ایک نئی تحقیق کے مطابق۔۔۔ کسی تحقیق پر آنکھیں بند کر کے یقین نہ کریں

طب اور غذائیت سے متعلق تحقیقات کی چھان بین ضروری ہے


Hassaan Khalid October 17, 2014
طب اور غذائیت سے متعلق تحقیقات کی چھان بین ضروری ہے۔ فوٹو: فائل

ISLAMABAD: شاید ہی کوئی دن ایسا گزرتا ہو، جب آپ اخبارات و جرائد میں نت نئی طبی تحقیقات کے متعلق نہ پڑھیں۔

طب سے متعلق ''ایک نئی تحقیق'' ہمیشہ میڈیا کے پاس موجود ہوتی ہے، جن میں سے بیشتر آگے چل کر غلط ثابت ہوتی ہیں۔ اس ضمن میں وقتاً فوقتاً سوالات اٹھائے جاتے رہے ہیں۔ فرانسیسی محققین کے ایک گروپ نے اس ایشو پر قابل ذکر کام کیا ہے۔

اس سے پہلے، چند سال قبل، جون اونینڈس نے جرنل آف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں لکھے گئے ایک تحقیقی مقالے میں پچھلے 13 برسوں میں میڈیا میں شائع ہونے والی 45 بڑی طبی تحقیقوں کا جائزہ لیا' جن میں وٹامن E' اسٹروجن' مختلف ادویات ا ور طریقہ ہائے علاج کا ذکر تھا۔ تحقیق کے مطابق جب ان طبی تحقیقات کے ابتدائی نتائج کو آگے چل کر پرکھا گیا، تقریباً ایک تہائی اسٹڈیز ایسی تھیں جو غلط ثابت ہوئیں، یا جن کے نتائج ابتدائی دعوؤں سے زیادہ مطابقت نہیں رکھتے تھے۔ نصف سے بھی کم اسٹڈیز کو دوبارہ دہرایا گیا' جبکہ ایک چوتھائی تحقیقات ایسی تھیں' جن پر دوبارہ سے کام ہی نہیں کیا گیا۔

نیورو بائیولوجسٹ فرانکوس گونن کی سربراہی میں کام کرنے والے فرانسیسی ریسرچروں کے گروپ نے اس سے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے اپنی تحقیق میں یہ جاننے کی کوشش کی کہ میڈیا میں شائع ہونے والی اکثر طبی ریسرچز' بعدازاں غلط کیونکر ثابت ہوتی ہیں؟ ان کا کہنا ہے کہ میڈیا میں نئی اسٹڈیز اور مختلف ریسرچز کے ابتدائی نتائج کو ترجیح دی جاتی ہے اور بعد میں ان اسٹڈیز کو نمایاں جگہ نہیں دی جاتی، جو ان پہلی اسٹڈیز کے نتائج کو غلط یا کمزور ثابت کرتی ہیں۔

''ابتدائی نتائج'' سے مراد یہ ہے کہ کسی اسٹڈی میں پہلی دفعہ کسی نئی چیز کے دریافت کرنے کا دعویٰ کیا جائے۔ (مثلاً مالیکیول A کینسر کے خلیوں کو ختم کرتا ہے۔) کسی نئی چیز کی دریافت میں خبریت کا عنصر زیادہ ہوتا ہے، اس لئے ایسی اسٹڈیز خبروں میں زیادہ جگہ بناتی ہیں۔ یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ اگر کوئی تحقیق چاکلیٹ یا کافی سے متعلق ہو تو نتائج پر زیادہ تردد کئے بغیر، اسے بھی میڈیا میں شائع کر دیا جاتا ہے۔



دوسری طرف اس بات کا بہت امکان ہوتا ہے کہ ایسی ابتدائی ریسرچز کے نتائج' بعد میں کی گئی تحقیقات کی روشنی میں بالکل مسترد ہو جائیں، یا ان میں ابتدائی دعوؤں سے مطابقت نہ پائی جائے۔ (جب مالیکیول A کینسر کے خلیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت ہی نہ رکھتا ہو' یا اس ضمن میں اس کی کارکردگی مالیکیول B سے زیادہ بہتر نہ ہو۔) ایسی صورت میں یہ بہت ضروری ہے کہ ان ریسرچز کو بھی میڈیا میں اتنے ہی نمایاں انداز میں جگہ دی جائے۔

یہ بھی اہم ہے کہ ان ابتدائی نتائج کو قطعیت کے ساتھ جلی سرخیوں میں پیش نہ کیا جائے، بلکہ ''ابتدائی نتائج کے مطابق'' ، ''امکان ہے'' ، ''خیال ظاہر کیا جا رہا ہے'' وغیرہ کے استعمال سے ان کے نتائج میں موجود بے یقینی کو بھی ظاہر کیا جائے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ جب ایک غلط بات لوگوں کے ذہنوں میں بیٹھ جائے تو اس خیال یا تاثر کو ختم کرنا آسان نہیں ہوتا۔ میڈیا کسی تحقیق کے نتائج کو عام لوگوں کی تفہیم کے لئے سادہ الفاظ میں بیان کرتے ہوئے غلط فہمی پھیلانے کا باعث بن سکتا ہے' یا نتائج کو غلط بیان کر سکتا ہے یا پھر بسااوقات ان کو بڑھا چڑھا کر بھی بیان کر دیا جاتا ہے۔

تاہم ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیا میں شائع ہونے والی غلط میڈیل ریسرچز کا صرف میڈیا ہی ذمہ دار نہیں ہے۔ سائنسدان بھی اس بات کی سرتوڑ کوشش کرتے ہیں کہ ان کی تحقیق معتبر جریدوں میں کسی طرح سے شائع ہوسکے۔ اس مقصد کے لئے وہ اپنی تحقیق کے تعارف (Abstract) میں نتائج کو غیر ضروری طور پر بڑھا چڑھا کر بیان کرتے ہیں۔

ایک سائنسی جریدے کے مطابق اب یہ خطرناک رجحان بھی فروغ پا رہا ہے کہ بعض آن لائن جرنل محض چند سو ڈالرز کے عوض غیر معیاری تحقیق بھی شائع کر دیتے ہیں، جس سے عام قارئین، متعلقہ امراض میں مبتلا افراد اور پیشہ ور ڈاکٹر نقصان اٹھاسکتے ہیں اور اس سے مجموعی طور پر طبی تحقیقات کی ساکھ اور شفافیت پر سوالات اٹھتے ہیں۔ اس کے علاوہ ادویات اور خوراک کی مختلف مصنوعات کی مارکیٹنگ سے وابستہ لوگ بھی ایسی ریسرچز کے ''جنم لینے'' اور ان کی خبروں کی اشاعت پر اثر انداز ہوتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔