نظم بچپنا

انہی آنکھوں کے آنگن میں، کسی کو چاہنے کا اک تصوّر رقص کرتا ہو، کبھی رقصاں، کبھی ساکت، کبھی جھومے مسرّت میں


Rafi Allah Mian November 05, 2014
انہی آنکھوں کے آنگن میں، کسی کو چاہنے کا اک تصوّر رقص کرتا ہو، کبھی رقصاں، کبھی ساکت، کبھی جھومے مسرّت میں۔ فوٹو اے ایف پی

کسی بچے کی مانند اس کی آنکھوں میں
شرارت تیرتی ہے یوں
کہ جیسے زندگی کے پانیوں پر اک
محبت کا پرندہ تیرتا ہو اور
اسے دو پل ٹھہر کر سانس لینے کو
مُیَسّر ہو نہ کوئی اک جزیرہ بھی
مگر وہ مسکراتی ہوں


انہی آنکھوں کے آنگن میں
کسی کو چاہنے کا اک تصوّر رقص کرتا ہو
کبھی رقصاں، کبھی ساکت
کبھی جھومے مسرّت میں
کبھی مبہوت رہ جائے
مگر اٹکھیلیاں کھیلے
محبت کے حسیں، اس نیلے آنگن میں
سیہ، روشن درختوں میں کہیں چُھپ کر
کہیں سے چاند کی صورت ذرا سی رونمائی کو
نکل آئے
دبا کر ہونٹ دانتوں میں
کہیں محبوب کو ڈھونڈے
اُسے پاکر پھر اس کی اور بڑھ جائے
مگر اُس کے پلٹنے سے بھی پہلے خود پلٹ جائے
درختوں میں کہیں چھپ کر
یہی اٹکھیلیاں کھیلے


اگر آنکھوں کے اس نیلے سمُندر پر
شرارت، تیرنے والی
جزیرے کے کہیں مٹتے ہوئے آثار بھی پالے
تو دم لینے کو اترے اور
اُسے یہ گیان حاصل ہو
کہ اُس کا بچپنا تو مُدتوں پہلے
خود اس نیلے سمُندر میں پھسل کر ڈوبتے لمحے
ذرا سا مسکرایا تھا
بھیانک خواب کی صورت


نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے نظم لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور اپنی تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔