بنگالی ہدایت کار کی کراچی میں پہلی اردو فلم
نظام الحق صاحب نے گیت کی سچویشن بتاتے ہوئے کہا کہ فلم کا ہیرو ایک انقلابی نوجوان ہے۔
فلم ساز و ہدایت کار نظام الحق مشرقی پاکستان ڈھاکا سے تعلق رکھتے تھے اور وہ کافی عرصے سے مغربی پاکستان میں سرکاری ملازم تھے، پھر وہ ملازمت سے ریٹائر ہوکر کراچی ہی کے علاقے پاکستان کوارٹرز میں رہائش پذیر تھے، نظام الحق صاحب کو ریٹائرمنٹ کے بعد ایک اچھی خاصی رقم ملی تھی، وہ جب ڈھاکا میں تھے اور آتش جب جوان تھا تو اسے فلمی دنیا سے بڑی دلچسپی تھی، وہ فلم نویس، شاعر اور موسیقار بننے کی آرزو رکھتے تھے مگر ان کی یہ آرزوئیں ڈھاکا میں کوئی رنگ نہیں لاسکیں تھیں، اب کراچی میں ڈھلتی عمر کے ساتھ ساتھ کچھ سرمایہ ہاتھ آیا تھا تو ان کے شوق کی چنگاری پھر بھڑکنے لگی تھی اور انھوں نے اب فلم ساز و ہدایت کار بن کر ایک فلم بنانے کا مکمل ارادہ کرلیا تھا۔ میری ان سے ایک ملاقات ریڈیو کی کینٹین میں ہوئی تھی پھر دوسری ملاقات موسیقار ضیا الدین کے ساتھ ان کے گھر پر ہوئی۔
انھوں نے اپنے آیندہ پروگرام کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ وہ اپنی فلم کی کہانی لکھ چکے ہیں اور کچھ گیت و مکالمے بھی تحریر کیے ہیں مگر انھوں نے اب فیصلہ کیا ہے کہ وہ اپنی ساری توجہ فلمسازی و ہدایت کاری پر دیں گے۔ انھیں ایک شاعر اور مکالمہ نگار کی ضرورت تھی، انھوں نے مجھ سے کہا کہ اب آپ نے کچھ گانے اور فلم کے مکالمے بھی تحریر کرنے ہیں۔ آپ کو اسکرپٹ لکھنے کے پیسے ملیں گے مگر ٹائٹل پر مصنف و ہدایت کار نام میرا جائے گا، مگر شاعر کا ٹائٹل آپ کا ہوگا۔ میری اکلوتی اور پہلی نوکری ختم ہوچکی تھی، میں نے فوراً ہاں کردی۔ انھوں نے مجھے کچھ رقم ایڈوانس کے طور پر دیتے ہوئے کہا آپ روزانہ اسکرپٹ لکھنے میرے گھر آیا کروگے اور آپ کو قسطوں میں پیسے ملتے رہیں گے۔ انھوں نے بتایا کہ جب میں نے فلم کی کہانی لکھی تھی، اسی وقت اس کا نام ''ہمدم'' فائنل کرلیا تھا، فلم کا نام یہی رہے گا۔
اب یہ حسن اتفاق ہے کہ اس فلم کے شاعر کا نام بھی ہمدم ہے۔ پھر وہ کہنے لگے آپ نے کافی تیزی سے کام کرنا ہے، میں نے فلم کی کاسٹ بھی مکمل کرلی ہے، فلم کی ہیروئن کراچی سے لی ہے اور ریڈیو کی مشہور صداکارہ و اداکارہ طلعت صدیقی کی چھوٹی بہن ریحانہ صدیقی ہے اور فلم کا ہیرو ڈھاکا فلم انڈسٹری کا مشہور اداکار خلیل ہے، بقیہ آرٹسٹ بھی کراچی سے ہی تعلق رکھتے ہیں۔ دو ماہ کے بعد خلیل ڈھاکا سے کراچی آئے گا، اس کا تمام کام شوٹ کرلیا جائے گا، بس اب آپ فلم کے افتتاحی گانے کی موسیقار کے ساتھ مل کر تیاری کریں۔ مجھے اس بات کی خوشی تھی کہ فلم کی ہیروئن ریحانہ صدیقی ہمارے ساتھ اسلامیہ کالج میں پڑھتی رہی ہے۔ اسی دوران موسیقار ضیاالدین صاحب بھی آگئے۔
نظام الحق بولے، ہمدم صاحب آپ ان کے ساتھ بیٹھ کر آج ہی فلم کا تھیم سانگ مکمل کرلیں اور اسی ہفتے یا پھر آیندہ ہفتہ فلم کا افتتاح ایسٹرن اسٹوڈیو میں گیت کی ریکارڈنگ سے کیا جائے گا۔ نظام الحق صاحب نے گیت کی سچویشن بتاتے ہوئے کہا کہ فلم کا ہیرو ایک انقلابی نوجوان ہے اور وہ لوگوں کو ایک پیغام دیتا ہے کہ اس دنیا کو امن کا گہوارہ بناکر آپس کی محبت کو بڑھاؤ اور دنیا میں خوشیاں پھیلاؤ۔ میں نے نظام صاحب سے کہا۔ گیت کی دھن پہلے بنے گی یا گیت پہلے لکھا جائے گا۔ وہ بولے مجھے ایک زبردست Meaning Full گیت چاہیے۔ یا پہلے لکھو یا دھن پر، یہ موسیقار سے طے کرلو۔ موسیقار ضیا الدین نے بھی کہا ہمدم، تم گیت کا مکھڑا سوچو میں بھی دھن کی تیاری کرتا ہوں ۔ ہم دونوں دو تین گھنٹے بیٹھے کام کرتے رہے ۔ اس دوران میں نے کئی مکھڑے لکھے اور جو مکھڑا مجھے سب سے اچھا لگا ۔ میں نے موسیقار اور ہدایت کار کو سنایا۔ بول تھے:
دنیا سے دور غم کی شام کریں گے
ٹوٹے دل جوڑیں ایسا کام کریں گے
دنیا سے دور غم کی شام کریں گے
موسیقار ضیا الدین نے ہارمونیم سنبھالا اور مکھڑے کی دھن بنانا شروع کی، اس دوران ہدایت کار نظام الحق بولے۔ مکھڑے کو اس طرح کرلو۔ دنیا سے دور غم کی شام کرو رے، ٹوٹے دلوں کو جوڑو، ایسا کام کرو رے۔
مکھڑے کی دھن بھی اچھی بن گئی۔ ہدایت کار کو پسند آئی، پھر وہ بولے مجھے اس گیت سے پہلے ایک دوہا بھی چاہیے۔ اس میں بھی کوئی پیغام ہونا چاہیے۔ میں نے کچھ دیر سوچا پھر ایک دوہا کاغذ پر لکھا، جسے ہدایت کار کو سنایا۔ دوہے کے بول تھے:
اس دنیا کے رہنے والو مل کے رہنا سیکھو
چین کبھی نہ پائے گا دل دے کے درد کسی کو
ہدایت کار کے منہ سے بے ساختہ نکلا ، بھالو ۔ موسیقار نے بھی کہا واہ! اور پھر اسی وقت گیت کا دوہا بھی فائنل ہوگیا ۔ میں گیت کے انترے لکھنے لگا ۔ کچھ دیر بعد ایک لانبے سے قد کا کھلی کھلی رنگت والا نوجوان، السلام علیکم کہتا ہوا کمرے میں داخل ہوا۔ موسیقار ضیا الدین نے میرا اس نوجوان سے تعارف کراتے ہوئے بتایا اس نوجوان کا نام محمد افراہیم ہے ۔ یہ ابھی حال ہی میں انڈیا سے آیا ہے ، یہ نوجوان انڈیا میں نامور گلوکار محمد رفیع کا شاگرد رہ چکا ہے اور رفیع صاحب ہی کی طرح اونچے سروں میں گاتا ہے۔ انڈیا ہی سے آئے ہوئے موسیقار ناشاد نے بھی اسے اپنی ایک فلم میں گوایا ہے۔
اب یہ ہمارا گیت بھی گائے گا ۔ ایم افراہیم بڑی محبت سے ملا، اور پھر ہم دونوں کی اسی دوران ایسی بے تکلفی ہوگئی جیسے ہم دونوں برسوں کے پرانے دوست ہوں ۔ محمد افراہیم نے دوران گفتگو بتایا کہ محمد رفیع نے باقاعدہ ایک تقریب کے دوران اسے اپنا شاگرد بنایا تھا اور اس کے ہاتھ پر شاگرد کا گنڈا بھی باندھا تھا۔ افراہیم نے ہاتھ پر بندھا ہوا وہ گنڈا دکھاتے ہوئے کہا، اس گنڈے کو میں اپنی جان سے بھی زیادہ عزیز رکھتا ہوں ۔ میں نے اپنے نیک جذبات کا اظہار کرتے ہوئے افراہیم سے کہا۔ یار! ہماری دعا ہے کہ جس طرح محمد رفیع نے ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں اپنا سکہ جمایا ہے اسی طرح تم بھی پاکستان میں اپنی آواز کے جھنڈے گاڑ دو ۔ افراہم نے یہ سن کر خالص دلی والے انداز میں کہا ۔ ہمدم میاں ! تم نے یہ کہہ کر میرا سینہ چوڑا کردیا ، اﷲ تمہیں بھی خوب عزت اور شہرت دے ۔ دو دن تک مذکورہ گیت کی ریہرسل کی گئی اور پھر اسی ہفتے ایسٹرن فلم اسٹوڈیو میں فلم ''ہمدم'' کا یہ گیت محمد افراہیم کی آواز میں ریکارڈ کیا گیا ۔
افراہم نے اپنی پاٹ دار آواز کے ساتھ پہلے گیت کا دوہا ریکارڈ کرایا اور اونچے ہی سروں میں بقیہ گیت بھی ریکارڈ کیا گیا۔ افراہیم کی آواز، سر اور لے، ہر چیز کی سب نے دل کھول کر تعریف کی ۔ محمد افراہیم کی آواز میں میرا لکھا ہوا یہ ایک زبردست انقلابی گیت تھا، اور اس گیت میں میرے آئیڈیل شاعر ساحر لدھیانوی کی جھلک ملتی تھی ۔ فلم کی ایک ماہ بعد باقاعدہ شوٹنگ شروع کردی گئی ۔ اداکار خلیل پورے ایک ماہ کراچی میں رہا اور فلم مکمل کروا کے واپس ڈھاکا چلا گیا ۔
فلم مکمل ہوگئی ۔ یہ ایک سلو ٹیمپو کی فلم اور آرٹ مووی زیادہ تھی، اسے کسی تقسیم کار نے نہیں خریدا ۔ مجبوراً فلم ساز و ہدایت کار نے خود اس فلم کو ریلیز کیا ۔ فلم کی کاسٹ بھی کمزور تھی ۔ فلم بری طرح فلاپ ہوگئی ۔ جیسا کہ فلمی دنیا کی ریت ہے ، فلاپ فلم کے فنکاروں کو کوئی نہیں پوچھتا ۔ نظام الحق جہاں سے چلے تھے وہیں واپس آگئے تھے اور مالی حالت بہت خراب ہوگئی تھی ۔ جب کہ فلم کی ہیروئن ریحانہ صدیقی بھی ناکامی کی دلدل میں ایسی ڈوبی کہ پھر وہ ابھر نہ سکی ۔