رزمیہ شاعری۔ اظہار حب الوطنی
پنجابی زبان میں جنگ کو ’’وار‘‘ کہا جاتا ہے سو اسی مناسبت سے پنجابی شعرأ کے رزمیہ گیت واری کہلاتے ہیں۔
شاعری ہماری حس لطافت کے بیانیے کا ذریعہ ہے اس اظہارکی ابتداء کب سے شروع ہوئی تاریخ ابہام کا شکار ہے، اسی طرح شاعری کی مختلف جہتیں بھی بہ وقت ضرورت وجود میں آئیں۔ رزمیہ شاعری کے بارے میں بھی کہا جا سکتا ہے کہ یہ محض شاعری نہیں بلکہ ایک خاص طرز گائیکی کے ذریعے اظہار حب الوطنی کا بیانیہ ہے حضرت انساں نے رزمیہ گیت وجنگی ترانے محاذ جنگ میں لڑنے والے سپاہیوں کا حوصلہ بلند رکھنے کے لیے لکھنا شروع کیے۔
دنیا میں جنگ و جدل کا اثر براہ راست ادب پر ضرور پڑا ہے خا ص کر رزمیہ شاعری اپنے علاقے کی تہذیبی تاریخ پر مشتمل ایک اہم دستاویز شمار کی جاتی ہے کسی بھی رزمیہ شاعری میں سامان حرب اس کا استعمال اس دور کی حقیقتیں، رہن سہن، طور وطوار اور مزاج و عادات کی شبیہ نظر آتی ہیں اپنے لوگوں کے مر جانے کا صدمہ، علاقے چھن جانے کا المیہ اور زندگی بھر کی جمع پونجی کھو جانے کا دکھ رزمیہ آہنگ کی داستان سناتی ہے۔
قدیمی ادب کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ اس کے اثرات نمایاں ہیں دنیا کی مختلف زبانوں میں عسکری شاعری بکھری پڑی ہے۔ گوئٹے کی فاوسٹ لاطینی زبان کی بہترین رزمیہ نظم ہے تو انیڈ (Aeneid) پرتگالی زبان کی بہترین رزم نامہ کہی جا سکتی ہے۔ 1967 میں جان ملٹن نے پیراڈائزلاسٹ جیسی عظیم رزمیہ نظم تخلیق کی، ہومر کی تخلیق کردہ رزمیہ نظم ''اوڈیسی،، آج بھی مقبول عام ہے جس میں اوڈسس ٹرائے کی جنگ میں گیا ہے اس کے جانے کے بعد اس کی بیوی پینی لوپ سے بہت لوگ شادی کے امیدوار بن جاتے ہیں۔ پینی لوپ امیدواروں سے جان چھڑانے کے لیے شرط رکھتی ہے کہ وہ سویئٹر بن رہی ہے جب مکمل ہوجائے گا تو شادی کرے گی وہ دن کو سوئیٹر بنتی ہے اور رات کو ادھیڑ دیتی ہے۔ اسی ادھیڑ بن میں چار سال گذر جاتے ہیں اوڈی سس گھر پہنچ جاتا ہے یہ پوری نظم جنگ و جدل کی داستان پر مبنی ہے۔
1100ء ق م میں آریاؤں کی برصغیر میں آمد ہوئی آریائی خود کو ذہنی طور پر فاتح قوم سمجھتے تھے وہ اپنی ایک الگ تہذیب و تمدن، کلچر و روایات رکھتے تھے اس لیے عسکری مہمات میںکامیابی حاصل کرتے چلے گئے۔ ہندو مذہبی صحیفہ کہلانے والی مشہور کتابوں میں رزمیہ گیت و نظمیں بھی شامل ہیں۔ رامائن میں اس زمانے کے نامورشاعر رشی والمیک نے اشعار کی شکل میں ایودھیا کے حکمران راجہ دسترتھ اور اس کی تینوں بیوؤں اور چار بیٹوں کے حالات زندگی اور جنگی مہم کا ذکر کیا ہے۔
اس طویل رزمیہ نظم میں آریاؤں کے حملے کی داستان شامل ہے اسی طرح مہا بھارت ایک مذہبی صیحفہ ہی نہیں کورؤں اور پانڈوؤں کے درمیان ہونے والی طویل جنگ کی داستان بھی ہے لیکن ان کہانیوں کے زمانہ تخلیق میں بہت اختلاف بھی پائے جاتے ہے۔ اٹھارویں صدی کا سب سے شاندار رزؔم نامہ غضنفر حسین کی طویل مثنوی رزم ''جنگ نامہ عالم علی خان'' ہے یہ طویل نظم دکنی ادب کی تاریخ، جنگ و جدل، حالات و واقعات میں ایک سند رکھتی ہے۔ دکنی ادب کی طرح یونانی، ایرانی، ترکی ودیگر زبانوں میں بھی رزمیہ گیتوں کی اپنی شاندار روایات موجود ہیں۔ اگر ہم اپنے پا کستان کے علاقائی زبانوں میں موجود ادب پرنظر ڈالیں تو ہمیں اس رزم میں بے شمار عسکری مہمات، قبائلی جنگ و جدل کی تہذیب وروایات سے بھر پور شاعری ملتی ہے۔
پنجابی زبان میں جنگ کو ''وار'' کہا جاتا ہے سو اسی مناسبت سے پنجابی شعرأ کے رزمیہ گیت واری کہلاتے ہیں، یہ واریں نہ صرف میدان جنگ کا نقشہ نظروں کے سامنے کھینچتی ہیں بلکہ اپنے زمانے کی پوری ثقافت، واقعات، تہذیب، رہن سہن اور رسم ورواج کو بھی نظموںکی صورت میں بیان کرتی ہیں جس سے یہ محض رزمیہ شاعری نہیں بلکہ اپنے دورکی پوری دستاویز بن کر محفوظ ہوگئی ہیں جنھیں آج بھی مقامی شاعر وگائیک داستانوںکی صورت میں ایک نسل سے دوسری نسل تک منتقل کرتے ہیں اور داد پاتے ہیں۔ سندھ میں رزمیہ شاعری کا فن ایران سے آیا لہٰذا ایران کی تاریخی داستانیں یہاں بھی مقبول عام ہوئیں، کچھ شاعری مذہی نقطہ نظر سے اوائل اسلام کے دوران لڑی جانے والی جنگوں سے متعلق ہیں۔ سندھ کے بڑے شاعر شاہ عبداللطیف بھٹائی کی شاعری میں رزمیہ نظمیں سوموروں کے دور کے حالات جنگ اور آپسی قتل وغارتگری کی داستان لوک گیتوں کی صورت میں موجود ہیں تاہم شاہ عبداللطیف کا زیادہ ترکلام اس دورکے اہم واقعات تہذیب وثقافت اور رسم و رواج کا پتہ دیتا ہے، گویا شاہ سائیں کی پوری شاعری رزمیہ گیت سے زیادہ تاریخی دستاویزکی حیثیت رکھتی ہیں۔
پشتو ادب میں مذہبی اور رزمیہ نظموں کا بڑا اثاثہ موجود ہے، پختون قوم نے اپنی غیرت و حمیت کی حفاظت میں فرنگی قوت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی پشتو شاعری کا بڑا حصہ انگریزوں سے جنگ و جدل کی دا ستان رزم ہے۔ پشتون ادب کے رزم ناموں میں پشتون کلچر کے خدوخال کو بناء کسی دقت کے پہچانا جا سکتا ہے۔ پشتو کے مشہور شاعر خوشحال خان خٹک ہتھیار اور پختون کو لازم و ملزوم قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں''جو شخص ہتھیار سے محبت نہ رکھے اپنے آپ کو مردکہلانے کا حقدار نہیں۔''
بلوچ رزمیہ نظموں میں زیادہ شاعری آپسی قبائلی جنگ وجدل کا نقشہ پیش کرتی ہے تمام بڑے قبائل آپس میں برسر پیکار رہتے تھے یہی وجہ ہے کہ رزمیہ نظموں میں قبائلیوں کی آپسی دشمنیاں دیگر زبانوں کی نسبت زیادہ نظر آتی ہے۔ ملا فاضل، ملا بوہیر قدیم اور جدید بلوچی شاعری میں گل خان نصیر رزمیہ شاعروں میں ممتاز حیثیت کے مالک ہیں، سولہویں صدی میںتیس سال جاری رہنے والی جنگ میں دو بڑے قبیلے رند اور لاشاری قوموں نے بلوچ قوم کو مزید قبائل میں بانٹ دیا۔ سنگلاخ چٹانوں کے نشین بلوچ قبائل اپنا قول نبھانے میںکس قدر سخت تھے، اس کی مثال کسی اور قوم میں نظر نہیں آتی بلوچ زبان میں سینہ بہ سینہ چلتی قبائل کی شجاعت وعظمت کی رزمیہ شاعری کا بیش بہا خزانہ موجود ہے لیکن بدقسمتی سے اکثر کے شعرا نا معلوم ہیں انگریزوں کی غلامی میں بلوچ شاعروں نے اپنی نفرت و بغاوت کا کھل کر اظہارکیا ہے۔
اردو رزمیہ شاعری میںقیام پاکستان کے بعد بیش بہا اضافہ ہوا خصوصا 65ء اور 71ء کی جنگ میں جس طر ح ہمارے متعدد شعراء اورگلوکاروں نے مادرِِوطن کی محبت سے سرشار ہوکر خوبصورت رزمیہ گیت تخلیق کیے اور ہمارے فوجی جوانوں کا جوش و جذبہ بلند کیے رکھا۔ اس کی نظیر نہیں ملتی 65ء کی جنگ کے دوران ان رزمیہ گیتوں کو سن کر قوم کا عزم و لولہ قابل ستائش تھا۔ ان گیتوں میںجذبہ حب الوطنی، جوش وعقیدت آج بھی پورے آب تاب کے ساتھ موجود ہے حس لطافت کے اس اظہار بیانیے کو ہم جب بھی پڑھتے وسنتے ہیں، وطنیت کا فخر اپنے اندر محسوس کرتے ہیں بے اختیار مادر وطن پر مرمٹنے کا عہد اور پختہ ہو جاتا ہے۔