فلمی دنیا کی یادیں اور باتیں
اگر مجھے نوکری مل گئی تو میں یونیورسٹی کی فیس اب خود ادا کیا کروںگا۔
میں اکثر دیر سے گھر آتا تھا، کبھی کسی مشاعرے میں، کبھی کسی محفل غزل میں اور اب میری یہ عادت پختہ ہوچکی تھی ۔ میرے والد مجھ سے ناراض رہتے تھے ، میری والدہ میری بہت سی باتیں والد صاحب سے چھپالیتی تھیں جب کہ والد صاحب اکثر مجھے طعنہ دیتے رہتے تھے اور والدہ سے کہتے تھے اس نالائق سے کہو اس نے بی اے کرلیا ہے اب کہیں نہ کہیں نوکری بھی کرلے ۔ اس نے گھر کو ہوٹل سمجھا ہوا ہے ، صبح جاتا ہے، رات دیر گئے گھر آتا ہے ، گھر صرف سونے کے لیے ہے ، سوائے آوارہ گردی کے اسے اور کوئی کام نہیں ہے ، اس احساس سے مجھے کبھی کبھی بہت تکلیف ہوتی تھی کہ میرے والد مجھے بالکل ہی نکما تصور کرتے تھے ۔
ایک دن شام کو میں جب گھر آیا تو میری والدہ نے ایک لیٹر مجھے تھماتے ہوئے کہا ''یہ لفافہ تمہارے نام آیا ہے'' میں نے والدہ سے لفافہ لے کر کھولا، پڑھا، وہ ایک انٹرویو لیٹر تھا، میں نے والدہ سے کہا یہ ایک کمپنی سے میرے لیے لیٹر آیا ہے ۔ میں نے نوکری کے لیے کئی کمپنیوں کو درخواستیں بھیجی ہوئی تھیں، شکر ادا کیا کہ ایک جگہ سے انٹرویو کا لیٹر آگیا ہے ۔ میں نے اپنی والدہ کو بتایاکہ ایک کمپنی میں اگلے ہفتے نوکری کے لیے میرا انٹرویو ہے آپ میرے لیے دعا کریں کہ مجھے نوکری مل جائے ۔ اگر مجھے نوکری مل گئی تو میں یونیورسٹی کی فیس اب خود ادا کیا کروںگا ، اب مجھے فیس کے لیے اپنے بابوجی کے سامنے بار بار ہاتھ نہیں پھیلانے پڑیں گے ۔
مجھے اچھا نہیں لگتا کہ میں بابو جی کی نظروں میں صرف نکما کہلاؤں ۔ میں نے والدہ سے کہا میں ابھی بابوجی کے لیے ایک بے کار انسان ہوں مگر کبھی کبھی کھوٹا سکہ بھی کام آجاتا ہے ، میری والدہ نے میرا دل رکھتے ہوئے کہا تیرے بابوجی جو کچھ کہتے ہیں تیری بھلائی ہی کے لیے کہتے ہیں ۔ پھر مجھے والدہ ڈھیر ساری دعائیں دیتی ہوئی کہنے لگیں ''بیٹا! تمہارے بابو جی بھی تم سے بہت پیار کرتے ہیں ، بس غصے کے ذرا تیز ہیں ، تم ان کی باتوں کا برا نہ منایا کرو'' تھوڑی دیر میں بابو جی بھی خبریں سننے کے لیے گھر آئے تو والدہ نے میرے نام آیا ہوا انٹرویو لیٹر بتایا ، بابوجی بولے پہلے یہ ڈھنگ سے پڑھ تو لے اگر ڈھنگ سے پڑھے گا تو کہیں ڈھنگ کی نوکری مل سکے گی ۔ یہ انٹرویو لیٹر تو آتے رہتے ہیں، بابو جی خبریں سنتے رہے اور میں خاموشی سے ان کی نصیحتیں سنتا رہا ۔
جیسے ہی خبریں ختم ہوئیں وہ ریڈیو آف کرکے چلے گئے، اب میرا دل گھر میں نہیں لگ رہا تھا ، میں بھی والدہ کو کچھ بتائے بغیر چپکے سے باہر نکل گیا ۔ دوسرے دن جب میں ریڈیو اسٹیشن گیا تو ریڈیو کے لائبریرین آفتاب احمد خان نے مجھے ایک خوشخبری سناتے ہوئے کہا یونس ہمدم فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' کے لیے تم نے مہدی حسن کا گایا ہوا جو گیت '' لیکے چلی ہو مورا پیار'' لکھا تھا، EMI گراموفون کمپنی نے وہ ریکارڈ ریلیز کردیا ہے اور ہمارے پاس وہ ریکارڈ آگیا ہے، اب یہ گیت ریڈیو سے روزانہ نشر ہواکرے گا ، میں یہ سن کر بہت خوش ہوا ، میں نے کئی بار اس ریکارڈ کو دیکھا جس کے ایک طرف میرا گیت میرے نام کے ساتھ تھا اور دوسری سائیڈ پر صہبا اختر کی لکھی ہوئی غزل ان کے نام کے ساتھ دی تھی، میرے گیت کے بعد اسی فلم کے لیے صہبا صاحب کی غزل ریکارڈ ہوئی تھی ۔
میں نے آفتاب احمد خان کی فرمائش پر ریڈیو کینٹین سے دو کپ کی اسپیشل چائے اور کچھ زیرے والے بسکٹ بھی منگوالیے اور اس دن کو خوب اچھی طرح گزارا ، انجوائے کیا ۔ میرا پہلا فلمی گیت اب مارکیٹ میں آچکا تھا اور مجھے قانونی مشیران کی ایک اچھی فرم میں ریسپشنسٹ کی نوکری بھی مل گئی تھی اور اب میرا گیت پاکستان کے ہر ریڈیو اسٹیشن سے بار بار بج رہا تھا ۔ میرا آفس بندر روڈ پر بولٹن مارکیٹ کے پاس تھا اور روزانہ ریڈیو اسٹیشن آتا ، فنکاروں سے باتیں اور ملاقاتیں ہوتی رہتی تھیں اور میں لنچ کے بعد جب بھی آفس پہنچتا تھا دس پندرہ منٹ لیٹ ہوجاتا تھا ۔ آفس کی ایک کرسچین کلرک مس مارتھا فرنینڈس روزانہ لنچ ٹائم کے بعد آفس میں آتے ہوئے بڑی مسکراہٹ کے ساتھ مجھے وال کلاک کی طرف اشارہ کر کے احساس دلاتی تھی کہ دیکھو تم آج بھی لیٹ ہو ، اس دوران وہ میری سیٹ پرآجاتی تھی ، میرے دل میں اس کی قدر پیدا ہوگئی تھی ، مجھے خوشی ہوتی تھی کہ وہ روزانہ مجھے کور (Cover) کرتی رہتی ہے ۔
میں ہر روز ریڈیو کینٹین میں کسی نہ کسی نامور فنکار سے ملاقات کرتا رہتا تھا، ان فنکاروں میں مہدی حسن، استاد امراؤ بندوخان کے علاوہ کبھی کبھی لاہور سے آئے ہوئے فنکاروں غلام علی ، فریدہ خانم ، تصور خانم ، شوکت علی اور اقبال بانو وغیرہ سے رو برو باتیں ہوجایا کرتی تھیں اور یہ ملاقاتیں میرے کالج کے دوست استاد امیر احمد خان کے ذریعے سے ہوتی تھیں جو خود کلاسیکل سنگر اور ایک باصلاحیت موسیقار بھی تھا ۔ ایک طرف میری نوکری چل رہی تھی دوسری طرف ریڈیو کا سلسلہ بھی جاری و ساری تھا ۔ان دنوں ریڈیو سیلون سے مہدی حسن کی آواز میں فیض احمد کی غزل ''گلوں میں رنگ بھرے'' اور مسرور انور کی لکھی ہوئی ثریا ملتانیکر کی آواز میں غزل'' کہیں دل لگانے کی کوشش نہ کرنا'' کی اکثر بازگشت سنائی دیتی تھی ۔ ایک دن شام کو میں پروگرام کے مطابق جلدی گھر آگیا تھا کیوں کہ آج کے دن ریڈیو سیلون سے گیتوں کا پروگرام آنا تھا ۔ میں بڑی بے چینی سے وقت گزرنے کا انتظار کرنے لگا ، ابھی پاکستان سے خبریں آنی تھیں اور والد صاحب کو بھی آنا تھا ۔
خبروں کے ٹائم پر والد صاحب آئے انھوں نے چند منٹ کی خبریں سنیں اور چلے گئے، ان کے جاتے ہی میں نے ریڈیو سیلون لگایا ، فلمی گیتوں کا پروگرام شروع ہوچکا تھا، اس دوران اناؤنسر امین سیانی کی آواز گونجی، آج گیت مالا کے چوتھے پائیدان پر مہدی حسن کی آواز میں فلم ''آجا کہیں دور چلیں'' کا گیت سنیں ، گیت کار ہیں یونس ہمدم ، بول ہیں '' لیکے چلی ہو مورا پیار گوری'' میں یہ سن کر چونک گیا، مجھے یقین نہیں آرہا تھا، یہ ریڈیو سیلون سے میرا گیت نشر ہورہا ہے، میں نے تیز آواز میں اپنی والدہ کو پکارا ۔ آپا، آپا جی ادھر آئیں، سنیں ریڈیو سیلون سے میرا لکھا ہوا گیت بج رہا ہے ۔ میری آپا نے پریشان ہوکر میری طرف دیکھا۔ میرے چہرے پر دیوانگی سی تھی۔ میری والدہ بولیں بیٹا یہ تو کیا بہکی بہکی باتیں کررہا ہے، کہیں تیرا دماغ تو نہیں چل گیا ہے۔
چل ریڈیو بند کرلگتا ہے اب تمہارے بابوجی کو تمہارے دماغ کا بھی علاج کرنا پڑے گا۔ مجھے والد صاحب کے آنے کی آہٹ ملی تو میں نے فوراً ریڈیو بند کردیا اور دوسرے کمرے میں چلا گیا ۔اب میری نوکری کا ایک مہینہ پورا ہوگیا تھا۔ میں جب دوسرے مہینے کی پہلی تاریخ کو آفس پہنچا تو وہ Pay Day تھا، ایک گھنٹے کے بعد بگ باس نے مجھے اپنے کمرے میں بلایا اور مجھے ایک چارج شیٹ دیتے ہوئے کہا آج سے آپ کی نوکری ختم ہے، وجہ اس کی لنچ ٹائم کے بعد روزانہ پندرہ منٹ لیٹ آنا ہے۔ یہ بات آفس ڈسپلن کے خلاف ہے۔ کمپنی تمہیں خود نکال رہی ہے اس لیے تم کو دو ماہ کی تنخواہ دے گی۔
تم باہر جاکر کیشئر سے مل لو، اینڈ گو (Go)۔ میں باس کے کمرے سے باہر آیا، مس مارتھا فرنینڈس کو نفرت سے دیکھا، کیشئر سے دو ماہ کی تنخواہ وصول کی، کسی کو دیکھے بغیر چپ چاپ آفس سے نکلا اور بس پکڑ کر ریڈیو اسٹیشن آگیا۔ جیسے ہی میں کینٹین میں داخل ہوا ریڈیو کے سینئر موسیقار ضیاء الدین نے مجھے اشارہ کرکے بلایا اور مجھے ایک صاحب سے ملاتے ہوئے کہا نظام الحق صاحب یہ ہے نوجوان شاعر یونس ہمدم۔ پھر مجھ سے کہا یونس ہمدم نظام الحق صاحب کراچی میں آیندہ ماہ ایک فلم شروع کررہے ہیں، نظام صاحب کو تمہارا لکھا ہوا مہدی حسن کا گایا ہوا گیت لیکے چلی ہو مورا پیار بہت پسند آیا ہے۔ نظام صاحب اپنی فلم کے گانے اور مکالمے بھی لکھوائیںگے ۔ میں نے دل ہی دل میں کہا مولا تیری شان کے قربان، تیرے دینے کے رنگ نرالے ہیں، میری پہلی نوکری تو گئی مگر مجھے دوسری فلم مل گئی ۔