پاکستان ایک نظر میں خونی لکیر توڑ دو آر پار جوڑ دو

لائن کی دونوں طرف لوگوں کی محبتیں تو اپنی جگہ برقرار رہیں مگر ملکی نفرتیں انتہا کو پہنچ گئیں۔


شہباز علی خان October 27, 2014
لائن کی دونوں طرف لوگوں کی محبتیں تو اپنی جگہ برقرار رہیں مگر ملکی نفرتیں انتہا کو پہنچ گئیں۔ فوٹو رائٹرز

یہ 11اگست 2008ء کی صبح ہے ۔ دو لاکھ سے زائد کشمیری لائن آف کنٹرول کی ہندوستانی سائیڈ پر جمع ہیں اور لائن آف کنٹرول پار کر کے مظفر آباد ، جو پاکستانی آزاد کشمیر کا دارالحکومت ہے ، آنا چاہتے ہیں۔ ''کشمیر بنے گا پاکستان''، '' نعرہ تکبیر اللہ اکبر ''، '' خونی لکیر توڑ دو آرپار جوڑ دو'' کے نعرے لگ رہے ہیں ، بے چین اور مشتعل ہجوم چند گھنٹوں کے بعد لائن آف کنٹرول پر لگی 12فٹ اونچی اور740کلو میٹر طویل دنیا کی جدید ترین جاسوسی آلات سے لیس خاردارباڑ، جس میں نہ صرف ہائی وولٹیج بجلی ہمہ وقت دوڑتی ہے بلکہ انسانی وجود اور معمولی سے معمولی حرکت کی اطلاع دینے والے حساس آلہ جات شامل ہیں، کو توڑ کر کشمیر کو ایک کرنا چاہتے ہیں۔

اس احتجاج کی تاریخی و علاقائی وجوہات کے علاوہ ایک اور وجہ انڈیا کی موجودہ حکمران جماعت بھارتی جنتہ پارٹی بھی بنی ، جس نے چند ہفتے قبل کشمیر کو بھارت سے آمدورفت کا واحدراستہ سری نگر جموں نیشنل ہائی وے نمبر 14 کو دھرنا دے کر بند کر دیا تھا۔ کئی ہفتے گزرنے کے بعد کشمیر میں خوراک و دوسری ضروریات زندگی کی اشیاء کی قلت پیدا ہو گئی تھی ۔ مظاہرین لائن آف کنٹرول کو پار کرنے کے لئے آگے بڑھے تو بھارتی فوج نے گولی چلا دی جس کے نتیجے میں 15 کشمیری شہید ہو گئے اور درجنوں زخمی۔ یہ تمام افراد ہندوستانی شہری تھے جن کے پاس انڈین سرکار کا شناختی کارڈ اور شہری ہونے کا ریکارڈ تھا۔ واقعہ میں کشمیری حریت رہنما شیخ عبدالعزیز بھی شہید کر دئیے گئے۔ محمد زبیر بھی ان درجنوں زخمیوں میں شامل تھا جس کے والد عبدالرحمان اپنے رہنماء شیخ عبدالعزیز کو بچاتے ہوئے جان سے گئے ۔

عبد الرحمان کا آدھاخاندان بھارتی جموں کشمیر سامبا سیکٹر کے ایک سرحدی گاؤں میں رہائش پزیر تھا۔ وہ لوگ قالینوں کا کاروبار کرتے تھے جبکہ اس کا بقیہ خاندان پاکستانی چک امرو سیکٹر میں درمیانی درجے کا زمیندارہ کرتے تھے۔1949ء میں عبدالرحمان کی بیوی اور ایک بیٹے نے پاکستانی سرزمین پر رہنے کو ترجیح دی جبکہ دوسرے بیٹے محمد زبیر نے بھارت میں واقع سامبا سیکٹر کو ترجیح دی۔ سال ہا سال تک اس بدقسمت لکیر کا نام سیز فائر لائن رہا اور پھر شملہ معاہدہ کے تحت 2 جولائی 1972ء کو سیز فائر لائن کا نام لائن آف کنٹرول میں تبدیل کر دیا گیا۔

پھر بھی کئی سالوں تک دونوں طرف کے کشمیری خاندانوں کا آنا جانا رہا۔ عبدالرحمان اور اس کے خاندان والے آسانی سے دوسری طرف آ تے جاتے رہتے مگر 1980 ء کی دہائی میں ایشیا ء کی نام نہاد " دیوار برلن " حقیقتا جدائی کی دیوار بننا شروع ہو گئی، فوجی گشت اور چوکیوں کی تعداد بڑھنے لگی، لائن کی دونوں طرف لوگوں کی محبتیں تو اپنی جگہ برقرار رہیں مگر ملکی نفرتیں انتہا کو پہنچی تو 1990ء میں باقاعدہ خار دار باڑ لگانے کا کام شروع ہو گیا، اور آخر کار 2004ء میں کشمیری ایک دوسرے سے مکمل طور پرجدا ہو گئے، اور عبدالرحمان کے بیٹے ایک دوسرے سے جدا ہوگئے۔کہا جاتا ہے کہ سرحدیں جدائی پیدا کرتی ہیں مگر یہ دنیا کی تاریخ میں پہلی جدائی تھی جس کی وجہ کوئی سرحد نہ تھی بلکہ ایک عارضی لائن تھی ۔

عبدا لرحمان کے خاندان کی بدقسمتی کا سفر یہیں ختم نہیں ہوا بلکہ 2014ء میں اس کا بیٹا ،بہو، اور دو پوتے پاکستانی ناروال کے سرحدی علاقے چک امرو میں بھارتی گولہ باری کا اس وقت نشانہ بننے جب وہ شام ڈھلے اپنے گھر میں روز مرہ کے کام کاج میں مصروف تھے۔ اس کا ایک مضبوط بازو بھارتی جارحیت کا شکار بن گیا، جبکہ دوسرا سرحد پار آج بھی اس آس میں جی رہا ہے کہ جلد ہی باڑ کی دوسری طرف چک امرو اپنی بھائی سے ایک نئے مضبوط رشتے کی شروعات کرے گا۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں