خون شہادت فنا نہیں
میدان کربلا محض ایک خونیں معرکہ ہی نہیں بلکہ اپنے دامن میں ہم سب کے لیے ایک سبق لیے ہوئے ہے۔
KARACHI:
مولانا ابوالکلام آزاد نے فرمایا ''دنیا میں ہر چیز مر جاتی ہے کہ فانی ہے مگر خون شہادت کے ان قطروں کے لیے جو اپنے اندر حیات الٰہیہ کی روح رکھتے ہیں، کبھی فنا نہیں''۔ میدان کربلا وہ داستان غم ہے جس پر ساری دنیا تاقیامت اشک فشاں رہے گی، حضرت امام حسینؓ اور کربلا کے 72 جانثاروں کے حمایت حق، عزم و استقلال اور صبر و ثبات پر ڈٹے رہنے کا سبق تاقیامت سمجھنے والوںکو درس دیتا رہے گا کہ میدان کربلا محض ایک خونیں معرکہ ہی نہیں بلکہ اپنے دامن میں ہم سب کے لیے ایک سبق لیے ہوئے ہے کہ کس طرح حضرت امام عالی مقاؑم اور ان کے ساتھیوں نے امر بالمعر وف و نہی عن المنکر کے لیے جام شہادت نوش فرمایا۔ ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں آپؓ کی داستان شجاعت، آپؓ کی طرز زندگی کو یاد کرکے تمام مسلمان درس نصیحت لیتے ہیں۔
دنیا کی تاریخ میں دو عظیم انسانوں کے خطبے ایسے ہیں جو ہمارے لیے مشعل راہ تو ہیں لیکن انھیں جب بھی سنیں تو دل پر ایک پرسوز گداز کیفیت طاری ہوجاتی ہے، جس کے ہر لفظ سے حکمت کے موتی برستے ہیں، پہلا خطبہ ہمارے پیارے نبیﷺ کا حجتہ الوداع کا خطبہ ہے جو پوری دنیا کے انسانوں کے لیے زندگی گزارنے کا بہترین منشور ہے، جبکہ دوسرا حضرت امام حسینؓ کا وہ خطبہ جو آپؓ نے دشمن کے قریب آنے پر قرآن پاک کو سامنے رکھ کر دیا۔
ایک ایسا خطبہ جسے سننے والے آج بھی سنیں تو بے چین و بے قرار ہوجائیں۔ ان کے آخری جملوں پر نظر ڈالیے۔ آپؓ فرماتے ہیں ''واﷲ اس وقت روئے زمین پر بجز میرے، کسی نبی ﷺ کی بیٹی کا لڑکا موجود نہیں، میں تمھارے نبی ﷺ کا بلاواسطہ نواسہ ہوں، مجھے کس لیے ہلاک کرنا چاہتے ہو، کیا میں نے کسی کی جان لی ہے؟ کسی کا خون بہایا ہے؟ کسی کا مال چھینا ہے؟ کہو کیا با ت ہے، آخر میرا قصور کیا ہے؟'' کیا یہ ایسے الفاظ نہیں کہ شقی القلب کا دل بھی دہل جائے، لیکن ان ظالموں کو رحم نہ آیا، انھوں نے اہل بیت پر وہ مظالم ڈھائے جس سے رہتی دنیا تک انسانیت کا سر شرم سے جھک گیا، یزید کا نام قہر و بربریت اور لعنت و ملامت کی علامت بن گیا۔
چاروں خلفائے راشدین کے بعد امیر معاویہ تخت نشین ہوئے تو انھوں نے اپنے بعد نااہل بیٹے یزید کو اپنا جانشین مقرر کردیا۔ یزید کو اپنے اقتدار کے لیے نواسہ رسول ﷺ سے سب سے زیادہ خطرہ تھا کہ وہ ان کے حق میں بیعت نہیں کریں گے۔ اس بات کا بھی اسے علم تھا کہ اس خلافت کے صحیح جانشین حضرت امام حسینؓ ہیں، اس نے آپؓ سے بیعت کا مطالبہ کیا۔ حضرت امام حسینؓ یزید کی نااہلی اور اخلاقی پستی سے واقف تھے، اس لیے آپؓ نے اس بیعت سے انکار کیا اور کوشش کی کہ جلد از جلد اس کی پہنچ سے دور نکل جائیں۔ آپؓ نہیں چاہتے تھے کہ آپؓ کی حمایت کرنے والے دوستوں کو کسی قسم کی تکلیف ہو اور خون ریزی میں بے گناہ لوگ مارے جائیں۔
حضرت امام حسینؓ اپنے گھر والوں اور ساتھیوں کے ہمراہ کوفہ روانہ ہوئے، 72 افراد کے اس پرامن قافلے نے جب کربلا کی سرزمین پر قدم رکھا تو یزید نے اپنی چار ہزار فوجوں کو آپؓ کا راستہ روکنے اور شہید کرنے کے لیے بھیجا۔ آپؓ نے ان کو تین شرائط پیش کیں، جن کے مطابق آپؓ نے یزید سے اپنا معاملہ خود طے کرنے، واپس جانے اور کسی مسلمان ملک کی سرحد پر جانے کی پیش کش شامل تھی، مگر ابن زیاد نے آپؓ کو یزید کے ہاتھوں بیعت کرنے یا پھر جنگ کے لیے تیار ہونے کی شرط رکھی۔ آپؓ کسی ایسے نااہل کو مسلمانوں کا امیر تسلیم کرنے پر تیار نہ تھے، آپؓ نے دوسری شرط کو تسلیم کیا۔
المختصر دسویں محرم کو بعد نماز فجر عمر بن سعد اپنی چار ہزار فوجیں لے کر نکلا، امام عالی مقام نے بھی اپنے 72 ساتھیوں کی مختصر فوج کو صف آرا کیا، پہلا تیر لشکر امام حسینؓ پر عمر بن سعد نے چلایا پھر ایک کے بعد ایک جانثاران امام حسینؓ شہید ہوتے گئے، لیکن شہید ہونے سے پہلے دشمن کے کئی سپاہی داخل جہنم کردیئے۔ جب عمر بن سعد نے جنگ کا یہ نقشہ دیکھا کہ اس طرح تو میرے سیکڑوں سپاہی مارے جائیں گے تو اس نے ایک ساتھ حملے کا حکم دے دیا۔ خاندان اہل بیت نے انتہائی بہادری سے شہادت کو قبول کیا، یہاں تک کے آخری اہل بیت حضرت امام حسینؓ نے بھی جام شہادت نوش فرمایا۔ عمر بن سعد نے حکم دیا کہ امام حسینؓ کی نعش مبارک کو گھوڑے کی ٹاپوں سے روند دیا جائے۔
دس سپاہیوں نے گھوڑے دوڑا کر آپؓ کی لاش مبارک کو روند ڈالا۔ دوسرے دن سعد بن عمر نے میدان جنگ سے کوچ کیا تو اہل بیت کی خواتین اور بچوں کو اسیر بنا کر کوفہ جانب روانہ ہوا، شہداء کے سر کاٹ لیے گئے۔ امام حسینؓ اور آپ کے خاندان نے اپنی جانیں قربان کردیں لیکن ظالم و جابر حکومت کی اطاعت و وفاداری کسی طور قبول نہیں کی۔ نواسہ رسول ﷺ ہونے کی بنا پر یہ آپؓ کی تربیت کا حصہ تھی کہ قانون شریعت کی بقا اور استحکام کے لیے جان و مال کی قربانی کوئی معنی نہیں رکھتی، اگر اسلامی مملکت قرآن کے احکامات کے مطابق نہ ہو تو اس کی اطاعت ہرگز تسلیم نہ کی جائے، خواہ حکومت وقت کتنی ہی قوت و شوکت سے مرعوب کرنا چاہے، اس کی طاقت سے کبھی نہیں ڈرنا چاہیے۔ واقعہ کربلا یزید کے دامن حکومت پر وہ بدنما داغ ہے جو قیامت تک کسی کے مٹائے نہیں مٹ سکتا۔
آپؓ کی شہادت اور اپنے موقف پر قائم رہنا ہم آج کے مسلمانوں کو کئی درس دیتا ہے کہ کس طرح آپؓ نے شہادت قبول کرلی مگر دعوت حق و حریت کی راہ نہ چھوڑی۔ آپؓ جانتے تھے فتح ہمیشہ حق کی ہوتی ہے، باطل کو بظاہر تھوڑی دیر کے لیے فروغ حاصل ہو بھی جائے پھر بھی سچ جاننے و سمجھنے والے کی نگاہ میں حق کو فتح حاصل ہوتی ہے۔ دنیا نے دیکھا کہ فتح یزید کی ہوئی یا امام عالی مقام کی ہوئی۔ حضرت امام حسینؓ اور ان کے ساتھیوں کو ایسی فتح نصیب ہوئی کہ مسلم و غیر مسلم سب کے لیے حضرت امام حسینؓ حق و شجاعت کی مثال بن گئے۔ ہر سال محرم الحرام کے مہینے میں آپ کی داستان شجاعت، آپؓ کے اسوۂ حسنہ کو یاد کرکے تمام مسلمان درس نصیحت لیتے ہیں۔ شہیدان کربلاؓ نے حق و صداقت کی راہ میں جس عزم و ثبات کا ثبوت دیا وہ دنیا میں اپنی مثال آپ ہے۔ سچ ہے کہ اہل بیت کے خون شہادت کے قطروں کو تاقیامت فنا نہیں۔