آئینہ دیکھنے کے قابل نہیں ہیں ہم

ہم اگر کسی کے امین ہوں یا ہمارے اپنے ہی اثاثوں کو کوئی یوں لوٹ کر چلتا بنے تو ہم شدید صدمے کا شکار ہو جائیں گے.


Shirin Hyder October 26, 2014
[email protected]

KARACHI: 20 اکتوبر کی صبح حسب معمول ٹیلی وژن آن کیا ، کبھی بھی کوئی اچھی خبر سننے کو نہیں ملتی مگر اس روز تو ...چلنے والی خبر سن کر میں دم بخود رہ گئی... وجود کی گہرائیوں میں شرمندگی اتر گئی، مجھے خود سے شرمندگی ہو رہی تھی ...مجھے لگا کہ میں ان مجرموں میں سے ایک ہوں جو ڈنکے کی چوٹ اور اسلحے کی نوک پر ہمارے ملک کی ایک معروف سماجی شخصیت، عبدالستار ایدھی کو لوٹ کر تا دم تحریر دندناتےo پھر رہے ہیں۔

مجھے لگا کہ صرف وہ نہیں بلکہ ہم سب... میں اور آپ، اس جرم میں برابر کے شریک ہیں۔ حکومت ان مجرموں کے گریبان تک پہنچنے میں ناکام ہوئی ہے اور ہم سب اس پر خاموش ہیں، ادارے خاموش ہیں، حکومت خاموش ہے اور حکومت مخالف قوتیں خاموش ہیں، ایک اتنے انسان دوست شخص کا لٹنا... کوئی چھوٹا سانحہ نہیں، ہم اتنا گر گئے ہیں کہ ہمیں اس معاملے کی سنجیدگی کا اندازہ بھی نہیں ہوا؟؟

خود سوچیں، ایک شخص جو امین بھی ہے اور دیانت دار بھی، بے لوث کارکن بھی اور سادہ مگر درد مند دل رکھنے والا۔ نیکی کا کون سا کام ہے جو اللہ تعالی نے اس معصوم دل شخص کے ہاتھوں سے نہیں کروایا، اپنی پیدائش کے وقت سے ہی بے رحم لوگوں کے ہاتھوں مرنے کے لیے کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے ہوئے بچے ہوں یا وہ جنھیں حالات بھکاری بنا دیں، لاوارث لاشیں ہوں یا بے سہارا عورتیں، غریب اور ضرورت مند ہوں یا اپنوں کی کج ادائی کا شکار عمر رسیدہ لوگ ، جو حالات کے اس قدر ستائے ہوئے ہوتے ہیں کہ اپنے مرنے کی دعائیں کرتے ہیں، ان سب کے سروں پر اللہ کی رضا سے ایک دست شفقت، ایک سہارا ہمارے ملک میں عبدالستار ایدھی نام کا ہے، جسے کوئی غرض نہیں مگر وہ لاکھوں غرض مندوں کی اغراض کے لیے دن رات محنت کرتا ہے۔

ہم اگر کسی کے امین ہوں یا ہمارے اپنے ہی اثاثوں کو کوئی یوں لوٹ کر چلتا بنے تو ہم شدید صدمے کا شکار ہو جائیں گے، وہ بے چارے تو یوں بھی ان دنوں بیمار اور ہماری دعاؤں میں شامل ہیں، ان کے لیے تو ہم صحت اور طویل عمری کی دعائیں مانگتے ہیں کہ وہ اس بے حس معاشرے میں ... روشنی کی کرن کی مانند ہیں جو اپنی نوعیت کا غالبا دنیا میں انوکھا کام کر رہے ہیں ، ایک شخص جو تن تنہا ایک نیک کام کا بیڑا اٹھاتا ہے اور اسے نیکی کے اس سفر میں ہم سفر ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا، ہم اپنی ذاتی حیثیت میں ان کے اس نیک کام میں کیا شراکت کرتے ہیں؟

کبھی کسی چندے کے بکس میں دس، بیس یا پچاس روپے ڈال دیے یا سال بھر کے بعد قربانی کی کھالیں ایدھی کو دے کر ان پر احسان عظیم کر دیتے ہیں ، مگر جب ہم خود کسی مشکل میں پڑتے ہیں تو ہم ساری توقع ایدھی کے مراکز اور ایدھی کی ایمبولینس سے ہی کرتے ہیں۔ بدلے میں ہم نے کبھی کچھ کرنے کا سوچا؟ ایدھی صاحب بھی یہ سب کچھ کسی لالچ یا ہمارے جیسے بے حس لوگوں سے کسی توقع پر نہیں کرتے ہوں گے، ان کا کام، ان کا جذبہ، ان کی محنت اور ان کا مقصد بے لوث اور ان سب اغراض سے بالاتر ہے۔

اس پیارے شخص کا اتنا نقصان ہوا، جو کچھ لٹا اس کا نہ تھا مگر اس سے لوگوں کا اعتبار وابستہ تھا۔ دنیا کا سارا کاروبار اسی طرح چلتا رہا، کسی کو فرق نہیں پڑا، فرق اسے پڑا جو کروڑوں کا امین تھا اور اس کی امانتیں لٹ گئیں اور اس کی حیثیت بھی نہیں کہ وہ ان امانتوں کے مالکوں کو منہ بھی دکھا سکے۔ کیا اپنے محسنوں کے ساتھ یہی کیا جاتا ہے؟ کیا ان جیسی شخصیت کے ساتھ ایسا ہونا ہمارے منہ پر کالک ملے جانے کے مترادف نہیں؟ ہمارے ہاتھ سے کوئی چند ہزار بھی چھین کر لے جائے، وہ چند ہزار جو ہماری اپنی ملکیت ہوں ، تو ہم شور مچا مچا کر حشر برپا کر دیں مگر کیا ہوا اس شخص کے ساتھ( جس کی ساری عمر ان کاموں میں وقف ہو گئی ،جن کا آج تک ہماری کوئی حکومت بھی بیڑا نہیں اٹھا سکی) میں سمجھتی تھی کہ جس کے ساتھ اتنی دعائیں ہوں، اس کے ساتھ کچھ برا نہیں ہو سکتا مگر شاید ہم بھول جاتے ہیں کہ ہمارے ہاں ضمیر نام کی چیز دن بدن ناپید ہوتی جا رہی ہے۔

میں اور آپ اور ایدھی صاحب بھی ہمہ وقت اس وقت ملک کے تمام ٹیلی وژن چینلز پر دن رات دیکھتے ہیں کہ حکومتی اور حکومت مخالف جماعتوں کے جلسے، جلوس اور دھرنے ہو رہے ہیں، ہم سب دیکھتے ہیں کہ ان پر روپیہ پانی کی طرح بہایا جا رہا ہے، کوئی ان لوگوں سے اس کا حساب مانگنے والا نہیں کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں۔ اپنی اپنی اناؤں کی جنگ لڑتے ان سب لیڈروں میں سے کوئی ایک بھی ایسا نہ تھا جو ایدھی صاحب کے اس دکھ کا احساس کرتا۔ حکومت چاہتی تو ان مجرموں کے خلاف گھیرا تنگ کرتی اور انتہائی سختی سے حکم جاری کر کے ان کی گرفتاری اور عبرت ناک سزا کا حکم دیتی مگر... اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا ( حکومت کو)

پانچ کلو سونا، جس کی مالیت اس وقت اڑھائی کروڑ کے لگ بھگ ہو گی ، نقدی اور دیگر صورتوں میںچند اور کروڑ، کیا یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ ہماری حکومت اس کا بوجھ برداشت نہ کر سکتی؟ ایک ایک جلسے پر لاکھوں نہیں، اربوں روپے پھونک دیے جاتے ہیں ، ستر دن سے زائد عرصے پر محیط دھرنوں پر اربوں روپوں کی لاگت آئی ہو گی، کیا ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو کہ ایدھی صاحب کے اس نقصان کی تلافی کی پیش کش کرتا؟ کئی کئی سو کنال کے محلوں میں رہنے والے کیا اتنی معمولی رقم نہیں دے سکتے تھے، نیکی کا کام سمجھ کر ہی ، اللہ کی راہ میں دینے کی نیت کر کے ہی؟ کاش کوئی ایدھی صاحب کو اس مشکل صورت حال سے نکالے۔

اور جب سنا کہ کون ان کی مدد کر رہا ہے تو ایک بار پھر میں کش مکش میں پڑ گئی... ملک ریاض، جن کے بارے میں میں نے کبھی کسی کالم میں ذکر تک نہیں کیا، ا س کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ کسی شخصیت پر بغیر کسی وجہ کے اور ناکافی معلومات کے کالم نہیں لکھا جا سکتا، ان کے بارے میں میری تمام معلومات ناقص ہیں ۔ شنید تھا کہ وہ بہت سخی ہیں اور ان کے زیر سایہ چلنے والے ادارے مثلاً دستر خوان وغیرہ کافی موثر ہیں، سیلاب اور زلزلہ زدگان کی بحالی کے لیے ان کی طرف سے جو کام کیا جا رہا ہے وہ بھی ہمارے سامنے ہے۔

بلا شبہ ان کی یہ نیکی ... اسے نیکی تسلیم کرنا ہی پڑے گا، اللہ انھیں ا س کا اجر دے... لیکن اس بات کی کسک رہے گی کہ جن سے توقع کی جا سکتی تھی، جنھیں اس ملک میں جرائم کے سد باب کے لیے کام کرنا چاہیے تھا ، ان میں سے کوئی بھی اس کا اہل نہیں... اس ایک واقعے نے ہم سب کی نکھیں کھول دی ہیں، ہم سب کو شرمندگی کے سمندر میں غوطہ زن کر دیا ہے اور ہمیں آئینہ دیکھنے کے قابل نہیں چھوڑا۔

اب تو خوف یہ بھی ہے کہ جانے اس کے بعد اگلا شکار کون ہو گا... میں یا آپ؟؟؟

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں