زمانہ تھا، یہ گہنائی ہوئی جماعت کو دوبارہ فعال کرنے کی ایک کوشش ہے۔ کچھ لوگوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس لب و لہجہ کا مقصد روٹھے ہوئے پرانے ساتھیوں کو مناکر واپس لانا اور 18 اکتوبر کے جلسے کو کامیاب بنانا ہے۔ اس تند و تیز لہجہ کے اسباب کچھ ہی کیوں نہ ہوں، یادوں کے کئی دریچے کھول دیے۔
جنوری 1965 میں ہونے والے صدارتی انتخابات میں ایوب خان دھاندلی سے جیت تو گئے تھے، مگر اخلاقی جواز کھو بیٹھے تھے۔ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت بحال کرنے کے لیے انھوں نے بھارت کے ساتھ جنگ کا سہارا لینے کی کوشش کی۔ مگر ائیر مارشل (ر) اصغرخان کے بقول 17 روزہ اس جنگ نے ایوب خان کو مزید کمزور کردیا۔ یہ وہ زمانہ تھا جب مغربی پاکستان بالخصوص سندھ اور پنجاب میں ایک نئی اربن مڈل کلاس ابھر رہی تھی، جس کی اپنی سماجی و معاشی ضروریات کی وجہ سے ایک نئی سیاسی سوچ پروان چڑھ رہی تھی۔
اس وقت جو سیاسی جماعتیں موجود تھیں، ان میں گوکہ نیشنل عوامی پارٹی (NAP) کے دونوں دھڑے مڈل کلاس کے ترجمان تصور کیے جاتے تھے۔ لیکن یہ سندھ اور پنجاب میں زیادہ قبولیت نہیں رکھتے تھے۔ NAP کے ولی گروپ پر پختون قوم پرستی کا الزام تھا، جب کہ بھاشانی گروپ سابقہ مشرقی پاکستان میں زیادہ مقبول تھا۔ اس لیے ایک ایسی نئی سیاسی جماعت کی ضرورت شدت سے محسوس کی جارہی تھی، جو سندھ اور پنجاب کی اربن مڈل کلاس کے جذبات و احساسات کی ترجمانی کرسکے۔
جنوری 1966 میں تاشقند معاہدے کے نتیجے میں جب ایوب خان اور بھٹو کے درمیان اختلافات پیدا ہوئے، تو بھٹو مرحوم مستعفی ہونے کے بعد بیرون ملک چلے گئے، جہاں فرینکفرٹ میں ان کی ملاقات مغربی جرمنی میں پاکستان کے سفیر جے اے رحیم سے ہوئی۔ جو ایک نئی سیاسی جماعت کے مسودے پر کام کررہے تھے۔ اس مسودے کو انھوں نے بھٹو صاحب کی خدمت میں پیش کیا۔ یہ مسودہ اربن مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے ان دانشوروں نے تیار کیا تھا، جن میں سے کوئی بھی ایسی کرشماتی شخصیت نہیں رکھتا تھا، جو سیاسی جماعت کی قیادت کے لیے ضروری ہوتی ہے۔
بھٹو اقوام متحدہ میں بھارت کے ساتھ ہزار برس تک جنگ لڑنے، اس وقت کے بھارتی وزیر خارجہ سورن سنگھ کو استہزائیہ انداز میں مخاطب کرنے اور تاشقند معاہدے کے بارے میں تحفظات کا اظہار کرنے کی وجہ سے سندھ اور پنجاب کی مڈل کلاس کی بھرپور توجہ حاصل کرچکے تھے۔ اس لیے وہ اس نئی جماعت کی قیادت کے لیے موزوں ترین شخصیت قرار پائے۔ چنانچہ حنیف رامے، ڈاکٹر مبشر حسن، خورشید حسن میر، ملک معراج خالد، شیخ محمد رشید (کامریڈ)، احمد رضا قصوری، امان اللہ خان، حیات محمد خان شیرپائو، حق نواز گنڈاپور، میر رسول بخش تالپور، معراج محمد خان سمیت مڈل کلاس سے تعلق رکھنے والے کئی سیاسی رہنمائوں اور دانشوروں نے گلبرگ لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر پر جمع ہوکر جے اے رحیم کے تیار کردہ مسودے کو عملی شکل دینے کا اصولی فیصلہ کیا۔
30 نومبر 1967 کو پیپلزپارٹی وجود میں آئی، جس کی قیادت کے لیے ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو متفقہ طور پر رہنما تسلیم کیا گیا۔ بھٹو مرحوم کی خواہش پر پارٹی کے بانی اراکین کی فہرست میں ممتاز علی بھٹو اور غلام مصطفیٰ کھر کو بھی شامل کرلیا گیا، جو بھٹو مرحوم کے ہمدم دیرینہ تھے۔اپنے قیام کے وقت سے دسمبر 1971 تک پیپلز پارٹی اربن مڈل کلاس کی نمایندہ روشن خیال سیاسی جماعت سمجھی جاتی تھی۔ انتخابات کے بعد ایک برس کے دوران پیپلز پارٹی نے ملک کی سب سے بڑی جماعت عوامی لیگ کے خلاف فوجی اسٹبلشمنٹ کا جس انداز میں ساتھ دیا، اس نے سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے ایک بڑے حلقے کو مایوس کیا۔
لیکن اس کے باوجود پیپلز پارٹی کی مقبولیت میں کوئی کمی واقع نہیں ہوئی۔ سقوط ڈھاکا کے بعد جب باقی ماندہ پاکستان میں پیپلز پارٹی کو حق حکمرانی ملا تو اس نے ملک کو آئین دینے کے علاوہ اپنے منشور میں بیان کردہ بعض اصلاحات بھی متعارف کرانے کی کوشش کی۔ ان میں سے کچھ کو ملکی اور عالمی سطح پر پذیرائی حاصل ہوئی، جب کہ کچھ متنازع قرار پائیں۔ اس دوران سندھ اور جنوبی پنجاب سے روایتی جاگیردار سیاستدانوں کے ٹولے نے پیپلز پارٹی کا رخ کرنا شروع کیا۔
چنانچہ 1977 کے انتخابات کے آنے تک وڈیرے اور جاگیردار پیپلز پارٹی میںاپنی جگہ بناچکے تھے۔ اگر 1970 اور 1977 کے انتخابات میں پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کامیابی حاصل کرنے والے امیدواروں کا موازنہ کیا جائے تو 1977 میں بیشتر نشستوں سے روایتی زمیندار منتخب ہوئے، جو پیپلز پارٹی کے اقتدار میں آنے کے بعد اس میں شامل ہوئے تھے۔
یوں پیپلز پارٹی کا اربن مڈل کلاس کا رنگ اس کے اقتدار میں آنے کے بعد گہنانا شروع ہوگیا اور ایک ایسی شناخت سامنے آنے لگی، جو روایتی فیوڈل سوچ کی غماز تھی۔ پیپلز پارٹی میں موجود بعض اہل دانش نے اس تبدیلی کو محسوس ضرور کیا، مگر اس کے اظہار سے گریز کرتے ہوئے خاموشی اختیار کیے رکھی۔ اس کی وجہ شاید پارٹی کے بانی سیکریٹری جے اے رحیم کے ساتھ روا رکھا گیا رویہ ہو یا پھر معراج محمد خان، مختار رانا سمیت کئی بانی اراکین کے ساتھ ہونے والی زیادتیاں ہوں، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی اپنی اصل فکری اساس سے ہٹتی چلی گئی۔
جنرل ضیاء کے اقدامات نے گوکہ پیپلز پارٹی کو ایک نئی زندگی عطا کی، کیونکہ کارکنوں نے بے پناہ قربانیاں دے کر پارٹی کو نامساعد حالات میں زندہ رکھنے کی ایک نئی تاریخ رقم کی۔ اسی دوران MRD کے بینر تلے بحالی جمہوریت کی تحریک چلی۔ جس میں کئی جماعتوں نے یہ جانتے ہوئے کہ بڑی کامیابی پیپلز پارٹی کو ملے گی، کھل کر حصہ لیا۔ کیونکہ ان کی نظر میں جمہوریت کی بحالی اصل مقصد تھا۔
اس دوران یہ طے ہوا تھا کہ MRD میں شامل جماعتیں کم ازکم ان جماعتوں کے سربراہان کے خلاف اپنے نمایندے کھڑے نہیں کریں گی۔ لیکن پیپلزپارٹی نے اس معاہدے کی صریحاً خلاف ورزی کرتے ہوئے قومی محاذ آزادی کے سربراہ معراج محمد خان کے خلاف لانڈھی اور کورنگی کے حلقے سے انھی کی جماعت چھوڑ کر آنے والے اقبال حیدر مرحوم کو ٹکٹ دیا، اسی طرح اقتدار میں آنے کے لیے کیے گئے معاہدے کی خاطر نوابزادہ نصراللہ مرحوم کے بجائے اسٹبلشمنٹ کے نمایندے غلام اسحاق خان کو اپنا صدراتی امیدوار بنایا۔ اس کے علاوہ سزائیں کاٹنے اور صعوبتیں برداشت کرنے والے کارکنوں کو ٹکٹ دینے کے بجائے وڈیروں اور جاگیرداروں کو ٹکٹ دیے، جس سے پیپلز پارٹی کی ترقی پسندی اور روشن خیالی داغدار ہوئی۔
دسمبر 2007 میں بی بی کی شہادت نے پیپلز پارٹی کو مزید ناقابل تلافی نقصان پہنچایا ہے۔ آج پیپلز پارٹی اپنے اصل سیاسی محور سے خاصی حد تک دور ہوچکی ہے۔ اس پر وہ لوگ قابض ہیں، جو پارٹی کی فکری اور نظریاتی اساس سے کوئی تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی ان کا ضیاء دور میں جمہوریت کی بحالی کے لیے کی جانے والی جدوجہد میں کوئی کردار تھا۔ دیرینہ وابستگی رکھنے والے مخلص اور بے لوث کارکن گھروں میں بیٹھ گئے ہیں، یا دوسری جماعتوں میں چلے گئے ہیں۔ اپنی غلط حکمت عملیوں اور طرز عمل کی وجہ سے پیپلز پارٹی کی جڑیں عوام میں مسلسل کمزور پڑرہی ہیں۔
وہ پنجاب میں اپنا اثر و نفوذ کھوچکی ہے، جب کہ سندھ میں بھی غلط پالیسیوں کے سبب زمین اس کے پیروں تلے سے کھسک رہی ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات کے مطابق سندھ اور جنوبی پنجاب کے کئی بڑے رہنما تحریک انصاف میں جانے کے لیے پر تول رہے ہیں، جو کسی بھی مناسب وقت اڑان بھر سکتے ہیں۔ ایک ایسے ماحول میں جب پارٹی اپنی ہی کوتاہیوں اور غلط حکمت عملیوں کے سبب عوامی توجہ سے محروم ہورہی ہو، نان ایشوز میں الجھنا اور دیگر سیاسی جماعتوں سے ٹکرائو کی پالیسی اختیار کرنا سودمند ثابت نہیں ہوتا، بلکہ مزید نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔
اس لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ پیپلز پارٹی تنائو اور ٹکرائو کے بجائے اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرے اور یہ دیکھنے کی کوشش کرے کہ 47 برسوں کے دوران اس نے کیا کھویا اور کیا پایا؟ آج وہ فکری، نظریاتی اور ساختی طور پر کہاں کھڑی ہے؟ اس نے عوام کو ایسا کیا دیا ہے کہ ان سے مزید حمایت کی توقع کی جائے؟
کیا ان غلطیوں، کمزوریوں اور کوتاہیوں پر نظرثانی کرنے کی ضرورت نہیں، جس نے پیپلز پارٹی کو آج اس حال تک پہنچایا ہے کہ اس کے پیروں تلے سے زمین کھسک رہی ہے؟ اس لیے محض باتیں، دعوے اور جذباتی تقاریر پر بھروسہ کرنے کے بجائے عملی کوششوں اور کاوشوں کی بھی ضرورت ہے۔ لہٰذا پیپلز پارٹی اگر اپنا کھویا ہوا مقام دوبارہ حاصل کرنے کی خواہشمند ہے تو اسے اپنی حکمت عملیوں اور طرز عمل پر بہرحال نظرثانی کرنا ہوگی۔