اردو مرثیے کے میر و مرزا

انیس کے حالات زندگی ان کی شخصیت اورفن پر بھی سیر حاصل تبرہ کیا ہے۔ توپورے انیس سے ایک اچھاخاصا تعارف یہاں نظر آتا ہے۔


Intezar Hussain November 02, 2014
[email protected]

میر انیس و مرزا دبیر اردو مرثیے کی آبرو ہیں۔ ویسے تو اردو میں مطبوعہ اور غیر مطبوعہ مرثیوں کا اتنا بڑا ذخیرہ ہے کہ غزل کو چھوڑ کر شاید ہی کوئی دوسری صنف اتنے بڑے ذخیرہ سے مالا مال ہو مگر محرم کے موقعہ پر عزاداروں کو اولاً انیس و دبیر ہی یاد آتے ہیں۔ سو اس برس بھی ہمیں جو محرمی مطبوعات موصول ہوئی ہیں ان میں دو مطبوعات ان مرثیہ نگاروں کے حوالے سے نمایاں نظر آ رہی ہیں۔ مرتب ہیں مرثیہ کے جانے مانے محقق سید تقی عابدی اور ناشر سنگ میل۔ کتابیں یہ ہیں:

1- دیوان رباعیات انیسؔ

2- مطالعہ دبیرؔ کی روایت

سید تقی عابدی نے اصل میں انھیں دو مرثیہ نگاروں کے واسطے سے تحقیق و تنقید کے میدان میں قدم رکھا تھا۔ خیر اب تو انھوں نے اپنے دائرے کو وسیع کر لیا ہے۔ غالب اور فیض بھی اب ان کے دائرہ تحقیق میں شامل ہیں۔ لیکن اولاً انھوں نے انھیں دو مرثیہ نگاروں پر زور تحقیق صرف کیا تھا۔ ان کی کوشش تھی کہ ان کے سارے کام کو تلاش کر کے تحقیق و تفتیش کے بعد یکجا کیا جائے۔ دبیر کے سلسلہ میں شاید انھیں زیادہ تردد کرنا پڑا۔ اس لیے کہ دبیر کافی عرصہ سے ناشروں کی عدم توجہی کا شکار تھے۔ سو انھوں نے سب سے پہلے دبیر ہی پر توجہ صرف کی۔ ان کے مرثیوں کے علاوہ ان کی نظم و نثر کی باقی تحریروں کو بھی انھوں نے ڈھونڈ کر نکالا اور چھان پھٹک کے بعد مرتب کر کے شایع کیا۔

ابھی جو پچھلے ایک ڈیڑھ سال میں دبیر کے جس کام کو انھوں نے تلاش و تحقیق کے بعد پیش کیا ہے وہ ان کی رباعیات ہیں اور انیس اور دبیر دونوں کا معاملہ رباعی کے سلسلہ میں یہ رہا ہے کہ ان دونوں کو مرثیے کے سوا سلام اور رباعی سے شغف رہا ہے۔ رباعیات انھوں نے زیادہ لکھیں۔ مگر کبھی یہ تردد نہیں کیا کہ رباعیات کو الگ مجموعہ کی صورت میں پیش کیا جائے۔ بس ان کے مرثیوں کی جلدوں ہی میں ہر مرثیہ کے بعد دو ڈھائی رباعیات ٹنکی نظر آتی تھیں۔ سو اس طرح ان کی رباعیات جا بجا بکھری پڑی تھیں۔ عابدی صاحب نے ان رباعیات کو ڈھونڈنا شروع کیا۔ کہاں کہاں سے انھیں کھود کر برآمد کیا اور مرتب کر کے ایک تفصیلی مقدمہ کے ساتھ انھیں شایع کیا۔ کلام دبیر کو جو سلسلہ وار جلدوں میں پیش کر رہے تھے ان میں ساتویں جلد رباعیات پر مشتمل ہے۔ بڑے سائز پر چھپی ہوئی یہ جلد 612 صفحوں میں پھیلی ہوئی ہے۔

زیر نظر کتاب مطالعہ دبیر کی روایت' دبیر کے کلام کا مجموعی انتخاب ہے جس میں مرثیے' سلام اور رباعیات شامل ہیں۔ مرثیے اور سلام تعداد میں پندرہ پندرہ اور رباعیات تعداد میں تیس ہیں۔ ان کے ساتھ مرتب کا دیباچہ۔ اس طرح یہ مجموعہ 331 صفحات پر مشتمل ہے۔

انیس کے کلام کو بھی وہ کلیات انیس کے عنوان کے تحت جلدوں کے ایک سلسلہ میں پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ 'دیوان رباعیات انیس' اس سلسلہ کی پہلی جلد ہے۔ یہ جلد ضخیم ہے۔ 504 صفحوں پر پھیلی ہوئی ہے۔ مجموعہ میں 577 رباعیات ہیں۔ شروع کے 213 صفحات میں تفصیل سے رباعی کی صنف کے بارے میں لکھا ہے۔ پھر انیس کی رباعیات کا ایک تنقیدی جائزہ پیش کیا ہے۔

جائزے کے ساتھ انیس کے حالات زندگی' ان کی شخصیت اور فن پر بھی سیر حاصل تبرہ کیا ہے۔ تو پورے انیس سے ایک اچھا خاصا تعارف یہاں نظر آتا ہے۔ اصل میں عابدی صاحب تحقیق کے مرد میدان ہیں۔ کہاں کہاں جا کر کھدائی کرتے ہیں اور گمشدہ تحریروں کو برآمد کرتے ہیں۔ پھر انھیں بہت سلیقہ سے ترتیب دے کر پیش کرتے ہیں۔

جو رباعیات پیش کی ہیں ان کی بھی خانہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ خانہ بندی کچھ اس طرح ہے۔ حمدیہ رباعیات' نعتیہ رباعیات' منقبتی رباعیات' اخلاقی رباعیات' ذاتی رباعیات' سماجی رباعیات' اعتقادی رباعیات' مرثائی رباعیات۔ کتنی رباعیات وہ ہیں جن میں جہان فانی' زندگی کی ناپائیداری' موت۔ قبر' لحد' کا تکرار کے ساتھ ذکر ہے۔ یہ چند رباعیات' مشتبے نمونہ از خروارے؎

دنیا بھی عجب سرائے فانی دیکھی

ہر چیز یہاں کی آنی جانی دیکھی

جو آ کے نہ جائے وہ بڑھاپا دیکھا

جو جا کے نہ آئے وہ جوانی دیکھی

...............

محبوب کو ہم کنار بھی دیکھ لیا

غربت دیکھی' فشار بھی دیکھ لیا

بے مہریٰ آسماں کے شاکی تھے بہت

صد شکر زمیں کا پیار بھی دیکھ لیا

...............

دنیا جسے کہتے ہیں بلا خانہ ہے

پامال ہے جو عاقل و فرزانہ ہے

مابین زمین و آسماں یوں ہیں ہم

جیسے دو آسیا میں اک دانہ ہے

...............

افسوس زمانے کا عجب طور ہوا

کیوں چرخ کہن' نیا یہ کیا طور ہوا

گردش کب تک' نکلی چلو جلد انیس

اب یاں کی زمیں اور فلک اور ہوا

...............

دولت کا ہمیں خیال آتا ہی نہیں

وہ نشۂ فقر ہے کہ جاتا ہی نہیں

لبریز ہیں یہ ساغر استغنا سے

آنکھوں میں کوئی غنی سماتا ہی نہیں

...............

طفلی دیکھی' شباب دیکھا ہم نے

ہستی کو حباب آب دیکھا ہم نے

جب آنکھ ہوئی بند تو عقدہ یہ کھلا

جو کچھ دیکھا سو خواب دیکھا ہم نے

رباعی کو یوں سمجھو کہ دریا کو کوزے میں بند کرنے کا فن ہے۔ اس بات کا اطلاق سب سے بڑھ کر انیس کی رباعیات پر ہوتا ہے۔

ابتدا غزل گوئی سے کی تھی۔ باپ نے کہا کہ بیٹا غزل کو سلام کرو۔ مرثیہ کہو۔ سو غزل کو سلام کیا۔ پھر مرثیے ہی کے ہو رہے۔ البتہ سلام ایسے کہے کہ بیچ بیچ میں غزل جھانکتی نظر آتی ہے۔ البتہ غزلوں میں بھی عجب' عجب شعر آیا ہے۔ یہ شعر بھی اسی ابتدائی کلام سے یاد گا ہے ؎

انیس دم کا بھروسہ نہیں' ٹھہر جائو

چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں