نیا یا پرانا پاکستان… ذرا انتظار
نئے اور پرانے پاکستان کے درمیان جو منظر نامہ بنتا ہے وہ بڑا خوفناک ہے۔
نواز شریف پرانے پاکستان کا قبضہ چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔ عمران خان کسی بھی قیمت پر نیا پاکستان بنانے پر تلے ہوئے ہیں۔ طاہر القادری پرانے یا نئے پاکستان میں انقلاب کا تڑکا لگا کر اس کی شکل بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ آصف علی زرداری موجودہ سسٹم کو بچانے کے لیے میاں صاحب کا بھرپور ساتھ دے رہے ہیں۔ چوہدری برادران ڈاکٹر طاہر القادری کے ساتھ انقلاب کی کشتی میں سوار ہیں۔ الطاف حسین اور سراج الحق کے اپنے اپنے ایجنڈے ہیں۔
ان کے بعد جو سیاستدان اہم ہیں ان کی اکثریت پیشن گوئیاں یا تنقیدکر کے اپنا وقت گزار رہی ہے۔ اس ساری صورتحال میں عوام بری طرح پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان بے چاروں کی سمجھ میں یہ بات نہیں آ رہی کہ ان کی کب سنی جائے گی۔ جب سے یہ ملک بنا ہے ان کے حصے میں وعدوں اور نعروں کے سوا کچھ نہیں آیا۔
نئے اور پرانے پاکستان کے درمیان جو منظر نامہ بنتا ہے وہ بڑا خوفناک ہے۔ مہنگائی' بیروزگاری اور لوڈشیڈنگ کی بات نہ ہی کی جائے تو بہتر ہے۔ یوں لگتا ہے یہ اس قوم کا مقدر بن چکی ہیں۔
عدالتوں سے انصاف ملنے میں تاخیر بھی پہلے جیسی ہے۔ کسی طاقتور شخصیت کے گارڈ آج بھی کسی غریب نوجوان کو سر عام گولی مار کر قتل کر دیتے ہیں۔ خودکشیاں بھی معمول ہیں۔ دھرنوں والے جلسے پر جلسہ کر رہے ہیں۔ ایک بڑا جلسہ پیپلزپارٹی بھی کرنے والی ہے۔ پیپلزپارٹی کے لیے یہ جلسہ کتنا اہم ہے اس کا اندازہ یوں لگایا جا سکتا ہے کہ پورے ملک سے جیالوں کو کراچی پہنچنے کی ہدایت جاری ہو چکی ہے۔ آصف زرداری مسلسل بلاول ہاؤس لاہور میں بیٹھ کر ملاقاتیں کر رہے ہیں۔ پنجاب میں پیپلزپارٹی کو دوبارہ اپنے پاؤ ں پر کھڑا کرنے کی کوشش بھی جاری ہے۔ یہ کوشش البتہ اس لیے کامیاب نہیں ہو سکتی کہ جب تک زرداری صاحب نواز شریف کے ساتھ ہیں تب تک پنجاب کے عوام پیپلزپارٹی کو پذیرائی نہیں بخشیں گے۔
کپتان کادعویٰ ہے کہ تبدیلی آ گئی ہے۔ یہ دعویٰ اتنا غلط بھی نہیں ہے۔ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ہوا ہے کہ اپنے مناصب پر فائز وزیراعظم' وزیراعلیٰ اور کچھ وفاقی وزراء پر قتل کی ایف آئی آر درج ہوئی ہے۔ لوگ اپنے حقوق کے لیے اور ناانصافی کے خلاف احتجاج کرنے لگے ہیں۔ وی آئی پی کلچر کے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ محض دس دن کے نوٹس پر کپتان بڑے بڑے جلسے کرنے میں کامیاب ہو رہے ہیں۔ کہیں نہ کہیں ن لیگ کے شیر بھی جاگنے لگے ہیں۔
گوجرانوالہ اور وزیرآباد کے بعد شیروں کے جاگنے کا ایک نظارہ ہم نے چند دن پہلے ملتان میں بھی دیکھا جب شیخ رشید کے گھیراؤ کی کوشش کی گئی۔ اس سے پہلے چند شیر شاہ محمود قریشی کے گھر پر بھی اس شہر میں حملہ کر چکے ہیں۔ خطرہ ہے کہ کہیں شیروں اور ٹائیگروں میں کوئی بڑا تصادم نہ ہو جائے۔ ایسا ہوا تو پھر اس سسٹم کو بچانا ممکن نہیں رہے گا۔
نوازشریف سمیت پرانے پاکستان کے سیاستدانوں کو یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ تھوڑے سے عرصے میں کافی کچھ تبدیل ہو گیا ہے۔ عمران خان سڑکوں پر نکلے تو نواز شریف نے سمجھا یا انھیں سمجھایا گیا کہ کپتان کے ساتھ زیادہ لوگ نہیں ہیں۔ عمران اور طاہر القادری کے آزادی اور انقلاب مارچ اسلام آباد میں داخل ہوئے تو واقعی اتنی بڑی تعداد ان کے ساتھ نہیں تھی کہ حکومت ڈر کر بھاگ جاتی۔ یہی وہ مرحلہ تھا جہاں عقلمندی سے کچھ فیصلے کرنے کی ضرورت تھی لیکن ہوا اس کے برعکس۔ حکومت کے چند وزیروں نے لوگوں کی کم تعداد کو اپنی کامیابی قرار دیا۔ کچھ تو باقاعدہ مولا جٹ بن گئے اور بڑھکیں مارتے رہے۔ یہ سلسلہ اب بھی کسی نہ کسی شکل میں جاری ہے۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ حکومت کہیں نظر نہیں آ رہی البتہ حکمران موجود ہیں۔ حکومت کی رٹ ختم ہو جائے تو عالمی برادری بھی اسے اہمیت دینا چھوڑدیتی ہے۔ زرداری صاحب بلاشبہ اس وقت میاں صاحب کے ساتھ کھڑے ہیں لیکن حکومت کو مشکل میں پھنسانے میں تھوڑا بہت کردار ان کا بھی ہے۔ سابق صدر نے میاں صاحب کو بلا پکڑنے کا نادر مشورہ دیا تھا۔ میاں صاحب نے یہ مشورہ مان کر جھٹ سے بلا پکڑ بھی لیا۔ وہ بلا میاں صاحب کے لیے کمبل بن گیا جسے وہ اب چھوڑنا چاہتے ہیں مگروہ انھیں چھوڑنے کے لیے تیار نہیں۔ یاد رہے کہ میاں صاحب کو بادشاہ بھی زرداری صاحب نے ہی قرار دیا تھا۔
کپتان نے احتجاج شروع کیا تو نوازشریف نے انھیں سیریس نہیں لیا۔ مجھے آج آصف زرداری اس مقام پر نظر آتے ہیں جہاں شروع میں نواز شریف تھے۔ زرداری صاحب عمران کو بلبلہ قرار دے رہے ہیں۔ یہ بلبلہ سندھ کا رخ کرنے والا ہے۔ کپتان کے جلسے جس طرح کامیاب ہورہے ہیں انھیں سامنے رکھا جائے تو لاڑکانہ کا جلسہ بھی لوگوں کی بڑی تعداد کو کھینچ لائے گا۔ پیپلزپارٹی کراچی میں تاریخی جلسہ بھی کر لے تو عمران کے لاڑکانہ والے جلسے کی اہمیت کم نہیں ہو سکے گی۔ عمران ا گر لاڑکانہ میں بڑا جلسہ کر گزرے تو پھر سندھ میں بھی تبدیلی کی لہر پیدا ہوتے دیر نہیں لگے گی۔
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ذوالفقار علی بھٹو کا تعلق سندھ سے تھا مگر انھیں الیکشن پنجاب نے جتوایا۔ مطلب یہ کہ سارا سندھ پیپلز پارٹی کا ووٹر بھٹو کے دور میں تھا نہ اب ہے' مسئلہ صرف یہ ہے کہ پیپلز پارٹی مخالف ووٹ مختلف گروہوں میں بٹا ہوا ہے' جس دن یہ گروہ متحد ہو گئے' صورتحال بدل جائے گی' پیپلزپارٹی کے پاس زیادہ وقت نہیں ہے۔ آصف زرداری اور ان کے ساتھیوں کو سوچنا ہو گا کہ کہیں وہ نواز شریف والی غلطی تو نہیں دہرا رہے۔ وقت تیزی سے گزر رہا ہے۔ نواز شریف اور آصف زرداری نے اگر اپنی پالیسیوں پر نظر ثانی کرنی ہے تو دیر نہ کریں۔
عمران خان اس وقت اپنی مقبولیت کی بلندی پر ہیں۔ سانحہ ملتان کے باوجود اس مقبولیت پر کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ طاہر القادری اور چوہدری برادران نے بھی فیصل آباد میں کامیاب شو کر لیا ہے۔ اس کے بعد سانحہ ملتان کو لوگ بھول جائیں گے۔ عمران خان نے خود کوئی بڑی غلطی نہ کی تو ان کی مقبولیت بڑھتی رہے گی۔ کپتان کے چاہنے والے ان کی غلط بات پر بھی سو فیصد یقین کر رہے ہیں۔ تبدیلی کسے نہیں چاہیے؟ لوگ خواب دیکھتے ہیں اور اگر انھیں کوئی ایسا مل جائے جو انھیں خوابوں کی اچھی تعبیر دکھانے میں کامیاب ہو جائے تو اس کے پیچھے چل پڑتے ہیں۔ تبدیلی تو اب آکے رہنی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ پرانے پاکستان کے سیاستدان یہ تبدیلی لاتے ہیں یا نیا پاکستان بنتا ہے۔ جب تک وہ تبدیلی نہیں آئی تب تک عوام بے چارے پھنسے رہیں گے۔ انتظار کے سوا کیا بھی کیا جا سکتا ہے۔؟