بحرانوں کا نہ تھمنے والا سلسلہ
ہمیں ایک دہشت گردملک قرار دےکر ہماراسوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔قوموں کی برادری میں ہماری شناخت اورپہچان مسخ کردی جاتی ہے
لاہور:
ہمارا وطن عزیز کب بحرانوں کے تسلسل سے باہر نکل پائے گا؟ یہ وہ سوال ہے جو ہر دردمند محب وطن پاکستانی کو ہمہ وقت پریشان کیے دیتا ہے۔ ہم بحرانوں کے اس ہمہ گیر سلسلے سے کب باہر نکل سکیں گے۔ نائن الیون کا ایک واقعہ امریکا میں ہوتا ہے، دہشت گردی کا بارہ سالہ عذاب ہمیں بھگتنا پڑتا ہے۔
کئی سال تک ہمارے لوگ دوسروں کی اس جنگ کا خمیازہ اپنی تباہی اور بربادی کی شکل میں بھگتتے رہتے ہیں۔ بموں کے دھماکوں اور خودکش حملوں کے نتیجے میں ہمارے کئی ہزار بے گناہ لوگ مارے جاتے ہیں۔ ہمیں معاشی اور اقتصادی طور پر تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا جاتا ہے۔ ہمیں ایک دہشت گرد ملک قرار دے کر ہمارا سوشل بائیکاٹ کیا جاتا ہے۔ قوموں کی برادری میں ہماری شناخت اور پہچان مسخ کردی جاتی ہے۔ کوئی اقتصادی اور معاشرتی سرگرمی اس پورے دور میں ہمارے یہاں دکھائی نہیں دیتی۔ دوسرے ملکوں سے مختلف کھیلوں کے مقابلے بھی ناممکن بنا دیے جاتے ہیں۔
اس کے باوجود ہمیں ہی موردِالزام ٹھہرا کر لعن طعن بھی کیا جاتا ہے۔ ان دہشت گردوں سے نمٹنے کا فیصلہ کیا گیا اور ایک زبردست فوجی آپریشن سے ان دہشت گردوں کے خلاف کارروائی کا آغاز ہوا، جس کے نتیجے میں ابھی کچھ امن وامان قائم ہوا ہی تھا کہ پھر ایک نئے بحران سے ہمیں دوچار کردیا گیا۔ یہ نیا بحران سیاست میں ہمارے ان نوواردوں کے جانب سے شروع کیا گیا جنھیں سیاست میں اچانک ملنے والی اپنی نئی نئی مقبولیت نے انھیں پرجوش کر دیا تھا۔ ایک سوچے سمجھے منصوبے کے تحت ملک کے حالات کو ایک بار پھر غیر یقینی صورتحال میں مبتلا کردیا گیا۔ پس چلمن جن خفیہ قوتوں کا ہاتھ کارفرما تھا یہ توکچھ عرصے بعد طشت ازبام ہو ہی جائے گا، لیکن اس ساری صورتحال میں ہمارا بہت معاشی اور اقتصادی نقصان کردیا گیا اور جسے پورا کرتے کرتے کئی مہینے اور سال بھی لگ سکتے ہیں۔
ایک ایسے مسئلے اور ایشو کو بنیاد بنا کر یہ سارا طوفان کھڑا کیا گیا جس کو سلجھانے کی اگر سنجیدہ کوشش کی جاتی تو شاید اس بے موقع لانگ مارچ اور دھرنے کی حاجت بھی قطعاً باقی نہ رہتی۔ مگر کینیڈا سے درآمد کردہ شیخ الاسلام کو ساتھ ملا کر جس منفرد عالمی ریکارڈ والے دھرنے کا اہتمام کیا گیا اور اس کا شروع کیا جانا ہی حیران کن اور تعجب خیز تھا، صرف چار نشستوں کی تحقیقات سے بات شروع کی گئی اور پھر ساری حکومت اور نظام کے دھڑن تختہ کا مطالبہ کیا جانے لگا۔ انتخابات میں جس مبینہ دھاندلی کا الزام لگایا گیا اس کی سپورٹ میں کوئی واضح اور ٹھوس ثبوت بھی پیش نہ کیے گئے، بس انگوٹھوں کے نشانات کی جانچ پڑتال کا کہا گیا۔ ایک مفروضہ پر بڑی ہنرمندی سے اسکرپٹ تیار کرکے یہ سارا ہنگامہ کھڑا کیا گیا۔ جولائی کے مہینے سے ایک ایسا طوفان بدتمیزی مچایا گیا جس میں کسی کو نہیں بخشا گیا۔
ججوں، صحافیوں، دانشوروں اور نجانے کتنے محترم، مہذب اور باعزت لوگوں پر الزامات لگائے گئے۔ کسی کو فرعون کا لقب عنایت فرمایا گیا۔ سول نافرمانی اور کرنسی نوٹوں پر نازیبا الفاظ تحریر کرنے کا حکم بھی صادر کردیا گیا۔ حکومت کے جانے کی کئی کئی تاریخیں دے کر دھرنے میں بیٹھے عوام کو دلاسا دیا گیا۔ کبھی کسی غیبی امداد کی آمد اور کبھی کسی امپائر کی انگلی اٹھ جانے کی نوید سنائی گئی۔ کبھی کفن پہن کر اور کبھی قبریں کھود کر فرضی انقلاب کو جہاد جیسے مقدس فریضے کے معنی پہنائے گئے۔ پی ٹی وی اور پارلیمنٹ کی عمارتوں میں گھس کر دنگا فساد کیا گیا۔ دنیا کو ایک ایسا تاثر دیا گیا کہ جیسے یہاں کے اٹھارہ کروڑ لوگوں نے ایک جابر اور ظالم سلطان کی حکومت کا تختہ الٹ کر سارا نظام درہم برہم کردیا ہے۔
حکومت وقت نے یہ سب کچھ محض اس لیے برداشت کیا کہ وہ غریب عوام کا لہو بہانا نہیں چاہتی تھی، ورنہ ایسے حالات میں تو دنیا کے کئی ممالک میں ہزاروں لوگ مار دیے جاتے ہیں۔ مگر شکر ہے حکومت نے لاہور کے ماڈل ٹاؤن کی غلطی یہاں دہرانے سے اجتناب کیا اور معاملہ خود بخود دم توڑتا گیا۔ نوبت یہاں تک پہنچ گئی کہ جس نے دھرنے سے ناکام لوٹنے والے کے لیے شہید کردینے کا حکم صادر کیا تھا، وہی آج دھرنے کو لپیٹ کر ملک کو خیرباد کہہ چکا ہے۔ سیلاب کی تباہ کاریوں پر دھرنا ختم نہ کرنے والوں نے محرم الحرام کے موقعے کو غنیمت جان کر اور اپنی اس ناکامی کو بڑی ہوشیاری کے ساتھ چھپا کر شہر شہر نگر نگر جلسے کرنے کا اعلان بھی فرما ڈالا۔ملک کو ترقی و خوشحالی کی راہ پر ڈالنے کے بجائے ایسی کوششوں میں روڑے اٹکانے کے اس عمل کو ہم خیر خواہی کا نام نہیں دے سکتے۔
کب تک ہمارے یہاں یہ کھیل تماشا چلتا رہے گا۔ وطن عزیز تباہ ہوتا جا رہا ہے اور ہم آپس میں گتھم گتھا ہوئے جا رہے ہیں۔ بلاوجہ کی اشتعال انگیزی اور محاذ آرائی کس کے مفاد میں ہے۔ بحرانوں کا سلسلہ ہے کہ تھمنے کا نام ہی نہیں لیتا۔ ابھی انقلاب اور تبدیلی کے نام پر یہ شور شرابا ختم بھی نہ ہونے پایا تھا کہ ایک دوسرا بحران تیار کر دیا گیا ہے۔ پیپلز پارٹی اور متحدہ کے درمیان لفظوں اور بیانوں سے شروع ہونے والی چھیڑ چھاڑ سنگین ہوتی جا رہی ہے۔ مفاہمت اور ہم آہنگی کا وہ حربہ کہاں گیا جسے اپنا کر زرداری صاحب بڑے آرام کے ساتھ اپنے اقتدار کے پانچ سال پورے کرگئے، اور جس کا کریڈٹ لے کر پیپلز پارٹی والے میاں صاحب کو بھی یکجہتی اور مفاہمت کا درس دیا کرتے ہیں کہ حکومتیں کس طرح چلائی جاتی ہیں۔
یہ سب کچھ یونہی نہیںہوا کرتا ۔ان تمام بحرانوں کے تانے بانے کہیں اور بنے جاتے ہیں۔ مقصد صرف یہی ہے کہ پاکستان ترقی و خوشحالی کی راہ پر گامزن نہ ہوپائے۔ اسے ہر وقت کسی نہ کسی بحران میں مبتلا رکھا جائے۔ امن وامان کی ناقص صورتحال دیکھ کر یہاں کوئی سرمایہ کاری نہ کرپائے۔ غیر ملکی انویسٹمنٹ تو کجا لوکل انویسٹمنٹ بھی نہ ہوپائے۔ عوام بے چارگی اور کسمپرسی کی زندگی گزارتے رہیں۔ کوئی خوشحالی ان کی دہلیز تک نہ پہنچ سکے۔ وہ یونہی پانی اور بجلی کا عذاب جھیلتے رہیں۔ ملکی معیشت دگرگوں ہوتی جائے اور حکمران ہاتھوں میں کشکول ہمیشہ تھامے رکھیں۔
غور طلب بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ جمہوری دور میں ہی کیوں ہوا کرتا ہے۔ غیرآئینی یا غیر جمہوری دور میں کسی کی ہمت نہیں ہوتی کہ وہ حکمراں کے خلاف کوئی لب کشائی کرے۔ لوگوں کی آزادی، میڈیا کی آزادی اور گالیاں دینے کی آزادی سب جمہوریت ہی کی مرہون منت ہے اور ہم اسے ہی نیست و نابود کرنے کی فکر میں لگے ہوئے ہیں۔ پھر بھی ہمیں گلہ ہے کہ جمہوریت نے اس ملک کو کیا دیا ہے۔ ہم میں سے کئی لوگ آمریت کے گن آج بھی گاتے رہتے ہیں۔ حالانکہ بڑی مشکلوں سے جب جمہوریت نصیب ہوتی ہے تو سب سے پہلے ہم خود ہی اسی کی بیخ کنی میں لگ جاتے ہیں اور اپنی من مانیوں سے اسے بدصورت اور بدنما بنادیتے ہیں۔ دور آمریت میں ہمیں نہ آزادی اظہار کا غم کھاتا ہے اور نہ اپنے بنیادی حقوق کی پامالی کا ملال ہوتا ہے، نہ نئے صوبے بنانے کا شوق جنم لیتا ہے اور نہ ہڑتال اور پہیہ جام کا خیال ستاتا ہے۔
یہ سارے شوشے اور مشغلے ہمیں صرف جمہوری دور میں ہی سوجھتے ہیں۔ ہمیں اپنے طرزِ عمل پر سنجیدگی اور متانت کے ساتھ فکر کرنے کی ضرورت ہے۔ جمہوریت کو ذرا سانس لینے کا موقع دیں، رفتہ رفتہ ہمارے سارے مسائل حل ہوجائیں گے۔ دنیا کی قومیں ترقی وخوشحالی کی منازل طے کرکے کہاں سے کہاں پہنچ چکی ہیں اور ہم اپنی اب تک کی حاصل کردہ کامیابیوں کو ہی ضایع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ خدارا آزادی اظہار اور جمہوریت کی قدر کرنا سیکھیں اور ڈریں اس وقت سے جب کہ یہ نعمت ہم سے چھین لی جائے۔