ملالہ سے ملتان تک
ہماری اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ بھی عجیب ہے۔ بھٹو کو بنایا، پھر اسے گرایا تو بھٹو لوگوں میں بیٹھ گئے۔
ہار کی خبر سن کر جو بات جاوید ہاشمی نے کہی وہ معنی خیز ہے ''تبدیلی آئے گی، مگر بیلٹ کے ذریعے نہ کہ پروٹیسٹ سے۔'' یوں کہیے وہ یہ نعرہ دینا چاہتے تھے ''چلو چلو بیلٹ باکس چلو'' نہ کہ شاہراہ دستور۔ جاوید ہاشمی کی دو منزلیں تھیں، ایک تو کل اسے مورخ کس طرح دیکھتا ہے، دوسرا اسے ووٹر کیسے دیکھتا ہے۔ ووٹر نے تو اسے رد کیا مگر شاید تاریخ میں سرخرو رہیں کہ وہ بیلٹ باکس کی بات سے یہ باور کرانا چاہتے ہیں کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہے۔
بہرحال ملتان میں عمران خان کا بخار پایا جاتا ہے۔ جس طرح کل تک سندھ میں بھٹوؤں کا بخار پایا جاتا تھا۔ پیپلز پارٹی کا ایک زمانہ تھا، جب وہ کسی گمنام شخص کو بھی دیہی سندھ یا دیہی پنجاب میں کھڑا کرتے تھے وہ جیت جاتا تھا۔ یہ مقبول تھا ان زمانوں میں کہ اگر پیپلز پارٹی کھمبے کو بھی کھڑا کرے گی وہ جیت جائے گا۔ مگر اب کی بار ملتان میں ان کا مینڈیٹ صدیقی صاحب، یوسف رضاگیلانی کے اتنی بڑے اثر کے باوجود بھی، اس بڑے سرائیکی صوبے کی بات کرنے کے بعد بھی مشکل سے اپنی شناخت بچا پائے۔ اس بات کا اثر بلاول بھٹو کے آج والے کراچی کے جلسے پر ضرور ہوگا۔
وہ عامر ڈوگر جو کل تک پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر کھڑا ہوتا تھا، آج بھی وہ اس ٹکٹ پر کھڑا ہوا مگر پھر وہ ہوا کا رخ بھانپ گیا اور دو ہفتے پہلے یہ ٹکٹ واپس کرکے اپنی آزاد حیثیت میں کھڑا ہوا، آزاد حیثیت میں کیا کھڑا ہوا بلکہ PTI کے ٹکٹ پر ڈی فیکٹو کھڑا ہوا تو جیتنے پر بھی ساری PTI اس کے گھر کے آگے بھنگڑا ڈال رہی تھی۔ اور گیلانی ہاؤس ملتان کے جھنڈے سرنگوں تھے۔ بہت کچھ بدلا بدلا سا دکھائی دیتا ہے مگر اس سیٹ سے PTI پچھلی مرتبہ بھی جیتی تھی۔ اب کی بار وہ چالیس ہزار ووٹوں سے کم جیتے۔ تو کیا باقی اثر ہاشمی صاحب کا اپنا ذاتی تھا؟ مجھے نہیں لگتا کہ عمران خان اتنے مقبول ہیں۔ مجھے یوں نظر آتا ہے کہ حکمران بہت غیر مقبول ہیں اور ان کی غیر مقبولیت جو کل پیپلز پارٹی کیش کرواتی تھی وہ عمران خان کے ہتھے چڑھ گئی ہے۔ ملتان میں حالیہ کیے ہوئے PTI کے جلسے کی بدنظمی بھی PTI پر منفی اثر نہ ڈال سکی۔
ملتان نے بہرکیف یہ باور کرا دیا ہے کہ آیندہ کے انتخابات اول تو تاریخ کے قدرے بہتر شفاف انتخابات ہوں گے اور ان انتخابات کے نتائج بہت ہی مختلف ہوں گے۔ شہروں میں عمران خان ہوں گے اور دیہاتوں سے روایتی سیاست کرنے والے بھاری اکثریت نہ سہی مگر اپنی عزت بچا لیں گے۔ یوں کہیے جو عمران پائیں گے وہ ان کے لیے بھی دیرپا نہیں ہوگا، مگر تبدیلی جو ہمیشہ ارتقا کے زینے عبور کرتی رہے گی اس کے لیے اچھا شگون ہوگا۔ اب جمود نہیں ہوگا، کوئی چیز ساکن نہیں ہوگی، کوئی اسٹیٹس کو برقرار نہیں رہے گا۔ اب بت گرانے کے دن آرہے ہیں، اب تاج اچھالنے کے دن آرہے ہیں اور اگر عمران کے پاس بھی دینے کو کچھ نہیں تو وہ بھی تاریخ ہوجائیں گے۔
ہماری اسٹیبلشمنٹ کی تاریخ بھی عجیب ہے۔ بھٹو کو بنایا، پھر اسے گرایا تو بھٹو لوگوں میں بیٹھ گئے۔ میاں کو بنایا جو اسے گرایا تو میاں لوگوں میں بیٹھ گئے۔ اب یہ دونوں آہستہ آہستہ عوام کے پاس بے معنی ہوگئے۔ وہ اس لیے کہ لوگوں کی محبتیں مشروط ہوتی ہیں۔ وہ دکھ میں آپ کے ساتھ ہوتے ہیں اور آپ جب دکھوں سے نکل کر سکھوں میں آتے ہیں تو انھیں بھول جاتے ہیں۔ آپ شہزادے بن جاتے ہیں۔ کون کہتا ہے کہ جمہوریت میں کارکردگی دکھانے کی ضرورت نہیں، کارکردگی جمہوریت کا وہ پھل ہے جو اگر یہ تناور درخت نہیں دے گا تو جب کوئی اسے کاٹے گا تو پھر اس کی پرواہ بھی نہیں کرتا۔
دوسری طرف اس ہفتے سوئیڈن میں نوبل انعام برائے امن کے حوالے سے ہماری پاکستان کی اور جدوجہد کی علمبردار ملالہ پر بھی مہر لگائی۔ ایک ایسی خبر جو دنیا کی سب سے بڑی خبر تھی ان ہی دنوں میں جب ہم ملتان میں نگاہیں ڈالے بیٹھے تھے۔
بہت سے لوگ یہاں کی مروج و منحوس Narrative میں غلطاں یہ سمجھتے ہیں کہ ملالہ اس کی حقدار نہیں تھی۔ تو کچھ ایسے بھی تھے ان میں سے جو یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ یہ پوری سازش ہے وغیرہ وغیرہ۔ مفروضوں پر رکھی ہوئی ہماری سوچ بھلا آخر کیسے حقیقت تک پہنچ سکتی ہے۔ ماس میڈیا کے بڑے بڑے نام ٹاک شوز میں کہتے نظر آئے کہ ملالہ پر طالبان نے گولی چلائی ہی نہیں۔ یہ لڑکی پاکستانی ہے ہی نہیں۔ یہ وہ لوگ تھے جو ایبٹ آباد میں اسامہ کے مارے جانے پر بھی یہ کہتے رہے کہ اسامہ مرا ہی نہیں، وہ تو پہلے ہی تورا بورا میں مارا جا چکا۔
ملالہ کی عمر ہی کیا تھی، بارہ سال، جب اس نے سوات سے اپنی ایک چھوٹی ڈائری لکھنے سے کام شروع کیا اور وہ سوات جہاں لڑکیوں کے پڑھنے پر قدغن لگا دی گئی، وہ سوات جہاں دہشت رہتی تھی، لوگ کانپتے تھے اور عورت دیواروں کے اندر دفن تھی، وہاں پر بارہ سال کی لڑکی Harry Potter کے کردار کی طرح ''ڈر کر ڈرا'' کے جرأت سے لڑکیوں کو اسکول تک لے کے آتی ہے۔ جب اسکول میں بم دھماکے کرکے ان کو تباہ کیا جاتا تھا۔ وہ کلاشنکوف کی گولی کا بالآخر نشانہ بنی اور اس کی دو اور ساتھی طالبہ بھی زخمی ہوئیں۔ وہ مارنے والے اسے مار چکے تھے۔ لیکن بچانے والے نے بھی اپنا کام کرنا تھا۔
ہماری فوجی ہیلی کاپٹروں سے پنڈی میں ملٹری اسپتال لائی گئی جہاں سے اسے پھر کچھ دنوں میں لندن منتقل کیا گیا۔ ملالہ پر حملے کی خبر طالبان کی کلاشنکوف سے لگی ہوئی گولی سے ہزار گنا زیادہ شور سے پوری دنیا میں پھیل گئی۔ طالبان کو یہ خبر تسلیم کرنی تھی کہ دہشت پھیلے مگر بارہ سالہ لڑکی کی جرأت کچھ زیادہ پھیل گئی۔ وہ جہاں بھی گئی اس پر پھول نچھاور ہوئے، اس کی ہمت کو دیکھ کر لوگوں کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور یہاں کچھ لوگ حسب عادت اپنی بوسیدہ Narrative کے تحفظ کی خاطر ملالہ پر کوڑا کرکٹ پھینکتے رہے۔
اور پھر بالآخر ملالہ جو پے درپے مختلف حوالے سے ایوارڈ لیتی رہی بالآخر نوبل انعام ہندوستان کے ایک اور عظیم نام جس نے بچوں کے حقوق کے لیے بہت بڑی تحریک چلا رکھی تھی، اس کے ساتھ لینے میں کامیاب ہوگئی۔ یہ نوبل ایوارڈ برائے امن بہت سے اور نوبل انعاموں سے مختلف ہے، جوکہ مخصوص سائنس کی ایجادات کی دریافت کے حوالے سے دیا جاتا ہے، یا ادب پر دیا جاتا ہے۔ یہ انعام ''امن'' کو محور بنا کر دیا جاتا ہے اور اس کا پیمانہ بہت ہی مختلف ہے۔
ملالہ نے دو کام کیے، ایک تو لڑکیوں کی تعلیم کے حوالے سے جدوجہد، دوسرا عورتوں کے حقوق کے حوالے سے اسی تسلسل میں اس کے کام کی نوعیت، نوبل کمیٹی جب یہ انعام دے رہی تھی تو ان کا ایک مقصد برصغیر میں امن بھی تھا۔ مذہبی انتہاپرستی کی اصل جڑیں اسی طویل تاریخی تنازعات میں پڑی ہیں جو ہندوستان اور پاکستان میں بڑے زمانوں سے التوا میں پڑے ہیں۔ کل امریکا کا بیان بھی انتہائی حوصلہ مند تھا جب انھوں نے ہندوستان پر باور کرایا کہ LOC پر فائرنگ میں زیادہ قصور ہندوستان کا ہے۔
ملالہ اور کیلاش کو ملا ہوا نوبل انعام برائے امن اس وقت اناؤنس ہوا جب سرحد پر اور LOC پر گولیوں کی بوچھاڑ ہو رہی تھی۔ تب دنیا کے ضمیر نے یہاں کے امن پسند لوگوں کے ساتھ کھڑا ہونا پسند کیا۔ وہ امن پسند ہندوستان میں رہتے ہوں یا پاکستان میں۔ وہاں ایسے کئی ہیں جن پر بھارتی جنتا پارٹی اور RSS والے ذہنی تشدد کرتے ہیں۔ بہت سے ایسے امن پرچارکوں کو دھمکیوں والے خطوط، ای میلز اور ایس ایم ایس کرتے ہیں۔ یہاں پر بھی یہ کام جاری ہے اور ایک لحاظ سے اس سے بھی کئی گنا برتر، مگر آج یہاں کی ریاست یہ کام نہیں کرتی۔ اب یہ کام مذہبی انتہا پرست کرتے ہیں۔
لیکن ہمارے گلزار کا خواب ایک دن ضرور حقیقت بنے گا جب ہماری سرحدیں گولیوں کے بجائے پھولوں سے تبادلہ کریں گی۔
''صبح صبح خواب کی دستک پر دروازہ کھولا... دیکھا سرحد کے اس پار سے کچھ مہمان آئے تھے... آنکھوں سے مانوس تھے سارے... چہرے سارے سنے سنائے... ہاتھ دھوئے پاؤں دھلائے... اور آنگن میں کچھ آہن لگائے... کوٹلی سے مہمان پچھلے سالوں کی گڑ لائے تھے... آنکھ کھلی تو دیکھا گھر میں کوئی نہیں تھا... اور آہن ابھی بجھا نہیں تھا... سرحد پر کل رات سنا ہے چلی تھی گولی... سرحد پر کل رات کچھ خوابوں کا خوں ہوا تھا'' (گلزار)