مسیحا اور مریضوں کا مستقبل

تعلیم، صحت اور انصاف بنیادی اہمیت کے حامل تینوں شعبے ہمارے یہاں بد نظمی، بد انتظامی، کرپشن اور لوٹ مار کا شکار ہیں۔


Adnan Ashraf Advocate October 19, 2014
[email protected]

پاکستان میڈیکل اینڈ ڈینٹل کونسل (PMDC) نے اپنے 137 ویں اجلاس منعقدہ 4 فروری 2014 میں فیصلہ کیا تھا کہ آیندہ تعلیمی سال سے میڈیکل و ڈینٹل کالجز اور یونی ورسٹیز میں داخلہ اوپن میرٹ کے بجائے لڑکے اور لڑکیوں کی مساوی شرح سے کیے جائیں گے۔

یعنی پچاس فیصد نشستوں پر لڑکوں اور پچاس فی صد نشستوں پر لڑکیوں کے داخلے ان کی علیحدہ علیحدہ میرٹ کی بنیاد پر ہوں گے لیکن فروری میں کیے گئے اس فیصلے کا نوٹیفکیشن انتہائی تاخیر سے 18 ستمبر 2014 کو جاری کیا گیا جس میں PMDC نے تمام صوبائی و وفاقی سیکریٹریز ہیلتھ اور سرکاری و نجی میڈیکل کالجز اور یونی ورسٹیز سے کہا ہے کہ 2014-15 کی داخلہ پالیسی کے سلسلے میں لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے مساوی نشستوں پر داخلے کیے جائیں۔ PMDC کے اس فیصلے پر طلبا، اساتذہ، والدین، یونی ورسٹیز اور میڈیکل کالجز اور دیگر طبقات کی طرف سے رد عمل بھی سامنے آنا شروع ہوگیا ہے، وزیراعلیٰ پنجاب کی جانب سے تشکیل کردہ کمیٹی نے اپنی سفارشات میں PMDC کے اس اقدام کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ عمل صنفی امتیاز پر مبنی ہے، سپریم کورٹ جس نے اوپن میرٹ کا حکم دیا تھا اس کے حکم کے خلاف ہے اور یہ اقوام متحدہ کے چارٹر کے بھی خلاف ہے جس کی توثیق پاکستان کرچکا ہے۔

سندھ کے کچھ میڈیکل کالجز اور یونی ورسٹیز حکومت سندھ کی ہدایت کی منتظر ہیں کچھ نے PMDC سے فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست کی ہے کیوں کہ داخلوں کی کارروائی کا بڑا مرحلہ مکمل ہوچکا ہے بعض تعلیمی اداروں نے میرٹ لسٹ بھی تیار کرلی ہیں۔ کونسل کے فیصلے پر اس قسم کے اعتراضات کیے جارہے ہیں کہ یہ فیصلہ صنفی امتیاز پر مبنی ہے، دنیا میں کہیں ایسا نہیں ہوتا، جب لڑکیاں میرٹ پر ہیں تو انھیں داخلے سے محروم کیوں کیا جائے، اس اقدام سے طلبا خودکشیاں کریں گے وغیرہ وغیرہ۔طب کے شعبے سے وابستہ شخصیات ان کے عہدیدار، دانشور اور صحافی حضرات کافی عرصے سے میڈیکل کالجز اور یونی ورسٹیز میں داخلے کے لیے اوپن میرٹ کے نظام کو ختم کرنے، ڈاکٹروں کے سی ایس ایس کرنے پر پابندی لگانے کا بھی مطالبہ کررہے تھے، اخبارات نے اس سلسلے میں اداریے بھی تحریر کیے تھے۔

اعداد و شمار کے مطابق اس وقت PMDC سے رجسٹرڈ ڈاکٹروں کی تعداد 142,017 ہے جن میں 77551 مرد جب کہ 64466 خواتین شامل ہیں، اسی طرح ڈینٹسٹ کی کل تعداد 13479 ہے جن میں سے 5369 مرد جب کہ 8110 خواتین ڈینٹسٹ ہیں، خواتین کا تناسب ان کے داخلوں کے مقابلے میں کم ہے اور یہ بھی ضروری نہیں کہ جتنی خواتین ڈاکٹر رجسٹرڈ ہیں سب کی سب پریکٹس کررہی ہوں آج کل طلبا اور والدین نے تعلیم و ڈگریوں کو نمود و نمائش اور رشتوں کے حصول کا ذریعہ بنالیا ہے۔ لڑکیوں کو ڈاکٹر بنانے کے جتن کیے جاتے ہیں۔ جسٹس ڈوگر کی بیٹی کے میڈیکل کالج میں داخلے کا کیس اس کی روشن مثال ہے، پاکستان میں میڈیکل اور ڈینٹل کالجز میں لڑکیوں اور لڑکوں کا تناسب بالترتیب 70 اور 30 فی صد ہے لڑکیوں کے 5 میڈیکل کالجز میں ان کی سو فی صد نشستیں مختص ہیں لڑکیوں کی 25% تعداد ہی اس شعبے سے منسلک رہتی ہے۔ 75 فی صد ڈگریاں حاصل کرنے کے بعد یا دوران تعلیم ہی اس شعبے کو خیر باد کہہ دیتی ہیں۔

اس کے علاوہ ڈاکٹروں کی کچھ تعداد سی ایس ایس کرکے اس شعبے سے کنارہ کش ہوجاتی ہیں ،کچھ ڈاکٹر اور انجینئر اس شعبے کا انتخاب ہی متبادل کے طور پر کرتے ہیں کہ اگر وہ سی ایس ایس میں کامیاب نہ ہوسکے تو اسی پیشے کو اپنا لیں گے۔ حکومت ایک ڈاکٹر کی تیاری پر 40 لاکھ روپے خرچ کرتی ہے یہ پیسہ اس غریب عوام کی جیب سے ادا کیا جاتا ہے جس کا طبی سہولت نہ ملنے پر ہر ایک منٹ بعد ایک بچہ ہلاک ہوجاتا ہے۔ جہاں زچکی میں سالانہ 25 ہزار سے زائد خواتین لقمہ اجل بن جاتی ہیں جہاں صرف کتے کے کاٹے کا علاج نہ ہونے کی وجہ سے 8000 اموات سالانہ ہوتی ہیں ،جہاں لاکھوں نہیں بلکہ کروڑوں شہریوں کی زندگیاں عطائیوں اور نیم حکیموں کے رحم و کرم پر ہوتی ہیں۔ لہٰذا تمام تر قومی اہمیت کے فیصلے اپنے معروضی حالات اور وسیع تر عوامی مفاد کو مد نظر رکھتے ہوئے کرنا چاہئیں۔

PMDC کے حالیہ فیصلے کو وسیع تر قومی مفاد میں ایک اچھا فیصلہ کہا جاسکتاہے جس کے اطلاق میں تاخیر کی گئی ہے، عین موقع پر فیصلے کا اطلاق داخلے سے محروم رہ جانے والے امیدواروں پر یقینا بہت گراں گزرے گا۔ PMDC محکمہ صحت اور حکمتوں کو سرکاری اور خاص طور پر پرائیویٹ میڈیکل کالجز کے معیار، ان کی فیکلٹی اساتذہ اور ٹیچنگ اسپتالوں کے بارے میں بھی سنجیدہ راہ عمل اختیار کرنا چاہیے، اس وقت 130 میڈیکل کالجز میں 7 ہزار اساتذہ کی آسامیاں خالی پڑی ہیں بہت سے پرائیویٹ میڈیکل کالجز قوانین اور پابندیوں سے آزاد ہیں میڈیکل کی تعلیم کے لیے ایوینگ کلاسز شروع کرنے کی بھی کوششیں کی گئی تھیں۔

اگر پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن آڑے نہ آتی تو ٹیکنیکل کورسز کی طرح ڈاکٹروں کی ڈگریاں بھی شام میں بٹنا شروع ہوجاتی۔ غیر معیاری میڈیکل کالجز کی فہرست اخبارات میں شایع کردینا کہ یہاں پر تعلیم حاصل نہ کی جائے کوئی تعلیمی خدمات نہیں ہے ۔ حال ہی میں PMDC نے جامعہ کراچی سمیت 7 سرکاری جامعات کو میڈیکل اور ڈینٹل کالجوں کو الحاق دینے کا اختیار ختم کردیا ہے اور الحاق شدہ کالجوں کو ان یونی ورسٹیز سے اپنا الحاق فوری طور پر منقطع کرنے کی ہدایت کی ہے۔ اس فیصلے سے ہزاروں طلبا حیران و پریشان ہیں کہ وہ امتحانات کس یونی ورسٹی سے دیں گے اور انھیں ڈگری کون جاری کرے گا۔ ڈاؤ یونی ورسٹی آف ہیلتھ سائنسز کی جانب سے کی جانے والی جگر کی پیوند کاری، ہیپاٹائٹس، سانپ کے کاٹے کی ویکسین کی تیاری اور عوام کو سستی دواؤں کی فراہمی کے لیے صوبہ بھر میں 12 فارمیسیاں قائم کرنے کی منصوبہ بندی بھی بد انتظامی اور قانونی پیچیدگیوں کی وجہ سے التوا کا شکار ہیں۔

ایک رپورٹ کیمطابق پاکستان مہنگی ترین اور دو نمبر ادویہ فروخت کرنیوالے ایشیائی ممالک کی فہرست میں پہلے نمبر پر آگیا ہے ۔ جہاں ملٹی نیشنل کمپنیاں سو گنا زائد منافعے پر ادویہ فروخت کررہی ہیں جب کہ دیہاتوں میں زائد المیعاد دوائیاں فروخت ہورہی ہیں جن سے اموات میں اضافہ ہورہاہے، اس کھیل میں تاجر، محکمہ صحت اور ڈاکٹر سب شامل ہیں، پاکستان میں 80 ارب روپے سالانہ سے زائد مالیت کی دوائیاں در آمد ہوتی ہیں ۔انتہائی منافع بخش ہونے کی وجہ سے اس میں منظم مافیا سرگرم ہیں، مجاز حکومتی ادارے غیر موثر و غیر متحرک ہیں ڈرگ کورٹس کی کارکردگی بھی خراب ہے۔

چند سال پیشتر سپریم کورٹ کے سامنے بھی یہ بات آئی تھی کہ دوا ساز ملٹی نیشنل کمپنیاں پاکستان میں 500 فی صد سے زائد منافع لے رہی ہیں جب کہ بھارت میں یہی دوائیاں انتہائی ارزاں نرخوں پر فروخت کی جارہی ہیں، تعلیم، صحت اور انصاف بنیادی اہمیت کے حامل تینوں شعبے ہمارے یہاں بد نظمی، بد انتظامی، کرپشن اور لوٹ مار کا شکار اور روبہ زوال ہیں اگر اب بھی ان کی اصلاح پر توجہ نہ دی گئی تو معاشرہ صحت مند، تعلیم یافتہ اور امن وانصاف پسند شہریوں سے خالی ہوکر کوئی ناگہانی صورت حال اختیار کرجائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں