سلامتی کونسل اور بھارت
نریندر مودی اور ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں سرد مہری برت رہی ہے۔
SUKKUR:
پاکستانی حدود میں بھارتی فوج کی جانب سے گولہ باری کے نتیجے میں شہید ہونے والوں کے گھر والے اور زخمی ہونے والے پاکستانی شہریوں کے دل سے کوئی پوچھے کہ انھوں نے عید کی تیاری اور قربانی جیسے مذہبی فریضے کو کیسے انجام دیا۔ ان کچے پکے مکانوں پر کھیلنے والے بچوں کے معصوم دلوں سے کوئی پوچھے کہ اب ان کے ننھے دل آسمان سے آگ کے گولوں کی قیامت سے خوف سے سکڑے ہوئے ہیں ۔
ہم شہروں میں بستے، گاڑیوں میں گھومتے آسائشات کو فراوانی سے استعمال کرنے والے لوگوں کے دلوں میں شاید اس ڈراؤنے خوف کے ذرہ برابر بھی نہ ہو جو سیالکوٹ کے اردگرد کے دیہاتوں میں بسنے والے لوگوں کے دلوں میں اب بھی انھیں راتوں کو بے چین کردیتے ہیں ۔ہم پاکستان میں بستے ہیں ایک آزاد ریاست میں سانس لیتے ہیں چاہے پاکستان کا کراچی ہو یا سیالکوٹ کا کوئی چھوٹا سا دیہات، فیصل آباد ہو یا خیبر پختونخوا کا دور دراز گاؤں اس کے چپے چپے پر پاکستانیت کی چھاپ ہے۔ اسے اس کے وجود سے الگ کرنا آسان نہیں خدا کے فضل سے ناممکن ہے کیونکہ اس لفظ ناممکن میں لاکھوں لوگوں کی جانوں کا نذرانہ اور کروڑوں لوگوں کی دعاؤں کا اثر ہے۔
یوم فضائیہ کے موقعے پر نریندر مودی نے پاکستان کی حدود میں بھارتی فوج کی جانب سے اشتعال انگیز فائرنگ اور گولہ باری کے نتیجے میں ضایع ہونے والی انسانی جانوں اور زخمی ہونے والے پاکستانیوں کی بابت کے سوال کے جواب میں سب کچھ جلد ٹھیک ہوجائے گا کا ایک ٹھنڈا سا جملہ ادا کرکے اپنا مہذبانہ فریضہ ادا کردیا، سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ خراب کیا تھا؟ اور کیوں تھا؟ کس جانب سے تھا، کب سے تھا؟ ہر ایکشن کے بعد ایک ری ایکشن ہوتا ہے پاکستان کی جانب سے ہر ایکشن کے بعد ری ایکشن کیا گیا اب اس ری ایکشن کی بساط کس حد تک رہی یہ ایک الگ بحث ہے لیکن مستقل سفارتی طور پر اور دنیا کے اعلیٰ ایوانوں کو جھنجھوڑ کر اس پر احتجاج ریکارڈ کرایا جاتا رہا ہے لیکن سننے والے اپنی مصروفیات میں کب توجہ دیتے ہیں۔
مودی حکومت نے جب سے اقتدار کی باگیں سنبھالیں ایک خوف سا تھا جو پاکستان سے لے کر ہندوستان کی اٹھارہ فیصد مسلم آبادی کے دل میں جاگ اٹھا تھا ۔گو مودی اور ان کے نمایندوں نے گجرات میں کی جانے والی مسلم خونریزی کو بھلانے کے لیے مسلمانوں پر بہت سے حربے استعمال کیے تھے جو کارگر بھی رہے اور ووٹ بینک میں اضافے کے باعث بالآخر کرسی کے امیدوار ٹھہر ہی گئے لیکن یا تو ابھی یا کبھی نہیں کی پالیسی پر اب مودی حکومت نے عمل کرنا شروع کردیا ہے جس کا مظاہرہ سیالکوٹ کے اردگرد دیہاتوں میں بسنے والے برداشت کر رہے ہیں ۔
آخر ایسا کیوں ہو رہا ہے؟ یہ سوال جتنا اہم ہے اس کا جواب اتنا ہی غیر اہم ہے کیونکہ اس سوال کا جواب پاکستانی قوم کو مطلوب ہے۔ اور دنیا بھر میں پاکستان کو غیر اہم ثابت کرنے کے لیے عوامل تو سرگرم عمل ہیں ہی لیکن حالیہ امریکا اور پاکستان کی دوستی کے درمیان دوستی کے رشتے پر ان عوامل کا کیا ردعمل رہتا ہے یہ بھی اس منظرنامے میں بہت اہم ہے یا تو یہ کہ ایک بڑی طاقت سے دوستی کا مضبوط رشتہ قائم کرنے کے باوجود بھی کسی کو کوئی فرق نہیں پڑتا یا اس دوستی کو ماضی کے گئے گزرے دنوں کی مانند سرد تعلقات کے صندوق میں بند کردینے کی سازش بھی شریک عمل ہے۔
اس حقیقت سے انکار کرنا حماقت ہے کہ پاکستان جیسے ملک کو جس کو سہارے کے لیے اپنے پیروں پر کھڑا ہونے کے لیے مضبوط سہاروں کی ضرورت ہے لیکن ان مضبوط سہاروں سے حاصل کیے جانے والے فوائد سے بھی مستفید ہونا بچت اور باعمل منصوبوں پر کام کرنا ضروری ہے ورنہ سہارے تو سہارے ہی ہوتے ہیں یہ کسی وقت بھی دور ہوسکتے ہیں۔
پاکستان کے قیام کے وقت سے ہی بھارتی رہنماؤں کی نظریں اسے ٹوٹتا شکستہ حال دیکھنا چاہتی تھیں، لیکن انسانی ارادے اور فیصلے خدا کے حکم کے خلاف عمل نہیں کرسکتے، سو پاکستان کے ان 67/68 سالہ قیام کے پیچھے بھی اسی بڑی طاقت کی حاکمیت کے حکم کا اثر ہے جس کا ہم سب پاکستانی قوم کو شکر ادا کرتے رہنا چاہیے۔
یہ بات اب مفروضہ نہیں رہی بلکہ حقیقت بن گئی ہے کہ نریندر مودی اور ان کی حکومت پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں سرد مہری برت رہی ہے کیونکہ تعصب پسندی میں ابھی مودی سرکار جب بھی اپنے ونگ میں کھیلی خون کی ہولی ہی کھیلی۔ کسی بھی انسان کے کردار کو پرکھنے کے لیے ایک بہترین نسخہ یہ ہے کہ اس کے ماضی کے بارے میں جانا جائے۔ نریندر مودی کا ماضی سیاست کے حوالے سے ہندو مسلم تعصب کے زہر سے تحریر ہے وہ آج بھی ہندوستان میں بسنے والے اٹھارہ فیصد مسلم آبادی سے پریشان ہیں اقلیت کا اٹھارہ فیصد زہر 70 فیصد ہندوآبادی پر اتنا بھاری ہے کہ سازشوں کے جال بنے جا رہے ہیں۔
پاکستان جسے مسلم اکثریت آبادی کے حوالے سے علیحدہ ریاست قرار دیا گیا تھا اسی برصغیر کے ماضی کا حصہ تھا بھلا ایسے کیسے ممکن ہے کہ مودی کی جنریشن اسے بھلا دے یہ کرب یہ اذیت اب اور نجانے کب تک انھیں تڑپاتا رہے گا کیا اس تڑپ اس کرب کے تعصب کو نریندر مودی اپنے وجود سے الگ کرسکتے ہیں کیا یہ تعصب بھارت کو سلامتی کونسل کا مستقل رکن بننے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ کیا پاکستانی حدود کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بھارتی افواج کی فائرنگ اور گولہ باری دوستوں اور دشمنوں کو باور نہیں کرا رہی کہ سلامتی کونسل دو حروف کا مجموعہ ہے سلامتی اور کونسل۔ کونسل تو چلتا ہے لیکن سلامتی۔۔۔۔؟