لایعنیت کا آسیب

معاشرتی زندگی میں ایک عرصے کے خوفناک الجھاؤ نے اب ہمارے ذہنوں میں راستہ بنالیا ہے۔


Rafi Allah Mian October 21, 2014

کبھی کبھی ایسا محسوس ہوتا کہ ہم ایک آسیبی تکون میں غلطی سے داخل ہونے کی خطا کرکے اب واپسی کا راستہ کھو چکے ہیں۔ تکون کے اندر بھول بھلیوں پر مشتمل ایک دہشت ناک منظر ہے۔ یہ عجیب سا آسیب ہے جو ہمیں نہ کچھ سمجھاتا ہے نہ سمجھنے دیتا ہے۔ ذہن و دل پر عجیب سے احساسات کا غبار چھایا رہتا ہے۔ کبھی سیدھا راستہ نظر آتا ہے تو اس پر قدم دھرنے سے بدکنے لگتے ہیں اور فوراً کوئی موڑ مڑجاتے ہیں۔ ہمارے سامنے گلاس دھرا ہے، اس میں پانی جھلملارہا ہے، ہمارے گلے کی پیاس چیخ رہی ہے لیکن ہم عجیب سے سوالوں میں الجھے پیاس سے چیخے جاتے ہیں اور گلاس کو ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کرتے۔ کہیں شیشے کی بناوٹ میں زہر کا استعمال نہ کیا گیا ہو؟ یہ ہمارے سامنے دھرا ہی کیوں ہے؟ جب ہمیں پیاس لگ رہی ہے تب ایسے وقت میں اس کی موجودگی کیا معنی رکھتی ہے؟ کوئی دشمن ضرور ہماری پیاس پر ہنس رہا ہوگا۔ گلاس کی ساخت ٹھیک نہیں لگتی۔۔۔۔

کسی دانشمند سے ایک نوجوان نے سوال کیا: سیدھے راستے پر چلنا اتنا مشکل کیوں ہوتا ہے؟ دانا مسکراتے ہوئے گویا ہوئے: کیونکہ آپ کے دماغ کے ٹیڑھے سوالات آپ کو قدم قدم پر روکتے ہیں۔ یہ وہ طاقت رکھتے ہیں جس سے آپ کے بظاہر مضبوط قدم بھی ڈگمگا جاتے ہیں۔ محدود علم اور ذہنی کشادگی نہ رکھنے والوں کے لیے ٹیڑھے سوال آسیب بن جاتے ہیں۔ فلسفیانہ سوالات کا مقصد حقیقت اور سچائی تک پہنچنا ہوتا ہے۔ اپنے دل و دماغ کی الجھنوں کو سلجھانا ہوتا ہے لیکن خلوص ہر رشتے کی طرح ہر علم کی بنیاد کو بھی ٹھوس بناتا ہے۔ خلوص سے محرومی بڑی محرومی ہے۔

معاشرتی زندگی میں ایک عرصے کے خوفناک الجھاؤ نے اب ہمارے ذہنوں میں راستہ بنالیا ہے۔ ہم سیدھے راستے کو اپنے ذہنی قالب میں الجھے دھاگے کی طرح لپیٹ کر ناقابل گزر بنا دیتے ہیں۔ اس فیصلے سے محرومی کتنی بڑی محرومی ہے جو ہمارے لیے زندگی بہت آسان بنا دیتا ہے۔ فیصلہ اس بات کا کہ اس راہ پر چلنا ہے اور اس راہ پر نہیں۔ کوئی سوال میرے قدموں سے لپٹ کر مجھے روکنے کی ہمت نہیں کرسکتا کیونکہ میرے دماغ کی دھند میرے واضح فیصلے نے ہٹا دی ہے۔ دھند کو سمجھنے کے لیے اپنے اندر تضادات کو دیکھنے کی ضرورت ہے۔ ہم جس راستے کو برا سمجھتے ہیں، اسی پر قدم رنجہ ہوتے ہیں۔ ہم جس راستے کو سیدھا سمجھتے ہیں، اس پر قدم رکھنے کے بارے میں سوچتے بھی نہیں ہیں۔ کبھی ہم سیدھے راستے کو ٹیڑھا سمجھتے ہیں کبھی ٹیڑھے کو سیدھا ایک عجیب آسیبی حالت ہے۔

ہم پڑھ لکھ کر بھی ٹھوکریں کھاتے ہیں کیونکہ ہم اپنے تعصبات کے آگے مجبور ہوجاتے ہیں۔ یہ تعصبات نفسیات سے شروع ہوتے ہیں اور قومیت سے بھی آگے نکل جاتے ہیں۔ ہمارے لیے لکھنے پڑھنے کے معنی ہی کچھ اور ہیں اسی لیے ہمیشہ لفظ اور معنی کے رشتے کی نوعیت سے کماحقہ آگاہ نہیں ہو پاتے ہمارے لیے تو زندگی کے معنی بھی جبر مسلسل کی لہر میں بہے جانا ہے۔ جبر ایک منفی عمل ہے۔ کسی اچھی قوت کی طرف اس کا انتساب کیسے درست ہوسکتا ہے۔ سیدھے راستے پر چلنے والا فطرت کی آغوش میں ہوتا ہے۔ فطرت اسے آزاد منش بناتی ہے۔ یہ جبری قوتیں ہیں جو ہمارے دل و دماغ پر اثرانداز ہوکر ہمیں اپنی ٹیڑھی راہوں کی طرف گھسیٹ لیتی ہیں اور ہم عجیب و غریب قسم کے تعصبات میں مبتلا ہوکر ہر چیز کو شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ اپنے اندر غم و غصے کی دھند بڑھا دیتے ہیں۔ ٹیڑھے راستوں پر علم بھی کام نہیں آتا۔

جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسے دوسروں کے پاس دیکھ کر حسد اور نفرت کا شکار ہونا یقینا ہماری نفسیات کا ٹیڑھا پن ہے۔ سیدھا راستہ یہ ہے کہ جو ہمارے پاس نہیں ہے، اسے 'ہے' میں بدلنے کے لیے عزم کے ساتھ عمل پیرا ہوں جس دل اور دماغ میں حسد اور نفرت جمع ہوجائیں اس کے لیے ممکن نہیں رہتا کہ وہ اپنے اندر نفع بخش علم کا بھی اضافہ کرسکے۔ فطرت بڑی ستھری گزرگاہ ہے، میلا آدمی اس سے بھٹک جاتا ہے۔ اس لیے ہم سب بھٹکے ہوئے ہیں۔ ہم ایک دوسرے سے حسد بھی کرتے ہیں' نفرت بھی۔ دوسرا اگر ہمارے نظریے، عقیدے اور مذہب کا نہیں ہے تو ناقابل برداشت ہے۔ ہمارے ذہنوں میں پنپتا تعصب ایک طرف ہمیں ظلم دکھاتا ہے اور دوسری طرف چھپاتا ہے۔

فطرت کی ستھری گزرگاہ پر ہر ظلم واضح ہوجاتا ہے۔ ہم دوسروں کے ظلم سے نظریں ہٹاکر اپنے مظالم پر نگاہ مرکوز کردیتے ہیں۔ ہم جب کسی سے نفرت کرتے ہیں تو ظالم بن جاتے ہیں، حسد کرتے ہیں تو ظالم بن جاتے ہیں، بدگوئی کرتے ہیں تو ظالم بن جاتے ہیں۔ یہ تو واضح منفی رویے ہیں؛ غیر واضح منفی رویے بھی واضح ہوجاتے ہیں۔ اس لیے جب ہم علم کا فقدان دیکھتے ہیں تو خود کو ظالم سمجھنے لگتے ہیں، اخلاق کا فقدان دیکھتے ہیں تو ظالم دکھائی دینے لگتے ہیں، تعمیر و ترقی کے جذبے کا فقدان دیکھتے ہیں تو خود سے بڑا ظالم کوئی دکھائی نہیں دیتا۔خالق کائنات نے ہر شخص کو کائنات کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالنے کی اہلیت بھی دی ہے اور ہمت بھی۔ ٹیڑھے راستے کا انتخاب کرکے ہم اپنے اندر موجود ان دو اہم فطری عناصر کو یکسر بھول جاتے ہیں۔ بہت سارے ٹیڑھے سوالات ہمیں مزید زمین پر گرا دیتے ہیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ ہمارے اندر ایک بہت بڑا یا عالمی معیار کا کوئی علمی و ترقیاتی ادارہ تعمیر کرنے کی اہلیت نہیں ہے تو ہم خود کو بری الذمہ سمجھ کر دوسروں کی علمی کوششوں پر انگلی اٹھانے کی روش اپنا لیتے ہیں۔

سیدھے راستے پر چلنے سے ہم اپنی درست اہلیت کی شناخت کے بھی قابل بن جاتے ہیں اور ہم یہ سمجھ لیتے ہیں کہ ہم کسی علمی و ترقیاتی ادارے کی بنا نہیں ڈال سکتے لیکن ہم ایسے کسی بھی کوشش میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکتے ہیں اور خود اپنے محدود دائرے کے اندر ایک علمی و ترقیاتی کوشش بروئے کار لاسکتے ہیں۔ ہماری نظر میں ہمارا اپنا مقررکردہ ہدف ہوتا ہے، کسی دوسرے کے ہدف پر ایسا ردعمل ہرگز نہیں جو خود ہمارے ہدف کو نقصان پہنچانے کا سبب ہو لیکن ٹیڑھے سوالات ہمیں ہمارے اپنے گھر کے محدود لیکن انتہائی اہم دائرے کے اندر بھی تعمیری عمل سے روک دیتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے رویے ہماری آنیوالی نسلوں پر منفی طور پر مرتب ہوتے ہیں۔ کیا ہوا کہ ہمیں اپنے قصور کا ادراک نہیں ہوپاتا؛ اگر صورت حالات کے ہاتھوں ذلت کے گڑھے میں دھکیلے جانے کے بعد بھی ہم خود کو معصوم تصور کرتے ہیں تو نتائج وہی برآمد ہوتے ہیں جیسا کہ ہم اپنے معاشرے میں بھگت رہے ہیں۔

سیدھی سوچ اور سیدھا راستہ ہمیں بتاتے ہیں کہ اہم یہ نہیں کہ دوسرے کیا کررہے ہیں بلکہ اہم یہ ہے کہ ہم کیا کر رہے ہیں۔ اگر ہم اپنے لیے گڑھا کھود رہے ہوں اور دوسرے آکر اس میں لکڑیاں ڈال کر آگ دکھا دیتے ہیں تو دوسروں کے ساتھ چاہے ہم کتنا ہی لڑجھگڑ کیوں نہ لیں، ہمارا مسئلہ حل نہیں ہوسکتا جب تک ہم اپنے لیے گڑھا کھودنا بند نہیں کرینگے دوسروں کو برا کہتے جانا ہمارا عمومی رویہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں