پاکستان ایک نظر میں غیر سیاسی لب و لہجہ

سیاستدانوں کومعلوم ہوناچاہیےکہ عوام کوآپ کے بیانات سے نہیں بلکہ مسائل کوحل کرنے کیلئے اُٹھائے گئےاقدامات سے مطلب ہے۔


سہیل اقبال خان October 27, 2014
آج کل سیاست نے الگ رنگ اپنا لیا ہے پہلے ایک طرف سے بیان آتا ہے پھر اُس کا جواب دیا جاتا ہے اور پھر بیانات کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے اور ان بیانات میں عوامی مسائل کہیں گم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ فوٹو: فائل

ملک میں سیاسی میدان تو گرم ہے ہی لیکن اب تو زبان سے بھی دوسروں پر تیر چلائے جا رہے ہیں۔اور ایسے ایسے تیر چل رہے ہیں جو دوسروں کو بھی بولنے پر مجبور کر رہے ہیں اور پھر دوسری جانب سے جو جواب دیا جاتا ہے تو وہ اس سے بھی زیادہ سخت ہوتا ہے۔

میں اگر اس سلسلے کو دھرنو ں کو منسلک کروں تو یہ غلط نہ ہو گا،کیو نکہ جب سے پاکستان تحریک انصاف اور عوامی تحریک نے مارچ کا آغا زکیا اور پھر دھرنے کا سلسلہ شروع ہوا تب سے ملکی سیاست میں ایک ہلچل سی مچی ہوئی ہے۔کوئی کسی پر الزام لگا رہا ہے تو کوئی ان الزامات کو جھوٹا ثابت کرنے کی دوڑ میں لگا ہوا ہے۔دھرنوں سے پہلے ملک کی سیاست اور سیاسی زبان کا رنگ کچھ اور تھا،لیکن اب لگ یوں رہا ہے کہ جیسے دھرنوں والوں نے سیاسی زبان کو بھی تبدیل کرنے کا ایک رواج قائم کر دیا ہے۔کیونکہ ہماری سیاست میں جب ایک چیز 'ان' ہوتی ہے تو وہ پھر ہر کوئی اپنا لیتا ہے۔

عوامی تحریک اور تحریک انصاف نے نہ تو الزامات میں کسی کو بخشا اور نہ ہی سیاسی رہنماوں پر بات کرتے ہوئے سیاسی زبان کا خیال رکھا ۔خان صاحب نے نواز شریف جو اس وقت ملک کے وزیراعظم ہیں ان کو گیدڑ تک کہا،یہاں تک کہا گیا کہ سرکس کا شیر نہ بنو، بلکہ اصل شیر بن کر استعفی دو۔بھلا یہ کون سا انداز ہے استعفی لینے کا،اپوزیشن لیڈر جو اس سیاسی کشیدگی میں اپنا کردار ادا کرنے کو تیار تھے ان پر بھی غیر سیاسی زبان استعمال کی جاتی رہی۔ساتھ ہی ساتھ عوامی تحریک کی جانب سے بھی کوئی کسر نہ چھوڑئی گئی اور آصف علی زرداری کے ایک بیان پر ان ک زبا ن کھینچ لینے کی دھمکی دے دی گئی۔میں تو یہ سمجھنے سے قاصر ہوں کہ یہ کون سی سیاست ہے،کون سا سیاسی رویہ ہے۔جس میں ایک بیان کو بھی برداشت نہیں کیا جاتا۔

یہ سلسلہ صرف ان دو پارٹیوں کے قائدین پر نہیں ختم ہوتا بلکہ رہی سہی کسر ملکی سیاسی میں تازہ حصہ ڈالنے والے بلاول بھٹو نے عید کے موقع پر ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین کو سخت زبان میں دھمکی دے کر پوری کر دی۔ یہ سلسلہ اب بھی چل رہا ہے۔کہیں خورشید شاہ اپنے بیانات سے معاملے کو گرما رہے ہیں، تو کہیں مولانا فضل الرحمان اسلام آباد دھرنے کو مجرے کے مترادف کہہ رہے ہیں۔لگ یوں رہا ہے کہ اس وقت صرف اور صرف دھمکیوں،زبانی کلامی باتوں،اور بیانات کی سیاست ہو رہی ہے۔نہ تو کوئی عوامی مسائل پر بات کررہا ہے اور نہ ہی پاکستان کے مستقبل کو روشن کرنے کی کسی کو فکرہے۔

بس اگر آج سیاست دانوں کو فکرہے تو یہ کہ کیسے اپنی سیاست کو زندہ رکھنا ہے، کیسے اپنے حق کے لیے صوبے بنانے ہیں اور کیسے کسی بیان پر جوابی حملہ کرنا ہے۔اگر تازہ ترین غیر سیاسی زبان کا ذکر کروں تو وہ شیخ رشید نے گزشتہ جلسے میں استعمال کی۔جس میں انہوں نے اپنے غصے کا اظہار غیر اخلاقی زبان سے کیا۔جس میں انہوں نے پیپلز پارٹی کے چئیرمین بلاول بھٹو کو آڑے ہاتھو لیااور بلاول بھٹو کو بلو رانی کا نام دیا جبکہ ساتھ ہی ساتھ زرداری صاحب کو مخاطب کر کہ یہ کہا گیا کہ کچھ پیسوں سے بلو رانی کا علاج کروایا جائے۔مجھے ذاتی طور پر یہ الفاط شیخ صاحب کی منہ سے سن کر بہت افسوس ہوا۔کیونکہ میں ان الفاظ کو غیراخلاقی زبان کی انتہاہ سمجھتا ہوں اور کیا ان الفاظ کے مطلب سے آگے کسی کی ذات پر بات کرنے کی کوئی کسر نہیں رہ جاتی؟۔شیخ صاحب کو یقیناً یہ بات نہیں کرنی چائیے کیونکہ اب ان کی اپنی بھی ایک سیاسی پارٹی ہےجس کے وہ سربراہ ہیں اور اِس حیثیت سے ان پر ایک بھاری ذمہ داری ہے۔یقینی طور پر آپ کے بارے لوگ یہ کہتے ہیں کہ آپ دلچسپ باتیں کرتے ہیں لیکن اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ آپ اتنی غیر اخلاقی زبان استعمال کرنا شروع کر دیں۔

میری تو ذاتی رائے ہے کہ سیاستدان اِس قسم کی غیر سیاسی زبان استعمال کرنے سے پہلے سیاست کو سمجھ لیں کہ اصل سیاست کہ کیا تقاضے ہیں۔۔۔ شیخ صاحب آج عمران خان کے پہلو میں بلاول بھٹو پر تنقید کررہے ہیں تو کل یہی شیخ رشید نواز شریف کے پہلو میں کھڑے ہوکر بینظیر پر تنقید کیا کرتے تھے ۔۔۔۔ اور کل تک عمران خان جس شیخ رشید کو اپنا چپڑاسی بنانا پسند نہیں کرتے اُن کو اپنی سیاست میں فرنٹ لائن پر رکھے ہوئے ہیں۔ یہ معاملہ صرف عمران خان اور شیخ رشید تک محدود نہیں ہے بلکہ اِس ملک کے اکثر سیاسی رہنماوں کا حال کچھ یہی ہے ۔۔۔۔ ماضی میں ایم کیو ایم نے جس زرداری کو صدر بنانے کے لیے زمین آسمان ایک کرلیا تھا آج اُنہی کو بمبینو سینما میں ٹکٹ بیچنے والا کہہ رہے ہیں ۔۔۔

میرا تو ان سب سیاستدانوں سے ایک ہی سوال ہے کہ آخر آپ نوجوان نسل کو کیا پیغام دے رہے ہیں؟ جو اچھے گھر کے لوگ ہیں آپ اُن کو یہ بتانا چاہ رہے ہیں کہ یہ ایک گندا میدان ہے لہذا اِس میں آنے کی کوشش مت کرنا ورنہ آپ بھی گندے ہوجاو گے؟۔ آپ سب کو ایسی زبان،اور ایسے بیانات دینے کے بجائے عوام کی خاطر کام کرنے کی ضرورت ہے۔آپ کی ایسی تقریروں سے عوام کو کوئی خوشی نہیں ملتی اور نہ ہی یہ ایسی باتوں میں دلچسپی رکھتی ہے۔ ہاں اگر عوام کو دلچسپی ہے تو وہ اس چیز میں کہ آپ عوامی مسائل کو اپنی تقریروں میں بیان کریں اور پھر اُس کے لیے عملی طور پر جدوجہد کریں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں