پاکستان کی حمایت کی قیمت
بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کیپ دلانے کا کریڈٹ بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دیا جاتا ہے۔
امیر جماعت اسلامی مطیع الرحمن نظامی کو 1971 میں پاکستان کے خلاف بنگلہ دیش کی آزادی کی تحریک میں جنگی جرائم میں ملوث ہونے کے الزام میں جنگی جرائم کے ٹریبونل نے سزائے موت سنا دی ہے۔ 71 سالہ امیر جماعت پر نسل کشی، قتل و تشدد اور ریپ کے 16 مقدمات قائم کیے گئے تھے، ان پر الزام تھا کہ 45 سال قبل انھوں نے البدر نامی ملیشیا کے کمانڈر کی حیثیت سے آزادی پسند بنگالی کارکنوں کی نشاندہی کرنے اور انھیں ہلاک کرنے میں فوج کا ساتھ دیا تھا۔
فیصلے کے اعلان کے وقت عدالت کھچا کھچ بھری ہوئی تھی، ڈھاکا میں سخت حفاظتی انتظامات کیے گئے تھے۔ فیصلے کے بعد پورے ملک میں پرتشدد ہنگامے پھوٹ پڑے ہیں، تین روزہ ملک گیر ہڑتال کے دوران شہروں اور قصبوں میں مظاہروں و فسادات کا سلسلہ جاری ہے، پولیس نے مظاہرین پر ربڑ کی گولیوں اور آنسو گیس کا استعمال کرکے سیکڑوں کارکنوں کو گرفتار کرلیا ہے، اسکول، کالجز اور کاروباری مراکز بند ہیں۔ حسینہ واجد حکومت نے بنگلہ دیش میں جماعت اسلامی کے متعدد رہنماؤں کو سزائے موت، عمر قید اور قید بامشقت کی سزائیں دلوائی ہیں۔
اس سال کے اوائل میں یک جماعتی پارلیمنٹ سے خطاب کرتے ہوئے حسینہ واجد نے واشگاف الفاظ میں کہا تھا کہ 1971 میں آزادی کی تحریک کے دوران عوام سے زیادتی کرنے والے 200 اعلیٰ فوجی افسران پر بھی انٹرنیشنل کریمنل ٹریبونل میں مقدمات دائر کیے جائیں گے۔ حالانکہ 1972 میں پاکستانی فوجیوں کی واپسی اور بنگلہ دیش کو تسلیم کیے جانے کے موقع پر معاہدہ ہوا تھا کہ بنگلہ دیشی حکومت کسی شہری کے خلاف متحدہ پاکستان کی تقسیم کی مخالفت کرنے کی پاداش میں جنگی جرائم کے مقدمات نہیں چلائے گی۔ لیکن تقریباً نصف صدی گزرنے کے بعد اس معاہدے کی خلاف ورزی کی جا رہی ہے۔
اس سے قبل ملاعبدالقادر کو بھی سزائے موت دی گئی اور پروفیسر اعظم کو بھی پہلے موت کی سزا سنائی گئی تھی پھر اس نوے سالہ شخص کی سزا کو نوے سال کی قید میں تبدیل کردیا گیا تھا اور ہزاروں ملزم عدالتی فیصلوں کے منتظر ہیں۔ اطلاعات کے مطابق بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کے جرم میں 30 ہزار سے زائد مقدمات زیر سماعت ہیں۔
متحدہ پاکستان میں پاکستان کو متحد رکھنے کی کوششوں کے مرتکب افراد کو نصف صدی گزر جانے کے بعد مجرم قرار دیے جانے کا بنگلہ دیشی حکومت کا اقدام بڑا معنی خیز ہے اور ان محب وطن افراد کی سزاؤں پر حکومت پاکستان اور پاکستانیوں کی خاموشی مایوس کن ہے جب کہ ان کے تحفظ کے لیے دونوں ملکوں کے مابین معاہدہ موجود ہے۔ فیصلہ سنانے والے جج کی گفتگو بھی منظر عام پر آچکی ہے کہ ان پر ملزموں کو پھانسی کی سزا سنانے کا سخت دباؤ ہے۔
بین الاقوامی تنظیم ہیومن رائٹس واچ اور ایمنسٹی انٹرنیشنل فیصلوں کو عدالتی تعصب پر مبنی، غیر شفاف اور انصاف کے بین الاقوامی معیارات کے منافی قرار دے چکی ہیں جس طرح ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی 86 سالہ غیر منصفانہ سزا کے خلاف سابق امریکی اٹارنی جنرل ایمزے کلارک، سابق امریکی اٹارنی ٹینافورسٹر اور نو مسلم برطانوی صحافی مریم ریڈلے اور دیگر شخصیات اور تنظیمیں دنیا بھر میں اس کی رہائی کے لیے کوششیں کر رہی ہیں۔
جماعت اسلامی نے سزاؤں پر اپنے ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ بنگلہ دیشی حکومت ٹریبونل کو سیاسی مقاصد کے لیے مخالفین کی کمر توڑنے کے لیے استعمال کر رہی ہے، حکومت انصاف کا خون کر رہی ہے۔ نام نہاد عدالتیں سیاسی انتقام کا نشانہ بنا رہی ہیں۔ پروفیسر اعظم بھی یہ کہہ چکے تھے کہ حکومت بنگلہ دیش میں اسلامی جماعتوں سے خوفزدہ ہے اور انھیں کالعدم قرار دینا چاہتی ہے۔
پروفیسر اعظم سے بنگلہ دیشی عوام کی محبت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ حکومتی رکاوٹوں کے باوجود لاکھوں شہری ان کے نماز جنازہ میں شریک ہوئے، جس کی امامت ان کے بیٹے بریگیڈیئر عبداللہ اعظمی نے پڑھائی۔ ان کا بیٹا فوج میں بریگیڈیئر ہے، وہ خود رکن اسمبلی اور وزیر بھی رہے۔ حسینہ لیگ اور صدارتی امیدوار نے حمایت کے حصول کے لیے ان کے در پر حاضری دی۔ 1971 اور 1996 میں بھی ان کی حکومتیں رہیں جب تک کوئی غدار نہیں تھا۔
حسینہ واجد کی پاکستان دشمنی اور بھارت دوستی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں ہے جس طرح اندرا گاندھی نے سقوط ڈھاکا کے موقع پر یہ کہا تھا کہ آج ہم نے دو قومی نظریہ کو جمنا میں ڈبو دیا ہے اسی طرح بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کے ہاتھوں پاکستانی ٹیم کی شکست پر حسینہ واجد نے کہا تھا کہ آج ہم نے پاکستان سے 1971 کا بدلہ لے لیا ہے۔ وہ ایک کرکٹ میچ کے دوران پاکستان کی ممکنہ فتح دیکھتے ہوئے اسٹیڈیم سے چلی گئی تھیں۔
T-20 میچز میں پاکستانی ترانہ، پاکستانی پرچموں کا لہرانا اور بنگلہ دیشی شایقین کی طرف سے اپنے جسموں پر پاکستانی پرچم بنوانا، آسٹریلیا کے مقابلے میں پاکستان کی بھرپور پذیرائی اور پاکستانی کرکٹرز کی تصاویر کی ریکارڈ فروخت اور ان کے حق میں نعرے بھی انھیں ایک آنکھ نہ بھا سکے اور انھوں نے ڈھاکا کے میرپور اسٹیڈیم میں پاکستانی پرچم لہرانے اور جسموں پر بنوانے پر پابندی عاید کردی تھی جس پر شائقین نے باقی میچز کسی دوسرے ملک منتقل کرنے کا مطالبہ کردیا تھا اور آئی سی سی نے بھی اس اقدام پر ناپسندیدگی کا اظہار کرتے ہوئے وضاحت طلب کرلی تھی۔
بنگلہ دیشی کرکٹ ٹیم کو ٹیسٹ کیپ دلانے کا کریڈٹ بھی پاکستانی کرکٹ ٹیم کو دیا جاتا ہے۔ دونوں ملکوں کے شائقین اور شہریوں میں کوئی خلیج اب ہے نہ پہلے کبھی تھی، ماسوائے اس کے کہ مخصوص عزائم اور ذہنیت کے حامل سازشی عناصر نے ان کے درمیان وقتی طور پر عصبیت و صوبائیت کے منفی جذبات کو ابھار کر اپنے مکروہ مقاصد حاصل کیے، اس میں ملک کے دونوں حصوں کے قوم پرستوں، جاگیرداروں، اشرافیہ اور مشرقی پاکستان کے ہندوؤں اور ہندوستان کی حکومت کا ہاتھ تھا۔
بنگالی نوجوانوں اور طلبا کو بھارت میں باقاعدہ تربیت دے کر پاکستان بھیجا جاتا تھا۔ انھیں ہتھیار اور ہتھیار بند ہندوستانی ایجنٹوں اور فوج کی حمایت بھی حاصل تھی جس کی وجہ سے ظلم و ستم اور سفاکی کے عمل سامنے آئے، جس پر آج دونوں ملکوں کے باسی پشیمان اور پریشان ہیں۔ لیکن اب بھی ایسے عناصر اور سازشوں کی کمی نہیں ہے جو بنگلہ دیش کو انڈیا کی کالونی اور بغل بچہ بنانے کے مشن پر مامور ہیں اور یہ ملک بڑی حد تک انڈیا کے زیر اثر آچکا ہے۔
بنگلہ دیش میں سزائے موت، عمر قید یا مقدمات کا سامنا کرنے والے مطیع الرحمن ہوں یا پروفیسر اعظم یا عبدالقادر اور دیگر ہزاروں مقدمات کا سامنا کرنے والے بنگالی یا پھر محصورین کی حیثیت سے قربانیاں دینے والے کیمپوں میں غیر انسانی زندگیاں گزارنے والے غیر بنگالی افراد یہ معاملہ بنگالی اور غیر بنگال یا ایک جماعت کا نہیں ہے بلکہ پاکستان اور خالص پاکستانیوں کا مسئلہ ہے۔ نصف صدی قبل پاکستان کی یکجہتی اور سالمیت و دفاع کے لیے اپنا جان مال عزت و آبرو نچھاور کرنے والے آج بھی مصائب اور مظالم کا شکار ہیں اور پاکستان کی حمایت کے جرم میں آج بھی ان کی جانوں کا نذرانہ لیا جا رہا ہے۔
وزیر داخلہ چوہدری نثار نے پروفیسر اعظم کے انتقال پر اپنے تعزیتی بیان میں کہا ہے کہ مرحوم سچائی کے اصولوں پر قائم رہے، انھوں نے متحدہ پاکستان کے لیے بے پناہ قربانیاں دیں جو تاریخ کے انمٹ نقوش ہیں۔ کاش حکومت پاکستان اپنی قومی و ملی ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے بنگلہ دیش حکومت کو وہ معاہدہ یاد دلائے جس کے تحت ایسے ممکنہ انتقامی اقدامات پر پہلے ہی بند باندھ دیا گیا تھا، اس کے خلاف بنگلہ دیش حکومت سے احتجاج کرے اور اس مسئلے کو عالمی فورم پر لے کر جائے۔