ہارن بجائیے خوب
پاکستان میں اکثرموٹر ڈرائیورگاڑی چلاتے ہوئےصرف ایکسلیریٹراورہارن سے کام لینے کو موٹر چلانےکی شرط اول وآخر سمجھتے ہیں۔
خواجہ صاحب ایک منجھی ہوئی کاروباری شخصیت ہیں جن کا دن دو بار چڑھتا ہے ایک صبح بوقت نماز فجر اور دوسری بار دس بجے جب وہ دوبارہ بستر چھوڑ کر تیار ہوتے اور ناشتہ کر کے کام پر روانہ ہوتے ہیں۔ ان کی رات بھی نصف شب کے بعد ہوتی ہے۔ گزشتہ نصف صدی سے ان کا یہی معمول رہا ہے لیکن گزشتہ ایک سال سے جب کہ پڑوس کی ایک کوٹھی میں ایک مہنگا ماڈرن انگلش میڈیم اسکول کھلا ہے ان کے معمولات زندگی خاصے ڈسٹرب ہو گئے ہیں۔
انھیں دوپہر کا کھانا بھی ایک گھنٹے کے لیے گھر آ کر کھانے کی عادت ہے۔ جب وہ نماز کے بعد صبح کچھ دیر کے لیے دوبارہ بستر پر جاتے ہیں تو موٹر کاروں کے ہارن ان کی نیند میں مخل ہونا شروع ہو جاتے ہیں اور پھر ہارن بجنے کا ایک لامتناہی سلسلہ ان کو دائیں سے بائیں اور بائیں سے دائیں کروٹ لینے میں مبتلا کر دیتا ہے۔ گاڑیاں آنے پر اور پھر طالب علموں کو ڈراپ کر کے واپس جاتے ہوئے ہارن بجانا ڈرائیونگ کا لازمی حصہ بن کر ڈیوٹی دیتی ہیں۔
انھوں نے ایک روز غصے میں گھر سے باہر نکل کر ڈرائیوروں کو سمجھانے کی کوشش بھی کی اور بتایا کہ گاڑی پٹرول سے چلتی ہے ہارن بجانے سے نہیں لیکن ان کی منطق کا کسی نے اثر نہ لیا اور جب خواجہ صاحب دوپہر کے وقت گھر پر لنچ کے لیے آتے ہیں تو ہارن بجانے کا مقابلہ عروج پر ہوتا ہے۔ اس طوفان بدتمیزی کی موجودگی نے انھیں لنچ باکس اپنے دفتر میں منگوانے پر مجبور کر دیا ہے کیونکہ کاروں کی بے ہنگم پارکنگ کی وجہ سے ان کی اپنی کار کا اپنے ہی گھر میں داخل ہو سکنا ناممکن ہو گیا ہوتا ہے۔
موٹر کار ایک آرام دہ سفید اور اب ناگزیر سواری ہونے کے علاوہ سبک رفتار اور آپ کی مرضی کے مطابق آمد و رفت کا ذریعہ ہے لیکن اس کا ہارن کار بنانے والوں نے اشد ضرورت کے وقت استعمال کرنے کے لیے بنایا تھا جس کا جابجا اور ضرورت کے بغیر متواتر اور شدت و تواتر سے استعمال NUISANCE کا درجہ اختیار کر کے وبال جان بن گیا ہے اور استعمال کرنے والے کو معلوم ہی نہیں کہ شور یعنی NOISE POLLUTION سے ایک بیماری جسے بہرہ پن کہا جاتا ہے پیدا ہوتی ہے۔ اکثر ڈرائیور جو ہارن کا بے تحاشہ استعمال کرتے ہیں ڈاکٹروں کے مطابق بیس تیس فیصد تک بہرے پن کا شکار ہو چکے ہوتے ہیں اور دوسرے لوگ جن تک ہارن کی متواتر آواز پہنچتی ہے اس شور سے کسی حد تک متاثر ہونے سے بچ نہیں پاتے۔
یاد آیا کہ ہر فوجی حکومت اقتدار میں آتے ہی مارکیٹوں کی نالیوں کے دونوں طرف چونے کی لکیریں ضرور لگواتی تھی اور گوشت کی دکانوں پر لوہے کی جالیاں لگوانا بھی نہ بھولتی تا کہ مکھیوں کے جراثیم گوشت کو آلودہ نہ کریں لیکن ساتھ ہی کاروں کی ہیڈلائٹس کا نصف حصہ سیہ کاغذ یا پینٹ سے بلائنڈ کروانے کی ڈیوٹی ضرور دیتیں تا کہ فل لائٹ سے سامنے سے آنے والی کار کے ڈرائیور کی آنکھیں چندھیانے سے محفوظ رہیں لیکن آج کل شہر کی گلیوں میں بھی لوگ فل لائٹس جلاتے ہیں جو سامنے سے آنے والی کار کے ڈرائیور کی آنکھوں میں پڑ کر ایکسی ڈنٹ کا باعث ہو سکی ہیں۔ ہمارے کار مالکان یا ڈرائیوروں کو شاید یہ معلوم ہی نہیں کہ فل لائٹس بڑی سڑکوں اور شاہراہوں پر دور تک دیکھنے کے لیے ہوتی ہیں نہ کہ گلیوں اور مارکیٹوں کے لیے۔
بعض لوگ شوق کی خاطر مختلف آوازوں والے اضافی ہارن اپنی گاڑیوں میں لگواتے ہیں اس قسم کا شوق ویگنوں اور بسوں کے ڈرائیوروں کو زیادہ ہوتا ہے اور اس کا ایک مقصد مسافروں کو اپنی گاڑی کی طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے۔ اسکول سے بچوں کو گھر واپس لیجانے والی گاڑیوں میں مخصوص آواز والے ہارن کا مقصد اپنے مسافر اسٹوڈنٹس کو اپنی لوکیشن بتانے کے لیے لگوایا جاتا ہے۔
جب بس اور ویگن کے ڈرائیور مسافر اٹھانے کے لیے آپس میں ریس لگاتے ہیں تو تواتر سے اونچی آواز والا ہارن ان کے لیے زیادہ مسافر کھینچ لانے کا سبب بنتا ہے یہ عموماً چنگاڑتا ہوا ہارن ہوتا ہے۔ بعض ڈرائیوروں کے غیر ضروری اور متواتر ہارن بجائے چلے جانے کی وجہ سے جہاں ماحول میں ناپسندیدہ شور بڑھتا ہے۔ وہیں اس کی وجہ سے دوسروں کی مصروفیت میں خلل اور تکلیف کا باعث بھی بنتا ہے۔ عبادت میں مصروف پڑھائی میں مگن اور بیماروں کے لیے گاڑیوں کا بے ہنگم ہارن شور ان کے لیے ڈسٹربنس پیدا کرتا ہے۔
جہاں ایک طرف ہارن کا شور ناپسندیدہ اور غیر ضروری ہے وہیں اچانک آگے چلتی ہوئی موٹر کا بغیر انڈیکیٹر دیے مڑ جانا ایکسی ڈنٹ کا باعث ہو سکتا ہے۔ مشاہدہ بتاتا ہے کہ موٹر ڈرائیور انڈیکیٹر کی اہمیت سے ناواقف ہیں یا تساہل سے کام لینے کی وجہ سے دوسروں کے لیے حادثے کے امکانات سبب بن جاتے ہیں اور لمحوں کی غفلت مہینوں کی مصیبت بن سکتی ہے۔
پاکستان میں اکثر موٹر ڈرائیور گاڑی چلاتے ہوئے صرف ایکسلیریٹر اور ہارن سے کام لینے کو موٹر چلانے کی شرط اول و آخر سمجھتے ہیں۔ اس سلسلے میں میرے رابطے میں رہنے والے دو اشخاص کا ذکر کافی ہو گا۔ ان میں ایک میرا سابق سرکاری ڈرائیور حبیب اور دوسرا برطانیہ کا رہائشی مصطفیٰ ہے۔ جب بھی میں ان کی موٹر ڈرائیونگ کے دوران ان کے ساتھ بیٹھا ان دونوں کے ہاتھ مسلسل ہارن دباتے پائے گویا کہ ڈرائیونگ پٹرول اور ایکسلریٹر کی مرہون منت نہیں ہارن بجانے سے چلتی ہے۔
یہ دونوں گاڑی چلاتے وقت مسلسل ہارن بجاتے ہیں۔ میں نے مصطفیٰ سے پوچھا برطانیہ میں رہتے ہو بتاؤ اس سال وہاں کار چلانے کے دوران کتنی بار ہارن بجایا۔ بولا وہاں پر کبھی بھی ہارن نہیں بجایا لیکن پاکستان میں کار چلاتے ہوئے مستقل خوفزدہ رہتا ہوں کہ دائیں بائیں اور پیچھے والا ابھی مجھے ٹکر مار دے گا۔ اس لیے خوف زدگی میں ہارن بجاتا ہوں۔ سرکاری ڈرائیور کا بھی یہی جواب تھا۔ سوچنے کا مقام ہے کہ کیا خرابی ہم میں ہے یا ہر دوسرے میں جو سڑک پر گاڑی لے کر نکلا ہوا ہے جب کہ یورپ امریکا برطانیہ میں تو لوگ اشد ضرورت کے وقت یا دوسرے کی غلطی پر ایک بار ہارن بجھاتے ہیں۔