کامریڈ محبوب علی چل بسا
وہ چلا گیاابھی پچھلے چار پانچ دن پہلے ہی میری بات ہوئی تھی بڑی دھیمی آواز میں بات کر کے پارٹی دوستوں کا گلہ کر رہے تھے
KARACHI:
11 اکتوبر ڈھائی بجے دن مجھے میرپورخاص سے فون آیا کہ منظور رضی بھائی ! آپ کا پیارا ساتھی کامریڈ محبوب ہمیں چھوڑ کر چلا گیا۔ میری آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا حالانکہ میں جانتا تھا کہ محبوب علی کی اب جو خبر آئے گی وہ وہی ہوگی جو مجھے دوست نے بتائی۔ وہ چلا گیا ابھی پچھلے چار پانچ دن پہلے ہی میری بات ہوئی تھی بڑی دھیمی آواز میں بات کر کے پارٹی دوستوں کا گلہ کر رہے تھے ، میں بے بس تھا ۔وہ پیپلزپارٹی کے ذمے دار دوستوں کو مسلسل مارچ 2014 سے کہہ رہا تھا کہ اس کی مدد کرو۔ اس کا علاج کرو۔ میرمنور تالپور کے سیکریٹری کو بتایا۔
میرپورخاص زون کے جنرل سیکریٹری ڈومکی صاحب کوکہا سندھ کے جنرل سیکریٹری تاج حیدر کو کہا انفارمیشن سیکریٹری لطیف مغل کو کہا۔ اخباروں میں خبر دی کالم لکھا، ظہیر اختر بیدری نے بھی کالم لکھا مگر مارچ سے اکتوبر آگیا اور وہ چلا گیا۔ گو کہ تھوڑی بہت امداد جناب ڈومکی صاحب نے کی پھر جناب شرجیل میمن صاحب نے بھی پانچ ہزار روپے اور پھولوں کا گلدستہ بھیجا مگر دیکھ بھال نہ ہوسکی وہ سول اسپتال کے سرجیکل وارڈ کے گندے بستر پر پھٹے پرانے کپڑوں، اخباروں اور کتابوں کے ڈھیر میں ایڑیاں رگڑتا ہوا اگلے جہاں کوچ کرگیا۔ عمر تو ٹھیک پائی تھی مگر ابھی اور جی لیتا اگر اس کی دیکھ بھال ہوتی۔ علاج ہوتا۔ خوراک ملتی، دوائیں ملتیں، محبتیں ملتیں۔ مگر خیر اس نے تو جانا ہی تھا ہم سب نے بھی جانا ہے مگر جس کسمپرسی میں محبوب مرا اللہ ایسی موت کسی کو نہ دے ۔
میں نے اسے خوب بہتر حالات میں دیکھا تھا جب وہ چین نواز کمیونسٹ پارٹی میں کام کرتا تھا یہ تقریباً 1967-1966 کا سال تھا۔ ایوب خان کی حکومت تھی پورے ملک میں بغاوت تھی پھر ایوب کابینہ سے ذوالفقار علی بھٹو نکلے، نیشنل عوامی پارٹی میں جانا چاہتے تھے مگر وہ پارٹی جاگیرداروں کے خلاف تھی۔
چین نواز پارٹی جس کے سرخیل طفیل عباس تھے PIA یونین کے سربراہ تھے ان کی بھٹو صاحب سے ملاقات اور پھر بعد میں دسمبر 1967 میں لاہور میں ڈاکٹر مبشر حسن کے گھر میں پاکستان پیپلزپارٹی کی بنیاد رکھ دی گئی۔ اس سے قبل بھٹو صاحب چین نواز دوستوں NSF اور DSF کے نوجوانوں سے مل چکے تھے تمام ترقی پسند انقلابیوں، طالب علموں، مزدوروں، کسانوں، دانشوروں نے بھی بھٹو صاحب کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ تب لیاقت آباد کے پہلے جنرل سیکریٹری محبوب علی، کراچی کے صدرعبدالحفیظ پیرزادہ جنرل سیکریٹری معراج محمد خان اور پھر اظہرعباس تھے اس طرح ملک بھر میں پیپلزپارٹی بن گئی۔ مجھے یاد ہے پارٹی نے فیصلہ کیا کہ کامریڈ محبوب میرپورخاص جائیں گے جہاں پارٹی اور پیپلزپارٹی کے لیے کام کریں گے۔
اس طرح 1970 میں کامریڈ محبوب میرپورخاص آگئے وہ کمیونسٹ پارٹی کے کل وقتی کارکن تھے انھوں نے میرپورخاص میں پیپلزپارٹی کا ایک بڑا جلسہ عام گاما اسٹیڈیم میں منعقد کرانے میں اہم رول ادا کیا ۔ اس جلسے میں ذوالفقار علی بھٹو نے زبردست انقلابی تقریر کرتے ہوئے جاگیرداروں کو للکارا تھا۔ راقم بھی جلسے میں موجود تھا۔ کامریڈ محبوب کے ساتھ پیپلزپارٹی کے ایک اور انقلابی رہنما میر علی بخش تالپور جوکہ میرمنور تالپور کے والد محترم تھے بھٹو صاحب کے دوست تھے۔ کامریڈ محبوب نے میرپورخاص میں ٹریڈ یونین کی بنیاد رکھی۔ ملوں، شوگر ملوں، جیننگ فیکٹریوں، بینکوں، بلدیہ میں یونینز بنائی۔
اسٹیشن روڈ پر تھر بک ڈپو کے نام کا اسٹال کھولا۔ کئی اخبارات کے نامہ نگار کی حیثیت سے کام کیا۔ کراچی سے شایع ہونے والا رسالے الفتح کے بیوروچیف رہے پارٹی کی حکومت بن گئی کرایے پر گھر بھی لے لیا اور میرپور تھرپارکر ضلع میں فعال ہوگئے، بعد میں 1974 میں بھٹو صاحب نے یوٹرن لے لیا۔ کمیونسٹوں کی گرفتاریاں شروع ہوگئیں طفیل عباس، معراج محمد خان سمیت تمام ترقی پسندوں کو گرفتار کر کے جیلوں میں ڈال دیا گیا ۔ ریلوے، پی آئی اے بینکوں کے یونین رہنما مجھ سمیت جیل چلے گئے۔ مگر کامریڈ محبوب پیپلزپارٹی کی خدمت کرتے رہے اور ہمیں انتہا پسند کہنے لگے ۔
خیر پرانی باتیں نہیں کرتے ۔ DPR میں بند رہے کراچی جیل، حیدرآباد جیل، خیرپور جیل، سکھر جیل آتے جاتے رہے۔ کامریڈ محبوب اور بھٹو صاحب کو یاد کرتے رہے۔ حالات بدل گئے فوجی جنرل ضیا الحق آگئے ہم پھر پیپلزپارٹی کے ساتھ کھڑے رہے، کیونکہ ضیا آمر تھا۔ بھٹو صاحب کو گرفتار کرکے جیل اور پھر عدالتی قتل کے ذریعے شہیدکردیا گیا۔ اس دوران کامریڈ محبوب نے میرپورخاص میں جلسے و جلوس کیے اور گرفتار ہوکر جیل چلے گئے۔ بک اسٹال ختم، نوکری ختم، الفتح بند کردیا۔ کرایے کا مکان خالی کرالیا گیا اورکامریڈ محبوب فٹ پاتھ پر آگئے۔ محترمہ بے نظیربھٹو کی حکومت میں محترمہ نے کامریڈ محبوب کو اسلام آباد میں پلاٹ دینے کو کہا مگر انھوں نے لینے سے انکار کردیا۔ میرپورخاص اور گردونواح میں ان کے چاہنے والے بہت تھے وہ بار بارکرایے کا مکان لیتے رہے دوستوں نے انھیں زندہ رکھا۔ 2009 میں ایک حادثے میں ان کی ٹانگ کی ہڈی ٹوٹ گئی اس طرح وہ سول اسپتال میں داخل ہوگئے ۔
گزشتہ پانچ سال سے اسپتال میں رہے اور پھرکبھی پیپلزپارٹی کے دفتر میں رہتے پھر اسپتال آجاتے وہ کوئی مالدار آدمی نہ تھے محنت کش صحافی تھے بڑے لیڈر ہوتے ہوئے بھی وہ کارکن ہی کہلائے کیونکہ وہ غریب تھے۔ غریب ہمیشہ کارکن ہی رہتا ہے کبھی بڑا لیڈر اور MPA, MNA نہیں بن سکتا۔ کارکن تھا اور کارکن ہی رہا۔ اور کارکن کی حیثیت سے ہی مر گیا گوکہ 44 برس پیپلزپارٹی کے ساتھ رہا کوئی بات نہیں کارکن مرتے ہی رہتے ہیں سو تم بھی مر کر گئے۔ لوگ مجھ سے تعزیت کر رہے ہیں لوگ کس سے پرسہ کریں کس سے تعزیت کریں کیونکہ کامریڈ کا کوئی عزیز سندھ اور کراچی میں نہیں ہے۔ نہ ماں نہ باپ، نہ بھائی نہ بہن، نہ بیوی نہ بچے۔ چلو اچھا ہوا تم چلے گئے۔ سارا سندھ تمہارا تھا۔ سارا پاکستان تمہارا تھا۔ سارے مزدور، کسان، ہاری تمہارے تھے۔ یہی تمہارے عزیز رشتے دار تھے یہی ہی سے تعزیت کرلیتے ہیں اور یہی اس ملک اور پارٹی کا سرمایہ ہیں۔ خدا حافظ کامریڈ محبوب علی!