دنیا بھر سے آخر بھارت حقیقت کب تک چھپائے گا

سوال یہ ہےکہ بھارت کب خطےمیں چوہدراہٹ کےخواب دیکھنےسے فارغ ہوگااورکب ملک کےابترحالات کو ٹھیک کرنیکی کوششیں شروع کریگا۔


سہیل اقبال خان October 19, 2014
بھارتی میڈیا ہو یا بھارتی حکمراں دونوں بھارت میں ہونے والے ریپ کیسز کو چھپانے میں ناکام نظر آتے ہیں اور بجائے اِس سنگین مسئلے کو حل کرنے کے وہ خطے میں حکمرانی کے خواب دیکھ رہے ہیں۔ فوٹو: فائل

دنیا میں بسنے والے ممالک اور ان کے حکمران دنیا کے سامنے بڑے بڑے دعوے کرتے ہیں۔ ان ممالک کی فہرست میں بھارت شامل نہ ہو یہ ہو نہیں سکتا۔ کیونکہ بھارت اپنی ملک کی ترقی،ایٹمی قوت ،اور اپنے ملک میں عوام کی خوشحالی کا بہت بڑا دعوے دار ہے۔عالمی سطح پر کوئی کانفرنس ہویا بھارتی وزیراعظم کا کوئی بین الاقوامی دورہ،بھارتی وزیراعظم اپنے ملک کی تعریفوں کے پل باندھتے ہی دیکھائی دیتے ہیں۔یہ بات صرف وزیراعظم تک ہی محدود نہیں بلکہ بھارتی میڈیا بھی عالمی سطح پر بھارت کو ایک ترقی یافتہ،بااخلاق،اور انصاف پر مبنی معاشرہ ظاہر کرتا ہے۔

لیکن کہنے سے بھلا کیا ہوتا ہے؟ حقیقت تو وہی ہوتی ہے جو نظر آتی ہے۔ اور حقیقت تو کچھ اور ہی ہے۔ اسے نہ تو بھارتی میڈیا چھپا سکتا ہےاور نہ ہی بھارتی وزیراعظم ۔ ۔ بھارت نے لاکھ کوششیں کی کہ اس کے ملک میں ہونے والی جنسی زیادتی کے کیسسز کو منظر عام پر نہ لایا جائے، لیکن آج کے دور میں یہ ممکن نہیں کہ کسی کی نظر سے کوئی خبر چھپ جائے۔ ویسے تو بھارت خود کو دوسرے ہمسایہ ممالک سے بہت بہتر،طاقتور سمجھتا ہےاور دوسر ے ممالک کے اندرونی معاملات پر دل کھول کر تنقید کرتا ہے۔ لیکن شاید بھارتی حکمرانوں کو اپنے ملک میں کچھ بھی نظر نہیں آتا، جس کی واضح مثال بھارت میں بڑھتے ہوئے زیادتی کے کیسسز ہیں۔ ہر آئے دن بھارت میں ہونے والے زیادتی کے واقعات دنیا بھر کے میڈیا کی زینت بنتے ہیں ۔اور اب یہ واقعات اس حد تک بڑھ چکے ہیں کہ خود بھارتی حکومت کے لئے درد سر بن چکے ہیں۔ بھارت میں جنسی زیادتی کے واقعات پرتشویش کا اظہار تو اب عالمی سطح پر بھی کیا جانے لگا ہے۔

اور جیسا اوپر بیان کیا کہ آخر سچ کب تک چھپایا جائے گا کہ اب ان بڑھتے ہوئے کیسز کے حوالے سے خود بھارتی میڈیا نے بھی لب کشائی کرلی ہے کہ بھارتی اخبار نے بھارت میں بڑھتے جنسی زیادتی کے کیسسز کی ایک رپورٹ منظر عام پر لائی گئی ہے۔بھارتی اخبار ٹائمز آف انڈیا میں شائع ہونے والی رپورٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ بھارت میں ایک اندازے کے مطابق ہر آدھے گھنٹے بعد ایک خاتون جنسی زیادتی کا شکار ہو رہی ہے۔

اخبار کی اِس حولناک رپورٹ سے یہ اندازہ ہو جاتا ہے کہ بھارت میں جنسی زیادتی کتنے عروج پر ہے۔چونکہ یہ رپورٹ پولیس کو درج ہونے والے کیسز کی روشنی میں تیار کی گئی ہے تو اس سے یہ بھی اندازہ ہرگز مشکل نہیں کہ یہ تعداد اِس بھی کئی گناہ زیادہ ہے کہ بہت سے ایسے واقعات لازماً ہوئے ہوں گے جن کے حوالے سے پولیس کا آگاہ نہیں کیا گیا ہوگا۔

یہ بات محض بھارتی اخبار کی رپورٹ پر ختم نہیں ہو جاتی،بلکہ جب کامن ویلتھ ہیومن رائٹس انیشیٹو نے 2001ء سے لے کر2013ء تک بھارت میں ریپ کیسسز کا جائزہ لیا تو معلوم ہوا کہ ان 13سالوں کے دوران بھارت میں 264123کیسسز رپورٹ ہوئے۔ اِس قسم کی رپورٹس یقینی طور پر بھارت میں رہنے والی خواتین کے لئے کسی خوف سے کم نہیں ہے۔ اگر بات کی جائے بھارتی دارالخلافہ دلی کی تو وہاں وہاں 2001ء سے 2013ء تک میں اوستاً 13سالوں میں ریپ کیسسز میں 53.30فیصد اضافہ ہوا ہے۔

یہ تو وہ حقائق تھے جن سے بھارت لاکھ چاہے انکار نہیں کرسکتا ہے کہ یہ حقائق پوری دنیا کے سامنے عیاں ہوچکے ہیں۔ مگر سوال یہ ہے کہ بھارت خطے میں چوہدراہٹ کے خواب دیکھنے سے فارغ کب ہوگا اور کب اپنے ملک کے ابتر حالات کو ٹھیک کرنے کی کوششیں شروع کریگا ۔ بھارت لاکھ کوشش کرلے اور امریکا کی جتنی چاہے خدمتیں کرلے مگر ایک بات تو طے ہے کہ اُسکے اِس خطے پر حکمرانی کا خواب شاید ہی کبھی پورا ہوسکے تو بہتر تو یہی ہے کہ ریاستی طور پر عملی اقدامات شروع ہوجائے۔ کیونکہ وہاں ریاست اِس قدر غیر فعال ہوچکی ہے کہ لوگوں نے اپنی مدد آپ ان حولناک واقعات سے بچنے کے لیے عملی اقدامات شروع کردیے ہیں جیسے خواتین کو مکمل لباس پہنانا اور اُن کے لیے خاص قسم کی جینز تیار کرنا کہ جس میں الیکٹرک کیبلز موجود ہیں اور جب بھی کوئی غلط حرکت کی کوشش کریگا تو فوری طور پر قریبی تھانے میں اطلاع پہنچ جائے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں