تحقیق و تخلیق کے آٹھ نئے چراغ

وام ٹیلی ویژن کی اسکرین پر حزب اقتدار اور اختلاف کے چور سپاہی والے کھیل سے اکتا گئے ہیں۔


خرم سہیل November 04, 2014
[email protected]

پاکستان میں نیوز چینلز کی آمد کے بعد ایک عام خیال یہ پایا جاتا ہے کہ کتب بینی کے رجحان میں کمی آئی ہے، مگر حقائق اس کے بالکل برعکس ہیں۔ نہ صرف مطالعہ کا شوق برقرار ہے، بلکہ تصنیف و تالیف کے تناسب میں اضافہ ہوا ہے۔ شاید اس کی ایک بنیادی وجہ یہ ہے، عوام ٹیلی ویژن کی اسکرین پر حزب اقتدار اور اختلاف کے چور سپاہی والے کھیل سے اکتا گئے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس ماحول سے صرف نظر کرکے کچھ لوگ تحریری سطح پر کام کرنے میں مصروف عمل ہوتے ہیں۔

نئے لکھنے والوں کے سامنے سب سے بڑی رکاوٹ ان کا نیاپن ہی ہوتا ہے، جس کو متعلقہ شعبے کے بڑے قبول نہیں کرتے۔ قارئین ان کے نام سے واقف نہیں ہوتے، مگر پانچوں انگلیاں برابر نہیں ہوتیں۔ بڑوں میں کئی شفیق تخلیق کار بھی ہوتے ہیں، جن کے ہاں نئے لکھنے والوں پر ہمیشہ دروازے کھلے رہتے ہیں اور قارئین بھی خوب داد دیتے ہیں۔ آج، ایسے ہی کچھ نووارد مصنفین کا تذکرہ یہاں مقصود ہے۔

پہلی کتاب کا نام ''پاکستانی سینما میں جعلی ثقافت'' ہے۔ اس کتاب کے مصنف ڈاکٹر امجد ایوب مرزا ہیں، یہ کتاب ان کا تحقیقی مقالہ ہے، جس کو انھوں نے برونل یونیورسٹی، برطانیہ میں مکمل کیا۔ ایک ہی جلد میں انگریزی اور اردو زبان میں کتاب چھپی ہوئی ہے۔ مصنف نے پاکستانی سینما کو تین ادوار میں تقسیم کیا ہے، جس میں مختلف پہلوؤں سے بننے والی فلموں کا مارکسی نکتہ نظر کے تحت باریک بینی سے جائزہ لیا ہے۔ کمرشل، آرٹ اور مخصوص نظریے کے تحت بننے والی فلمیں اس تحقیق کا موضوع خاص ہیں۔

دوسری کتاب بھی ایک تحقیقی مقالہ ہے، جس کو کتابی شکل دینے کے بعد ''منیرنیازی، شخص اور شاعر'' کے عنوان سے شایع کیا گیا ہے۔ اس کتاب کی مصنفہ ڈاکٹر سمیرا اعجاز ہیں۔ یہ سرگودھا یونیورسٹی میں اردو کے شعبے میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں اور یہ ان کی پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ یہ کتاب تدریسی تحقیق ہونے کے باوجود اپنے اندر منیر نیازی کی شاعری کے موسموں کو سموئے ہوئے ہے۔ پانچ ابواب پر مشتمل یہ کتاب پاکستان کے مقبول شاعر منیر نیازی کے سوانحی حقائق، ان کی شاعری کا فکری و تشکیلی نظام، غزل کی شعریات اور گیتوں کی فکر و فنی دیومالا کی یاد دلاتی ہے۔ یہ تحقیق نہایت عمدہ اور سنجیدہ فکر پر قائم ہے۔ ایسی کتابوں سے ہمارے مشاہیر کے فن کے کئی دریچے کھلتے ہیں۔ منیر نیازی پر ہونے والی تحقیق کے لیے اس کتاب کو نظر انداز نہیں کیا جاسکے گا، یہی اس کتاب کی سب سے بڑی خوبی ہے۔

تیسری کتاب ایک ناول ہے، جس کا نام ''گلیوں کے لوگ'' ہے اور ناول نگار کا نام اقبال حسن خان ہے۔ میری نظر سے اگر دیکھیں تو ان کا شمار ایسے تخلیق کاروں میں ہوتا ہے، جن کے دل میں سماج کا درد آنکھوں میں ضبط کے آنسوؤں جیسا ہوتا ہے، لیکن یہ ضبط اندر سے آپ کو توڑ کے رکھ دیتا ہے۔ اقبال حسن خان کم و بیش پینتیس برس سے ریڈیو اور ٹیلی ویژن سے بطور ڈراما نگار وابستہ ہیں اور خاموشی سے اپنے حصے کا کام دلجمعی سے کررہے ہیں۔ ادب سے ان کے گہرے شغف کا عکس یہ ناول ہے، جس میں ہمارے ملک کی تاریخ کی فضا بھی دکھائی دیتی ہے اور وہ عوامی شعور بھی، جس طرح شاعری میں ہمیں ایسی آمیزش نظیر اکبر آبادی کے ہاں ملتی ہے۔

چوتھی کتاب کا نام ''میرے شہر کی کہانی '' ہے، اس کی مصنفہ ارم زہرہ ہیں۔ یہ کتاب کراچی شہر کے حالات کے تناظر میں لکھی گئی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔ ان کہانیوں کے ذریعے کراچی کے حالات زندگی کی تلخی کا پتا چلتا ہے اور صرف یہی نہیں روشنیوں کے اس شہر پر اندھیروں کا راج کیسے ہوا، بین السطور میں اس کی خبر بھی ملتی ہے۔ ارم زہرا ناول اور افسانے لکھتی ہیں، جو مختلف ڈائجسٹوں میں شایع ہوتے ہیں، لیکن ادب سے گہری دلچسپی ہونے کی بنا پر انھوں نے اپنی تخلیقات کو کتابی شکل دی۔

پانچویں کتاب کا نام ''روز و شب اخبار کے'' ہے، اس کے مصنف محمد ارشد سلیم ہیں۔ اس کتاب میں محمد ارشد سلیم نے جوکہ خود صحافی ہیں اور تدریس کے شعبے سے بھی تعلق ہے، انھوں نے اپنے صحافتی کام کو اس میں جمع کردیا ہے، جس میں کالم، فیچر، انٹرویوز اور دیگر اصناف شامل ہیں۔ نوآموز صحافیوں کے لیے بطور خاص یہ کتاب اہم ہے، اس کو پڑھ کر وہ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کیرئیر کی ابتدا میں کس طرح صحافت کے شعبے سے صاحب کتاب ہونے تک کا سفر طے کیا جاتا ہے۔ اسی مصنف کی دوسری کتاب ''تم بچے نہیں رہے'' بھی قابل مطالعہ ہے، اس میں بچوں کے لیے سلیس اور دلچسپ کہانیاں ہیں، جن کو پڑھ کر ان میں فکشن کی صلاحیتوں کی موجودگی کا بھی قوی احساس ہوتا ہے۔

ساتویں کتاب کا نام ''نعت انسائیکلو پیڈیا'' ہے، جس کے مرتب مولانا ڈاکٹر محمد ظہور خان پارس ہیں۔ بنیادی طور پر یہ ایک تحقیقی انداز کا کام ہے۔ اس کتاب میں چار سو پینتالیس نعتوں کو اکٹھا کیا گیا ہے۔ اس بابرکت کام کے لیے ڈاکٹر محمد ظہور خان مبارک باد کے مستحق ہیں اور ان کے ناشر شاعر علی شاعر بھی، جنھوں نے نعت کا یہ انسائیکلو پیڈیا شایع کیا اور یہ ابھی اس کی پہلی جلد ہے۔ یہ کام تقریباً سات جلدوں میں مکمل ہوگا۔ ابھی الف ممدوہ اور الف مقصورہ پر مبنی پہلی جلد تیار ہوئی ہے۔

ان کتابوں کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ پاکستان میں تحقیق اور تخلیق کے شعبے کام کر رہے ہیں، البتہ تناسب کم ہے، لیکن اگر اسی معیار کے ساتھ تخلیقات سامنے آتی رہیں تو بہت جلد ہمارے ہاں دوبارہ سے ادب اور غیرادب تخلیقات اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کرلیں گی۔ سینما، شاعری، ناول، افسانے، بچوں کی کہانیاں اور نعت کے حوالے سے یہ تمام متعلقہ کتابیں رواں برس ہی شایع ہوئیں، یہ اس بات کا ثبوت ہے، مختلف اصناف میں تصنیف و تالیف کی سرگرمیاں جاری ہیں۔ معروف اور تجربہ کار لکھنے والوں کی مدح سرائی ہر کوئی کرتا ہے، لیکن نئے چراغ کی روشنی کو سہارا دینا ہمارا اخلاقی فرض ہے، اگر ہم چاہتے ہیں کہ جہالت کے اندھیروں میں روشن اذہان سے اجالاہو، اسی روشنی سے ہمارا مستقبل وابستہ ہے۔

ہمارے تخلیق کار تو اپنے حصے کا کام کررہے ہیں، مگر کتاب اور قاری کا رشتہ جب ہی مضبوط ہوسکتا ہے کہ اس مہنگائی کے دور میں قیمتوں پر قابو رکھا جائے۔ حکومت کوشش کرکے کاغذ کی قیمت میں کمی کرے، تاکہ تعلیمی ادارے اس سے استفادہ حاصل کریں۔ لائبریریاں ویران نہ ہوں اور خرید و فروخت کے ساتھ ساتھ معاشرتی سطح پر کتاب کے ذریعے عوام میں شعور بیدار ہوسکے۔ بقول شخصے کتاب تنہائی کی بہترین ساتھی ہے اور زندگی کے لیے ایک رہبر بھی، جس کے ذریعے صرف ذہن کی نشوونما ہی نہیں ہوتی، بلکہ جذبات کی تسکین کا سامان بھی ہوتا ہے۔

ایسا احساس لیے آٹھویں کتاب کا نام ''شکرپارے'' ہے، جس کے مصنف مبشر علی زیدی ہیں۔ یہ ان کی سو لفظوں پر مشتمل سو کہانیاں ہیں، جن کو انھوں نے دس حصوں میں عنوانات دے کر تقسیم کیا ہوا ہے۔ مبشر علی زیدی نے مختصر لیکن جامع انداز سے کہانی کہنے کے فن پر ایسی مہارت حاصل کی ہے کہ اب اس مختصر کہانی کو پڑھنے کے لیے قارئین کو طویل انتظار کرنا پڑتا ہے، یہی ان کی کامیابی ہے۔ یہ نوجوان صحافی ہیں اور امید ہے کہ طنزومزاح جیسے سنجیدہ اور مشکل شعبے میں یہ شگوفے تخلیق کرنے میں ان کی مہارت انھیں بہت آگے لے جائے گی۔ سو لفظوں کی ایک کہانی، جس کو انھوں نے تخلیق کیا، وہ نمونے کے طور پر پیش خدمت ہے۔

''پیاری محبوبہ! آج میں نے صدر کی فٹ پاتھ سے ایک پرانی کتاب خریدی۔ وہی کتاب اگر نئی خریدتا تو ڈھائی سو روپوں میں مل جاتی، لیکن اس کباڑیے نے پرانی کے پانچ سو مانگے۔ کہنے لگا، ''کتاب تو مفت سمجھیں، ساری قیمت دستخطوں کی ہے، کتاب کا انتساب جس لڑکی کے نام ہے، افسانہ نگار نے اپنے قلم سے وہی نام دوبارہ لکھ کر دستخط کیے ہیں، یہ محبت کا تحفہ ہے صاحب!'' میں نے ردی فروش کو منہ مانگے دام ادا کردیے، لیکن اسے یہ نہیں بتایا کہ کتاب پر نام تمہارا تھا، اور دستخط میرے''۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں