پاکستان ایک نظر میں پاکستان کو اب فیصلہ کرنا ہوگا

میرے خیال میں امریکہ کے مزاج کو درست کرنے کیلئے اور پاکستان کو اپنی بات منوانے کیلئے سلالہ جیسے اقدامات کرنے پڑیں گے۔


محمد نعیم October 31, 2014
پاکستان کیجانب سے بار بار واضح کرنے کے باوجود امریکا ڈرون سے باز نہیں آرہا جو کسی نہ کسی حد تک آپریشن ضرب عضب کو نقصان کا سبب بھی بن سکتا ہے۔ میرا تو خیال ہے کہ اگلے کسی بھی ڈرون حملے پر پاکستان کا سلالہ کی طرز پر جواب تو بنتا ہے۔ فوٹو: فائل

سمجھ دار لوگ کہتے ہیں کہ کبھی بچھو سے دوستی نہ رکھو۔ آپ اس کا جنتا خیال رکھو۔ اس کی خطرات میں حفاظت کرو، اسے دشمن سے بچانے کے لیے چاہے آپ اپنے آپ کو کتنے بھی جتن میں ڈالو، جب بھی یہ سنبھلے گا، اس کو موقع ملے گا، وہ ضرور آپ کو ڈسے گا۔ کیوں کہ ڈسنا بچھو کی فطرت ہے۔

میری ذاتی رائے ہے کہ بچھو جیسی فطرت پاکستان کے نام نہاد اتحادی امریکہ کی بھی ہے۔ 11/9کے بعد سے شروع ہونے والی دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ میں پاکستان کا کلیدی کردار ادا کرنے کے باوجود امریکہ کئی ایسے اقدامات کر چکا ہے جس کے باعث پاکستان داخلی و خارجی طور پر بے پناہ مسائل کا شکار ہے۔

پاکستان کے وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان کی جانب سے پاکستان اور افغانستان کے لئے امریکی نمائندہ خصوصی ڈینئل فیلڈمین سے ڈرون حملوں کی بندش کے مطالبے کو ابھی دو روز بھی نہیں گزر تھے کہ امریکہ نے جنوبی وزیرستان میں ایک اور حملہ کر دیا۔ حالانکہ پاکستان کے وزیرداخلہ نے امریکی نمائندہ خصوصی سے کی گئی ملاقات میں یہ بات واضح طور پر کہی تھی کہ پاکستان اور امریکا کے درمیان بہتر تعلقات کے لیے ڈرون حملوں کی بندش ضروری ہے۔

ایک ایسے وقت میں جب 15جون سے پاکستانی تاریخ کے ایک اہم عسکری آپریشن ضرب عضب اچھے نتائج کے ساتھ اختتام کے قریب ہے۔ امریکہ کی جانب سے ایسے نازک وقت میں ڈرون حملے پاکستان کے قیام امن کے لیے کی جانے والی جدوجہد کو ناقابل تلافی نقصان پہنچائیں گے۔ اہم آپریشن کے موقع پر امریکہ کی جانب سے ڈرون حملے کوئی اتفاقی بات نہیں۔ بلکہ ماضی میں بھی جب دہشت گردی کے خاتمے اور قیام امن کے لیے مذاکرات کی کامیابی سامنے آئی یا کوئی اہم پیش رفت ہوئی تو امریکہ نے ڈرون حملوں کے ذریعے سارے کیے کرائے پر پانی پھیر دیا۔

اب تو صورتحال یہ بن چکی ہے کہ پاک امریکہ تعلقات کی بہتری کی بات کرنے والوں کے لیے بھی اہم اسٹرٹیجک معاہدوں ،مذاکرات یا آپریشن کے وقت امریکہ کے ڈرون حملے سوالیہ نشان بن چکے ہیں۔ دونوں ممالک کے درمیان خلیج کو کم کرنے والے بھی اب یہ سوچنے پر مجبور ہو گئے ہیں کہ نائن الیون کے بعد افغان جنگ میں امریکہ کو ہرطرح کے عسکری و زمینی وسائل فراہم کرنے کے باوجود امریکہ کیسا اتحادی ہے جو قیام امن کی راہ میں روڑے اٹکا رہا ہے اورپاکستان کو معاشی و سماجی طور پر استحکام کی جانب گامزن ہونے سے روکنے کے لیے آئے روز نت نئے مسائل کھڑے کر رہا ہے؟۔ یقینی طور پر پاکستان کے تمام حلقوں میں اس بات پر یقین پختہ ہو چکا ہے کہ امریکہ ایک ناقابل اعتبار اتحادی ہے۔

ماضی میں بھی پاکستان امریکہ سے کئی بار یہ مطالبہ کر چکا ہے کہ ڈرون حملوں کو بند کیا جائے کیوں کہ اس کے باعث پاکستانی عوام میں امریکہ سے نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے جو انتہاء پسندی کو جنم دے رہا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے امریکہ اپنی خارجہ پالیسی میں طاقت اور دھمکی کے استعمال کو ضروری سمجھتا ہے اور ہر بار کی طرح اب بھی اس نے پاکستان کے مطالبے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے ایک بار پھر ڈرون حملے کر کے پاکستان پر یہ واضح کر دیا ہے کہ تمہاری اہمیت اور ضرورت اس وقت تک ہوتی ہے جب تک ہمار الو سیدھا نہیں ہو جاتا۔

ان ڈرون حملوں کے ساتھ عالمی میڈیا پر ایسی رپورٹس آنا شروع ہو جاتی ہیں جن سے عمومی طور یہ ظاہر کیا جاتا ہے کہ یہ سب کچھ پاکستان خود کر رہا ہے۔ ایسی رپورٹس کے منظر عام پر آنے کے بعد عالمی سطح پر پاکستان کے امیج پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ حالانکہ اگر زمینی حقائق کو دیکھا جائے تو دہشت گردی کا سب سے زیادہ شکار پاکستا ن خود رہا ہے اور اس کے خاتمے کے لیے جنتی جدوجہدپاکستان نے کی ہے شاید کسی بھی ملک نے نہ کی ہو۔ اس کے ردعمل میں پاکستان نے بہت زیادہ نقصانات بھی اٹھائے ہیں۔

امریکہ سمیت دیگر ممالک کے سربراہان اور فوجی افسران کئی بار یہ کہے چکے ہیں کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ لیکن یہ کہنا صرف زبانی کلامی ہی ہے۔ عملی طور پر امریکہ نے پاکستان کے اقدامات پر کبھی بھی اعتبار نہیں کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات بہتر ہونے کے بجائے کشیدہ ہی رہتے ہیں اور امریکہ پاکستان کی خود مختاری پر کوئی بھی وار خالی نہیں جانے دیتا۔

اس ضمن میں پاکستان کو بھی ٹھوس اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔ عالمی سطح پر پاکستان کی شناخت اور اس کی اہمیت کو واضح کرنے کے لیے جس انداز میں سفارتی اقدامات و تعلقات کی ضرورت ہے وہ عملی طور پر نہیں کیے جا رہے۔ حالیہ ڈرون حملے کے بعد بھی پاکستان نے حملے کی مذمت کا ایک روایتی سا بیان جاری کیا ہے اور پاکستانی ترجمان دفتر خارجہ تسنیم اسلم نے مرجھے ہوئے انداز میں کہا کہ ڈرون حملے غیر ضروری ہیں۔ حالانکہ اب کی بار پاکستان کو چاہیے تھا کہ وہ اس حملے کا جواب سلالہ حملوں کے ردعمل جیسا دیتا اور دنیا پر یہ واضح کر دیتے کہ بار بار ڈرون حملوں کی بندش کا مطالبہ کرنے کے باوجود امریکہ نے پاکستان کی خودمختاری کالحاظ کیے بغیر اسے خطرات سے دوچار کیا ہے۔ اب افغانستان سے انخلاء کے لیے امریکہ نہ پاکستان کی زمینی وفضائی حدوداستعمال کر سکتا ہے اور نہ کوئی سڑک یا بندگارہ ۔بلکہ امریکی انخلاء کے حوالے سے تعاون کے تمام سلسلے ختم کرنے کا اعلان کیا جاتا۔ میرے خیال میں امریکہ کے مزاج کو درست کرنے کے لیے اور پاکستان کو اپنی بات منوانے کے لیے ایسے ہی اقدامات کرنے پڑیں گے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں