میں پاگل نہیں دماغ چلا ہوا ہے

کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھوں کہ میں ہی ایسا ہوں، تو میں ایسا کیوں ہوں۔


قادر خان October 15, 2014
[email protected]

کراچی نفسیاتی اسپتال کے سرپرست ڈاکٹر مبین اختر کے مطابق پاکستان میں 4 کروڑ افراد ذہنی مرض میں مبتلا ہیں اور 70 فیصد علاج کے لیے کسی بھی معالج کے پاس نہیں جاتے۔ جب کہ حیران کن بات یہ ہے کہ ننانوے فیصد گھر والوں کو بھی پتہ بھی نہیں چلتا کہ ان کا رشتے دار کسی نفسیاتی الجھن میں گرفتار ہے۔ ڈاکٹر صاحب کی رپورٹ پر تو کسی قسم کا تبصرہ اس لیے نہیں کر سکتا کیونکہ میں خود ایک مرتبہ گلستان جوہر میں واقع ایک نفسیاتی اسپتال میں اپنے ذہنی خلفشار کو دور کرانے کے لیے کچھ عرصہ جاتا رہا، ایسا نہیں تھا کہ میں پاگل تھا، بلکہ کبھی کبھی مجھے لگتا تھا کہ میرا دماغ چل گیا ہے۔

مجھے جو معالج دیا گیا اس کی صنف مردانہ تھی، جب کہ میری خواہش تھی کہ کوئی صنف نازک میری معالج ہو، کیونکہ اسپتال میں خوبصورت ڈاکٹروں کو دیکھ کر دل چاہتا تھا کہ بالکل پاگل ہو جاؤں، لیکن ''دل تو پاگل ہے'' سے زیادہ آرزو کبھی نہیں رکھی کیونکہ ان کے پیروں میں پہنی ہوئی ہیل دیکھ کر مجھے اس بات کا بھی پورا یقین تھا کہ ذہنی مریض تو سب ہی ہیں اگر ایک سینڈل بھی پڑ گئی تو لینے کے دینے میں پڑ جائیں گے۔ اس لیے مردانہ نما ڈاکٹر پر ہی گزارا کرنا پڑا، لیکن وہ اس قدر زاہد تنگ نظر اور خشک مزاج تھا کہ ایک بار مجھے ایسے کہنا پڑا کہ جناب مجھے لگتا ہے کہ آپ کو اپنے علاج کی ضرورت ہے، مجھے وقت دیکر خود تاخیر سے آتے ہیں، میں جو کہنا چاہتا ہوں، تو اپنے دل کا دکھڑا سنانا شروع کر دیتے ہیں، مجھے پریشانیاں اور الجھنیں ہیں اس کا حل چاہتا ہوں میری مدد کرنے کے بجائے آپ مجھے مزید پریشان کر رہے ہیں۔ اس لیے انھیں خیر باد کہہ دیا، بار بار معافی بھی مانگی، لیکن میرا دماغ جو چلا ہوا تھا اس لیے ان کی کوئی بات سننے کو تیار نہیں ہوا اور پھر دوبارہ کسی معالج کے پاس نہیں گیا۔

کبھی کبھار سوچتا ہوں کہ ذرا یہ بھی تو دیکھوں کہ میں ہی ایسا ہوں، تو میں ایسا کیوں ہوں، لیکن بعد میں مختلف تجربے کرنے کے بعد اندازہ ہوا کہ پاکستان میں تقریبا سارے لوگ ذہنی مریض ہیں صبح اٹھتے ہی اخبار دیکھنے بیٹھ جاتے ہیں کہ رات کو کیا ہوا ہوگا، ارے رات کو کچھ ہوا ہوگا، اگر ہوتا تو الیکٹرونک میڈیا بریکنگ نیوز دے دیتا ہے، لیکن اس پر بھی ہمیں یقین نہیں آتا، پھر ٹی وی کھول کر خبر نامہ لگاتے ہیں کہ عمران خان نے دھرنا ختم کیا کہ نہیں ، قادری صاحب کے انفیکشن سے متعلق تازہ صورتحال کیا ہے، سیاستدانوں کی خیریت عافیت دریافت کرنے کے بعد چوبیس گھنٹوں کی کاؤنٹنگ کرتے ہیں کہ اس عرصے میں کتنے بے گناہ ٹارگٹ کلنگ میں جاں بحق ہوئے، کتنے پولیس مقابلے ہوئے، کتنے چھاپے پڑے، سیاسی، مذہبی جماعتوں کے کتنے کارکن شہید ہوئے، اب تو وزیر اعلی صاحب نے بھی فتوی جاری کر دیا ہے کہ کچی شراب پینے سے اگر کوئی ہلاک ہو جاتا ہے تو وہ معصوم ہی نہیں بلکہ شہید ہے، (نعوذ باللہ)۔ اب اگر ذہنی سطح کی یہ صورتحال ہو تو خود کو پاگل ہی کہا جا سکتا ہے۔

پنجاب میں سیلاب آیا ہوا ہے، لیکن سیاسی رہنما اس پر بھی سیاست کر رہے ہیں، آئی ڈی پیز کا پرسان حال کوئی نہیں لیکن ایک بات بڑی خوش کن ہے کہ پاکستان کے قیام کے بعد پہلی بار فاٹا کی عوام کے لیے فوج میں داخلے کے لیے دروازے کھول دیے گئے ہیں۔ ویسے پاکستان میں میرے نزدیک نفسیاتی مسائل کی سب سے بڑی وجہ شادی شدہ ہونا ہے اور اس سے بڑی وجہ غیر شادی شدہ ہونا ہے، شادی شدہ افراد اپنا غصہ غیر شادی شدہ نوجوانوں پر اتارتے ہیں تو غیر شادی شدہ سیاست دان اپنی کم نصیبی کا لاوا، شادی شدہ افراد بھی اتار دیتے ہیں۔

اس لیے تو جلسوں میں خواتین، بچوں اور ان کے خاوند نامدار کی موجودگیوں کو یقینی بنایا جانا فوقیت رکھتا ہے۔ کراچی میں تو یقینی طور پر جو بچے پیدا نہیں ہوئے وہ بھی ذہنی مریض ہونگے، ان کو بھی ڈر لگتا ہو گا کہ منہ دکھائی میں دیے جانے والے تحائف کوئی لوٹ نہ لے، شادی ہالوں میں ڈر لگا رہتا ہے کہ کوئی دلہن کا زیور لوٹ نہ لے، گھر خالی چھوڑ نہیں سکتے کہ محلے کا کوئی اچکا لوٹ نہ لے، ڈر خوف و ہراس کے اس سائے میں انسان ذہنی مریض نہ بنے گا تو کیونکر نہیں بنے گا۔

میں نے ایک لڑکی سے محبت کی، محبت کیا کی، ایک عذاب سر پر لے لیا، لمبے لمبے فون، میسج، کہاں ہو، کدھر ہو، کس کے ساتھ ہو، آئے کیوں نہیں، بور ہو رہی ہوں، گھومنے چلیں، فلاں ریسٹورینٹ چلیں، فلاں فلم دیکھیں، محبت نہیں کی بلکہ ایسا گناہ کر لیا کہ جیسے گارگل پر حملہ میں نے ہی کروایا ہو یا پھر عمران خان کو دھرنے اور قادری کو انقلاب کے لیے میں نے راضی کیا ہو۔

اب کمبل ہے کہ جان چھوڑتا نہیں، کیا کروں سمجھ نہیں آتا، غم سے بھرے اشعار لکھوں تو درد بھرے پیغامات آنے شروع ہو جاتے ہیں کہ تیرا غم، میرا غم ہے۔ رومانوی اشعار لکھ بیٹھوں تو، مصیبت کہ دنیا میں کیا حالات چل رہے ہیں اور تمھیں نوٹنکی سوجھی ہوئی ہے، کسی کے جنازے میں چہرہ اداس لے کر بیٹھ جانا بھی مصیبت، کہ کیا تمھاری ہوتی سوتی کا کوئی رشتے دار ہے جو اس قدر غم زدہ ہو، مسکراؤ، تصویریں بنا ئی جا رہی ہیں، مسکرانے کی کوشش میں دانت باہر نکل آتے ہیں تو چہ میگوئیاں شروع ہو جاتی ہیں کہ ہو، نہ ہو کہ اسے وصیت میں کچھ نہ کچھ ضرور ملا ہے تبھی اتنا خوش ہے۔

زندگی میں آرام نہیں، سکون نہیں، اپنی طرز کی زندگی بسر کر نہیں سکتے، تبلیغ میں جاؤ تو آواز آتی ہے کہ نو سو چوہے کھا کر بلی حج کو چلی، غصہ ہر وقت رہنے لگا ہے، لائٹ چلی جائے تو منہ سے نا مناسب الفاظ کی بھرمار، اگر لائٹ آ جائے اور کوئی بن بلایا مہمان بھی آ جائے تو بھی الیکڑک کمپنی کو کوسنے۔ ایک بار والدہ سے الجھ بیٹھا کہ، امی! امریکا میں مجھے کیوں پیدا نہیں کیا، رہ دہ کر پاکستان رہ گیا تھا، تو وہ بیچارگی سے کہنے لگی کہ بیٹا، تم وہ کام کر لو، جو میں نہیں کر سکی، سر کھجا کر باہر جانے میں عافیت سمجھتا ہوں۔

اپنی فیس بک کے پروفائل کی ٹائم لائن میں کٹی پہاڑی پر اپنی تصویر کے ساتھ لکھ دیا کہ میرا پیارا، پر امن علاقہ۔ لکھنا کیا تھا کہ مذاق بن گیا، اب اگر یہ پر امن نہیں ہے تو کیا ہے کہ ہر وقت بلا معاوضہ رینجرز، پولیس ہر وقت گشت کر رہے ہوتے ہیں، ڈاکو، ڈکیت، چور چکاری سے بچت ہو جاتی ہے، چوبیس گھنٹوں میں کسی بھی وقت گھر سے باہر جاتے وقت دنیا بھر کی دعائیں مفت میں مل جاتی ہیں، خیر عافیت اور صدقے اتارے جاتے ہیں۔ واپس آنے پر گھر والے لپٹ کر خوشی کے مارے روتے ہیں اور اگلے دن صدقہ خیر بانٹ دیتے ہیں۔ اب ایسی نعمت کسی اور علاقے میں کسی کو میسر ہو تو بتائے، ہاں، کبھی کبھار بم دہماکے، کریکر وغیرہ کے معاملات ہوتے رہتے ہیں، بچے بات نہیں سنتے تو شعلے فلم کا ڈائیلاگ مارتے ہیں کہ، خاموش ہو جاؤ، ورنہ 'بھالوـ' آ جائے گا، لیکن بچے بھی بڑے ہوشیار کہ بھالو تو مارا گیا اب کیسے آئے گا، تو انڈین فلم کا تاثر لے کر کہنا پڑتا ہے کہ اس کی روح بھٹک رہی ہے کہ جس نے اسے بھالو بنایا، اس سے انتقام لیے بغیر نہیں جائے گا۔

تو پھر بچے مسکرا کر سو جاتے ہیں کہ آج کھانے میں گوشت نہیں ملا تو اس لیے بہکی بہکی باتیں کر رہے ہیں۔ جھینپ کر کہنا پڑتا ہے کہ تم لوگ میرا مذاق مت اڑاؤ میں گوشت خور ضرور ہوں، لیکن زندہ انسانوں کا گوشت نہیں کھاتا، غیبت نہیں کرتا، جو کہتا ہوں، منہ پر کہتا ہوں، اچھا لگے یا بُرا لگے۔ لیکن مجھے پاگل مت سمجھو کیونکہ میں جو دیکھ رہا ہوں وہ تم نہیں دیکھ سکتے، تو وہ ہنس کر کہتے ہیں کہ بات تو آپ کی درست ہے کیونکہ آپ نے چشمہ جو اتار دیا ہے۔ اب آپ کو کچھ نظر ہی نہیں آ رہا تو ہم کیا جانے کہ آپ کیا دیکھ رہے ہیں۔ میں کہتا ہوں کہ چپ ہو جاؤ ، بھارت دہمکی دے رہا ہے، افغانستان غصے میں ہے، یونٹس بنائے جانے کی بات ہو رہی ہے، امریکا ناراض ہے، ایران ناراض ہے، بھائی بھی غصے میں ہے، مرسوں مرسوں بھی بہت چل رہا ہے، دعا کرو کہ جلدی پاگل ہو جاؤں تا کہ پاکستان کو پاگل ہوتا نہ دیکھ سکوں۔ اس لیے ابھی صرف میرا دماغ چلا ہے پاگل نہیں ہوا ہوں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں