پروفیسر اﷲ بخش کمالی گہوارۂ علم و ادب
پروفیسر اﷲ بخش نے کبھی پرائیویٹ ٹیوشن کو کبھی فروغ نہیں دیا، جو پڑھایا کالج میں ہی عمدہ طریقے سے پڑھایا
LONDON:
پروفیسر اے بی کمالی برصغیر کے مشہور اور معروف ماہر تعلیم، محقق اور ریاضی دان تھے۔ آپ 1905ء میں یوپی میں پیدا ہوئے۔ 1923ء میں الہٰ آباد بورڈ سے میٹرک کیا اور تمام مسلمانوں میں پہلی پوزیشن حاصل کی۔ 1925ء میں علیگڑھ سے انٹر اور 1927ء میں بی ایس سی میں گولڈ میڈل حاصل کیا۔
1930ء میں ایم ایس سی ریاضی میں ڈاکٹر سر ضیاء الدین گولڈ میڈل حاصل کیا اور 1943ء میں جامعہ عثمانیہ سے بی ایڈ کا بہترین مقالہ سیٹ تھیوری (Set Theory) پر لکھا اور مہدی یار جنگ گولڈ میڈل حاصل کیا 1944ء میں جامعہ عثمانیہ سے ہی ایم ایڈ کی سند حاصل کی۔ آپ جامعہ علی گڑھ اور جامعہ مسلم عثمانیہ کے ایسے نامور فرزندان میں سے تھے جن پر مسلم یونیورسٹی علیگڑھ کے پہلے مسلم وائس چانسلر ڈاکٹر سر ضیاء الدین احمد اور صدر شعبہ ریاضی پروفیسر ڈاکٹر عبدالمجید قریشی کو ان پر فخر محسوس ہوا، اے بی کمالی نے اپنے دور ِطالب علمی میں کئی تمغے اور اسناد حاصل کیے۔
عملی زندگی میں آپ حیدرآباد دکن کے شعبہ تعلیمات سے وابستہ ہو گئے اور ورنگل کالج میں ریاضی کے استاد بنے۔ یہاں آپ نے کئی (لازمی اور اختیاری) ریاضی کی کتابیں تصنیف کیں جو سرکار عالیہ حیدرآباد دکن میں بہت عرصے تک رائج رہیں، تصنیف و تالیف کا یہ سلسلہ تا دم زیست جاری رہا۔ آپ کے زمانے میں مضمون ریاضی کی ایسی نایاب تحریریں خال خال ہی ملتی تھیں۔ قیام پاکستان کی کوششوں میں بھی آپ نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ آپ 1949ء میں اپنی زمینیں، جائیداد چھوڑ کر کراچی آ گئے اور یہاں کسی قسم کا کلیم بھی داخل نہیں کیا، یہی وجہ تھی کہ حیدرآباد کالونی میں واقع اپنے گھر کے رقبے کو بھی کم کر کے بہت سے مہاجرین کو آباد کرتے رہے، زائد از ضرورت کبھی کوئی چیز اپنے پاس نہ رکھی۔ پاکستان آ کر مستقبل کے معماروں کی کردار سازی شروع کی اور سفرِ آخرت پر جانے تک یہ سلسلہ جاری رکھا۔
آپ نے ڈی ایس سی کا پہلے سال کا امتحان اعلیٰ نمبروں سے مکمل کیا لیکن بعد کی تعلیم کے لیے بیرون ملک جانا نہیں چاہتے تھے اس لیے اس سلسلے کو ترک کردیا۔ گورنمنٹ آف حیدرآباد نے آپ کے بی ایڈ کے مقالے پر انعام کا اعلان کیا لیکن اس وقت آپ پاکستان آ چکے تھے، اس لیے آپ نے اس سلسلے میں کوئی کارروائی نہیں کی اور یہ اطلاع بہت بعد میں آپ کو ہمعصروں سے ملی۔
پاکستان (کراچی) آنے کے بعد آپ ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج سے وابستہ ہوئے، یہی نہیں بلکہ آپ نے آدمجی کالج، این ای ڈی انجینیئرنگ کالج (یونیورسٹی)، داؤد کالج آف انجینئرنگ اور متعدد کالجوں میں درس و تدریس کی اور بے انتہا لائق اور قابل فخر سپوت پاکستان کو عطا کیے۔ آپ نے ڈی جے سندھ گورنمنٹ سائنس کالج کی وائس پرنسپل شپ معہ واڈرن شپ کی پیشکش اپنی تحریری، تدریسی اور نجی مصروفیات کی بناء پر قبول نہیں کی۔
آپ نے کبھی پرائیویٹ ٹیوشن (جو کہ آج کل کا معمول بن گیا ہے) کو کبھی فروغ نہیں دیا، جو پڑھایا کالج میں ہی عمدہ طریقے سے پڑھایا۔ 1965ء میں سپیریئر گورنمنٹ سائنس کالج جو کہ حکومت وقت نے نیا قائم کیا تھا اور وہ چاہتے تھے کہ اس کا نظم ونسق چلانے کے لیے بے انتہا لائق اساتذہ رکھے جائیں، آپ کو بحیثیت صدر شعبہ ریاضی یہاں تعینات کیا گیا اور یہیں سے طویل تدریسی خدمات کے ساتھ آپ سبکدوش ہوئے۔ آپ کی علمی چاشنی ریٹائرمنٹ پر ختم نہیں ہوئی بلکہ سر آدمجی کی فرمائش پر ریٹائرمنٹ کے بعد آدمجی سائنس کالج میں بحیثیت وزیٹنگ پروفیسر تدریس کی۔
تعلیمی میدان میں ہی نہیں بلکہ آپ نے فلاحی کاموں میں بھی ہمیشہ بڑھ چڑھ کر حصہ لیا جس کی درخشاں مثال بہادر یار جنگ گورنمنٹ بوائز گرلز پرائمری اور سیکنڈری اسکول ہے۔ نومبر، دسمبر 1948 میں حیدرآباد دکن سے مہاجرین آنے لگے تو ان کی آباد کاری کے لیے ڈاکٹر یٰسین زبیری نے موجودہ حیدرآباد کالونی کی زمین کراچی ایڈمنسٹریشن، جس کے ایڈمنسٹریٹر اس وقت ہاشم رضا تھے، بطور مہاجر کیمپ الاٹ کروائی اور باقاعدہ پلاننگ کر کے پلاٹ کاٹ کر لوگوں کو آباد کرنے کا انتظام کیا، ایک پلاٹ چھ سو گز کا مدرسہ کے قیام کے لیے علیحدہ کیا، ڈاکٹر زبیری اور شاہ بلیغ الدین صاحب نے پروفیسر کمالی سے فرمائش کی کہ اس مدرسے کی انتظام سنبھال لیں۔ اس وقت محکمہ تعلیم کے سربراہ ڈاکٹر ہالیپوتہ تھے جنھوں نے جزوقتی طور پر کمالی صاحب کی خدمات مدرسے کے سپرد کر دیں۔
کمالی صاحب نے اپنے دوستوں (یعنی سینیئر اساتذہ) اور لائق شاگردوں کو یہاں تعلیم دینے کی دعوت دی، جس کی وجہ سے یہ مدرسہ چل پڑا اور 1950ء کے دوران جب ڈائریکٹر اسکولز دورے پر آئے تو انھو ں نے بغیر مزید ضروری لوازمات کے اس مدرسے کو دسویں تک آرٹس اور سائنس دونوں شعبوں کی تعلیم دینے کے لیے منظور کر لیا اور کہا کہ ''اتنے لائق اور قابل اساتذہ کی موجودگی میں ان کو اسکول کی ترقی کے لیے مزید کسی سند کی ضرورت نہیں۔'' اس کے علاوہ آپ نے بہت سے نوجوانوں کو روزگار دلوایا۔ گورنمنٹ کی طرف سے آپ کو ملک محروسہ سے آئے ہوئے نوجوانوں کی اسناد کی تصدیق کا کام سونپا گیا جسے آپ نے بڑے احسن طریقے سے نبھایا۔ آپ کسی کا کام کرنے سے کبھی نہیں کتراتے تھے بلکہ آگے بڑھ کر اس کے کام آتے تھے، انھی وجوہات کی بناء پر لوگ آپ کے گرویدہ تھے۔ آپ کی تحریروں کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی کیا گیا۔
آپ روحانی میدان میں بھی بڑا منفرد مقام رکھتے تھے اور کئی سلسلوں سے تادم مرگ وابستہ رہے۔ مختصر علالت کے بعد منگل 26 اکتوبر 1982ء بمطابق 8 محرم الحرام 1403 ھ کو آپ 77 برس کی عمر میں عشاء کی نماز کے وقت سجدے کی حالت میں دنیا سے رخصت ہو گئے۔
ہمیشہ کی طرح آج بھی ارباب اختیار کی لاپرواہی اور بے حسی کہ کمالی صاحب کی رحلت کو تقریباً 32 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود ان کی خدمات کو خراج عقیدت پیش کرنے کے لیے ان کی شخصیت کے شایانِ شان کوئی بڑا کام نہیں کیا گیا، انھوں نے اپنی زندگی میں بڑے سے بڑے تقریباً 14-15 تمغے حاصل کیے تو کسی قسم کا ایوارڈ بعد از مرگ ان کے لیے کوئی اہمیت کا حامل نہ ہو گا، سوائے اس کے کہ ان کی زندگی کے مشن یعنی ان کے کاموں کو آگے بڑھایا جائے۔
ان کے نام سے ملک کی بڑی بڑی جامعات میں ریاضی چیئرز قائم کی جائیں۔ کمالی صاحب ایک عہد ساز اور ہمہ جہت شخصیت تھے اور ان کا شمار ایسے اکابرین میں ہوتا ہے جو قوموں کی تاریخ مرتب کرتے ہیں، وہ اپنی ذات کے ہر ہر پہلو سے مجسم استغنیٰ تھے، ان کی ذات کے کئی روشن پہلو ہیں جس کی وجہ سے وہ ایک ادارے کی مانند ہیں، ان کی بے تحاشا خدمات ہیں، جس کا احاطہ اس مختصر مضمون میں مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن ہے، کیونکہ جس طرح دریا کو کوزے میں بند نہیں کیا جا سکتا اور سورج کو چراغ نہیں دکھایا جا سکتا، اسی طرح اس مختصر مضمون میں کمالی صاحب کی خدمات کو پورے طور پر بیان بھی نہیں کیا جا سکتا۔