انارکسزم کیا ہے
ریاست کی فطرت ہے کہ وہ قومی منتخب ادارہ ہو اور اپنے اختیار استعمال کرتی ہو۔
NAUDERO:
لینن اس خیال کا حامی تھا، یہ ایک ایسا خیال ہے جس سے غالباً کمیونسٹوں کی اکثریت اتفاق کرے گی کہ جب محنت کشوں کی آمریت اپنے مقاصد حاصل کرچکے گی تو ریاست کی مشینری کو تباہ کردیا جائے گا۔ ظاہری ریاست جو کارکنوں کی قوت پر قائم ہے، اپنی جگہ اس کے لیے خالی کردے گی، جسے 'سماج کی آزاد تنظیم' کہا جاتا ہے۔ یہی سماج کی آزاد تنظیم ہے جس کی وکالت انارکزم کرتا ہے۔ کرو پوتکن نے جو اس کا سب سے اہم ادبی مفکر ہے۔
اس کی وضاحت یوں کی ہے 'ایک ایسا اصول یا زندگی کا نظریہ اور شعار جس کے تحت بلا کسی حکومت کے سماج کا وجود مانا جاتا ہے'۔ کرو پوتکن ضرور اس بات پر زور دیتا ہے اور دعویٰ کرتا ہے کہ انارکسٹ سماج کا تصور ناقابل عمل خیالی سوچ سے بہت دور ہے اور یہ آج کے دور میں موجود اور ابھرتے رحجانات کا تجزیہ کرنے سے حاصل ہوتا ہے۔ یہ رحجان 'مقامیت' کے مترادف ہے۔
جو انارکزم کی ایک نمایاں خصوصیت ہے اور یہ صفت مرکزیت کے مزاج کے براہ راست مخالف ہے جو کہ مارکسی کمیونزم کی جان ہے۔ انارکسٹ دعوے دار ہیں کہ صرف انارکسٹ سماج میں افراد اپنی پوری صلاحیتوں کو نشوونما دے سکیں گے، اس لیے کہ وہ ہر قسم کے اقتدار اور بالادستی سے آزاد ہوگا۔ ان آزادی کو تین نکات میں بیان کیا جاسکتا ہے۔ 1۔ یہ پیداواری کارکن کو سرمایہ داری کے جوئے سے آزاد کرائے گا۔ 2۔ یہ ایک فرد کو شہری کی حیثیت میں ریاست کے جوئے سے آزاد کرائے گا۔ 3 ۔ یہ انسان کو مابعدالطبیعیاتی قوتوں سے آزاد کرائے گا جو بے دلیل مفروضوں پر قائم ہے۔
انارکزم اپنی حیثیت کو عالمی کمیونزم کا ہم خیال بیان کرتا ہے، جسے کرو پوتکن نے اس طرح بیان کیا ہے 'ہر چیز ہر ایک کی ملکیت ہے اور اگر ہر مرد اور عورت اشیائے ضرورت کی پیداوار میں اپنا حصہ دینے کو تیار ہے، تو اسے یہ بھی حق حاصل ہوگا کہ وہ ہر پیدا ہونے والی چیز میں اپنا حصہ لے، جو کسی نے بھی پیدا کی ہو۔' فوراً یہ سوال پیدا ہوتا ہے۔ 'کیا کسی قسم کی حکومت کی ضرورت نہیں ہے تاکہ ہر ایک کو منصفانہ حصہ ملے'۔ انارکسٹ زور دار نفی میں جواب دیتا ہے جو مارکسی کمیونسٹوں کے نظریات کے برعکس ہے۔ اس کی تردید میں یہ بھی شامل ہے کہ حکومتوں کا آج تک سب سے اہم وظیفہ یہ رہا ہے کہ ہر ایک کا حصہ نامنصفانہ رہے۔
آج کل جیسی ریاست ہے، اس کو مٹھی بھر لوگ بطور آلہ کار استعمال کرتے ہیں تاکہ اپنی غیر منصفانہ اجارہ داریوں کو تحفظ مہیا کیا جاسکے، جب کہ یہ تمام اشیا انصاف کی نظر سے سب کی ملکیت ہوتی ہیں۔ اس لیے ریاست کو اجارہ داریوں کے خاتمے کے لیے حرکت میں نہیں لایا جاسکتا، جس کی وہ خود چوکیدار ہے۔ اس سے یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ جب تک ریاست کی جگہ کوئی اور تنظیم نہ لے لے، سرمایہ داری اور نجی جائیداد کا خاتمہ بھی ممکن نہیں۔ مختصر یہ کہ نہ تو ریاست پر قبضہ کیا جاسکتا ہے، نہ ہی اسے سماج کے ایک نئے عہد کے آغاز کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے، جیسا کہ بعض سوشلسٹ تجویز کرتے ہیں۔ اسی وجہ سے انارکسٹ موجودہ ریاست کے فرائض میں کسی قسم کے اضافے کے مخالف ہیں، چاہے اس میں عوام کی اکثریت کا بظاہر بھلا ہو۔
ریاست کی فطرت ہے کہ وہ قومی منتخب ادارہ ہو اور اپنے اختیار استعمال کرتی ہو۔ چونکہ ریاست کسی پیش آنے والے مسئلے پر عوام کی رائے نہیں حاصل کرسکتی، اس لیے لازماً اگر اسے کھلے جبر کے الزام سے بچنا ہے تو اسے نمایندہ حکومت کے ذریعے کاروبار چلانا پڑے گا۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ کسی فرد کے پاس اتنی معلومات ہی نہیں ہوتیں، جتنی کسی معاملے کو چلانے کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔ ہر شعبے کے معاملات چلانے کے لیے وہی لوگ مفید اور کارآمد ہوتے ہیں جو متعلقہ شعبوں میں خود کارکن رہے ہوں۔ نمایندہ حکومت اس لیے ایسے افراد کی حکومت ہوتی ہے جن کی تمام معاملات میں علم کی پونجی بس اتنی ہوتی ہے۔
جس کی مدد سے وہ ہر کام محض بری طرح انجام دے سکتے ہیں۔ انارکزم اس لیے حیران کن حد تک توجہ دلاتا ہے اور اناڑیوں کی حکومت کے بجائے ماہرین کی رہنمائی کی وکالت کرتا ہے۔ جہاں تک نمایندہ نظام کا تعلق ہے، تب یہ کہا جاسکتا ہے کہ یا تو یہ غیر ضروری ہے یا پھر یہ نمایندگی نہیں کرتا۔ عمومی رائے کو صحیح نمایندگی کے ذریعے حاصل کرنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ متاثرین کا ایک اجلاس بلایا جائے اور عارضی نمایندے مقرر کیے جائیں، جو ایک مخصوص مسئلے پر مباحثے کے نتیجے میں قائم ہونے والی رائے کا اظہار کریں۔ متعلقہ مسئلے پر لوگوں کی رائے کا اعلان کریں اور متعلقہ لوگوں تک پہنچا دیں تو وہ خود کو نمایندہ سمجھنا ترک کردیں۔ کسی بھی صورت میں مندوبین کو یہ اختیار نہ ہوگا کہ وہ کوئی ایسا قانون بنائے جو اس واحد معاملے کے علاوہ ہو، جس کے لیے اسے مندوب چنا گیا ہے۔
اختیار کا دوسرے افراد پر استعمال ناگزیر طور پر بہترین طبیعتوں کو بھی بدعنوان بنا دیتا ہے۔ یہ ان کو خودغرض، متکبر، جابر، اپنے مفادات کے متوالے اور ان کے مفادات سے غافل بنا دیتا ہے، جنھوں نے اس بااختیار منصب پر فائز کیا ہو، مثال کے طور پر سیاستدان اپنی فطرت کی وجہ سے نہیں بلکہ اپنی حیثیت کی وجہ سے برا ہے۔ اس لیے نہیں کہ وہ ایک انسان ہے بلکہ اس لیے کہ وہ ایک سیاستدان ہے۔ کسی فرد یا افراد کے ادارے کو اس لیے حکومتی اختیارات نہ ملنے چاہئیں کہ وہ اپنے ہی لو گوں پر استعمال کرے، لیکن اقتدار کی محبت جسے حکومت پالتی پوستی ہے، اس کی پرورش کرتی ہے، اختیارات کے استعمال ہی سے ممکن ہے اور اختیارات کے استعمال کی بنیادی شرط افراد ہیں، جن پر اختیار کا استعمال کیا جاسکے۔ چونکہ حکومت کی سرشت میں قوت کا استعمال ہوتا ہے۔
جو فطری دوستوں کو جدا کرکے اور حریف قومیتوں میں تقسیم کرتا ہے۔ فطری بھائیوں کو مختلف دشمن طبقات میں تقسیم کرتا ہے، یوں انارکسٹ کے نقطہ نظر سے اندرونی فساد، بیرونی جنگیں 'حکومت' کے وجود سے ہیں۔ مسٹر ڈکنسن کی جدید سیمپوزیم میں انارکسٹ مقرر کے الفاظ ہیں، حکومت کے معنی ہیں جبر، بے گانگی، گمراہی اور علیحدگی جب کہ انارکی آزادی، اتحاد اور محبت ہے۔ حکومت کا دارومدار انانیت اور خوف پر ہے جب کہ انارکی برادری ہے۔ یہ اس لیے ہے کہ ہم خود کو قوموں میں تقسیم کرتے ہیں، پھر ہم اسلحہ بندی کا جبر جھیلتے ہیں، چونکہ ہم خود کو ایک فرد کی حیثیت سے تنہا کر لیتے ہیں، اس لیے ہم قوانین کا تحفظ چاہتے ہیں ۔