پاک بھارت تعلقات امکانات اور خدشات
ماضی کی طرح اب بھی بنیادی مسائل کو پس پشت ڈالنے کے لیے معیشت اور تجارت کو اہمیت دینے پر زور دیا جا رہا ہے۔
پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات کی تاریخ ناخوشگوار تاثرات اور تنائو سے عبارت ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے وقت دونوں جانب سے زبانی کلامی جس خیر سگالی اور مستقبل میں دوستانہ تعلقات کی ترویج کا اظہار کیا جاتا رہا تھا ان کا مثبت تاثر بہت جلد کشیدگی دھویں میں تحلیل ہوگیا اور تقسیم کے ہنگام نے کانگریس اور مسلم لیگ کے سیاسی اختلافات کو بڑھا کر دونوں ملکوں کے عوام کی دشمنی تک پہنچا دیا۔
دونوں ملکوں کی باہمی نفرت اور کشیدگی کو ختم کرنے کیلئے بارہا کوشیں بھی ہوتی رہیں اور تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ قائدین کی سطح پر ان کوششوں میں غیر معمولی جوش و خروش اور عزم کا مظاہرہ کیا گیا لیکن آج تک یہ تمام کوششیں نہ صرف یہ کہ ناکام ہوئیں بلکہ آنے والے وقت میں دونوں ملکوں کے درمیان شک اور بے یقینی مسلسل بڑھتی ہی رہی۔
پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے کیلئے آج تک چار بڑی کوششیں کی جاچکی ہیں جن کے نتیجے میں چار بڑے معاہدے ہوئے۔ پہلا سندھ طاس معاہد ہ تھا جس کے تحت پاکستان اور بھارت میں پانی کی تقسیم کا فارمولا طے ہوا۔ دوسرا معاہدہ تاشقند تھا جس کے مندرجات سے یوں لگتا تھا جیسے دونوں ملک 1965ء کے تصادم سے سبق سیکھ کر اپنے معاملات کو درست کرنے کیلئے پرعزم ہیں۔ تیسرا معاہدہ شملہ، سقوط ڈھاکہ کے بعد تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش بنا اور چوتھا سابق بھارتی وزیراعظم واجپائی کے دورہ پاکستان کے موقع پر اعلان لاہور کے طور پر سامنے آیا۔
سچ پوچھیں تو اعلان لاہور تک آتے آتے پاک بھارت معاملات اس نہج پر پُہنچ چکے تھے کہ اس موقع پر زیادہ بات چیت اس بات پر ہوئی کہ دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت کیسے ہو، اس کا طریقہ کار کیا ہو۔ ان معاہدوں کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ ان میں سے صرف سندھ طاس معاہدہ کسی حد تک خوشگوار پس منظر کا حامل رہا ہے۔ اوائل میں اس معاہدے سے پاکستان بھی خوش نظر آیا اور بھارت بھی، لیکن اب یہ واحد کامیاب معاہدہ بھی خطرات میں گھرا نظر آتا ہے۔
مقبوضہ کشمیر اور بھارت میں بننے والے بعض ڈیموں پر پاکستان کے اعتراضات کے بعد اس معاہدے کے بارے میں بھی ایسا تاثر ابھر رہا ہے جسے اس کی تحریر میں بھی بھارت نے فساد کے بیج بو دئیے تھے جنہیں پاکستانی سفارت کار نہ بھانپ سکے اور اب ان سے پھوٹنے والے پودے تیزی سے پھل پھول رہے ہیں باقی تینوں معاہدے پہلے ہی تشریحات میں تضادات کے باعث بے معنی ہو کر رہ گئے ہیں حالانکہ زبانی کلامی دونوں ملک اپنے موقف کے حق میں ان معاہدوں کے حوالے دیتے رہتے ہیں۔
پاک بھارت تعلقات میں بہتری لانے کی تازہ ترین کوشش بھارتی وزیر خارجہ ایس ایم کرشنا کے دورۂ پاکستان کی شکل میں سامنے آئی ہے ۔ توقع کرنی چاہیے کہ دونوں ملکوں کے درمیان حالات تو معمول پر لانے کی کوششوں کو اس بار کامیابی نصیب ہو کیونکہ ماضی میں ایسی تمام کوششوں کے بعد کوئی نہ کوئی تباہ کن واقعہ ضرور رونما ہوا ہے۔ اس مایوس کن پس منظر کے باعث دونوں ملکوں میں موجود تجزیہ کار اور دانشور اس حالیہ کوشش کے بارے میں زیادہ پر امید نظر نہیں آتے۔
اس بات میں کوئی شک نہیںکہ دونوں ملک ایک دوسرے کے لئے بے پناہ امکانات رکھتے ہیں۔ دونوں ملکوں کے مابین تجارت سے دونوں ملکوں کو غیر معمولی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ سب سے قریبی پڑوسی ہونے کے ناطے زندگی کے تمام شعبوں میں تعاون اور شراکت داری کے ذریعے بالعموم دنیا اور بالخصوص پوری دنیا کے لئے مثال بن سکتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے دونوں ملکوں کے درمیان حقیقی مسائل کو مسلسل نظر انداز کرنے کی روش جاری ہے جس کے باعث حالات کو معمول پر لانے کی کوششیں کامیاب نہیں ہوتیں۔
حالیہ پاک بھارت مذاکرات میں بھی وہی غلطی دہرائی جارہی ہے جو ماضی میں ایسے معاہدوں کی ناکامی کا باعث بنتی رہی ہے۔ دونوں ملکوں کے وزراء خارجہ کے مابین ستمبر میں ہونے والی بات چیت اور مشترکہ علامیہ سے صاف پتہ چلتا ہے کہ ساری توجہ تجارت میں اضافے، ویزا کی پابندیوں میں نرمی اور مختلف شعبوں میں باہمی تعاون کے فروغ پر مرکوز ہے جبکہ دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی کا سبب بننے والے بڑے معاملات کو ان بظاہر دلکش اقدامات میں دبانے کی کوشش کی گئی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ پاکستان کی موجودہ قیادت بھی یوں لگتا ہے جیسے کسی عالمی ایجنڈے کے زیر اثر دونوں ملکوں کے درمیان معاملات کی اس ترجیحی فہرست سے اتفاق کر چکی ہے جو بھارت کی تخلیق ہے اور وہ ایک عرصے سے اس پر اصرار کرتا چلا آرہا ہے۔
بھارت کا نقطہ نظر یہ ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان جنگ وجدل اور خون خرابے کا باعث بننے والے مسئلہ کشمیر، سیاچن اور سرکریک کو کمتر درجے کے مسئلے تصور کرتے ہوئے آپس میں پیار محبت بڑھانے کے اقدامات پر توجہ دی جائے۔ حالانکہ ایسی سوچ کے ساتھ آگے بڑھنے سے معاملات سُلجھنے کے بجائے مزید اُلجھیں گے۔ پچھلے دنوں یہ خبریں آ رہی تھیں کہ پاکستان اور بھارت سیا چن کو غیر فوجی علاقہ قرار دینے پر آمادگی کے قریب پہنچ چکے ہیں لیکن جلد ہی اس تاثر کی نفی بھارتی آرمی چیف کے اس بیان نے کر دی جس میں انہوں نے کہا تھا کہ سیا چن کو نہیں چھوڑا جاسکتا کیونکہ فوجی لحاظ سے ہی بہت اہم مقام ہے۔ اپنے اس بیان میں انہوں نے ایسا نہ کرنے کی بہت دلچسپ وجہ بھی بیان کی۔ اُن کا کہنا تھا کہ سیا چن کے لئے ہم نے بہت قربانی دی ہے ، ہمارا خون بہا ہے اس لئے اس کو نہیں چھوڑا جا سکتا۔ اس کا مطلب تو یہ ہوا کہ کہیں بھی حملہ کرکے قبضہ کرنے کے بعد کہا جا سکتا ہے کہ اس زمین کے لئے کیونکہ ہمارا خون بہا ہے لہٰذا اب یہ ہماری ہے۔
بھارت نے پاکستان کے سرمایہ کاروں کو بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت بھی دے دی ہے۔ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت شاید اس بات پر حیران ہو کہ حالات میں کس قدر ڈرامائی تبدیلی آچکی ہے لیکن در حقیقت اس بات کو درست تناظر میں سمجھنے کی ضرورت ہے۔ معاشی و تجارتی سرگرمیوں کو مرکزی حیثیت دینے پر بھارتی اصرار کوئی نئی بات نہیں۔ بھارت ہمیشہ سے ان امور کو اہمیت دینے کی بات کرتا رہا ہے۔
اب جن اقدامات پر پیش رفت ہو رہی ہے یہ پاک بھارت تعلقات کی تاریخ کا سب سے اہم موڑ ثابت ہو سکتا ہے۔ دونوں ملکوں میں طے پانے والے معاہدوں اور دیگر بھارتی تجاویز پر عملدرآمد کا سب سے بڑا نتیجہ یہ سامنے آئیگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانی معیشت بھارتی معیشت پر انحصار کرنے لگے گی۔ دراصل بھارت چاہتا بھی یہی ہے کہ پاکستان کے تاجروں اور کاروباری لوگوں کی اکثریت کے مالی مفادات بھارتی تجارتی سرگرمیوں کے ساتھ منسلک ہو جائیں ۔
اسی طرح کے اقدامات مقبوضہ کشمیر میں بہت بڑے پیمانے پر جاری ہیں۔ پاکستان سے واپس مقبوضہ کشمیر جانے والے ہر مہاجر خاندان کو 10 لاکھ روپے دئیے جارہے ہیں۔ دونوں ملکوں کے باہمی تعلقات کے اس نئے منظر نامے کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان نے فی الحال ان تبدیلیوں سے سمجھوتہ کر لیا ہے۔ جب پاکستان جیسے ملک کی بڑی آبادی کے معاشی مفادات کسی دوسرے ملک کی معیشت سے منسلک ہو جاتے ہیں تو پھر قومی نوعیت کے مسائل آہستہ آہستہ پس پشت ڈال دئیے جاتے ہیں۔ بھارت کو بھی توقع ہے کہ وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ پاکستانیوں کے لئے اہم قومی مسائل کے بجائے معاشی فوائد زیادہ اہمیت اختیار کر جائیں گے اور یوں بہتر تدبیر کے ساتھ اس مسئلے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے جان چھوٹ جائے گی۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ پاکستان بھارت کے ساتھ معاملات کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کو درست رکھے۔ وہ معاملات جن کے بطن سے کئی مسائل نے جنم لیا ہے اُن کی اہمیت کو کم کر کے دیرپا امن کے مقاصد حاصل نہیں کئے جا سکتے۔ دونوں ہمسائیہ ممالک کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانا سارے خطے کے مفاد میں ہے لیکن اس بات کا دھیان رہنا چاہیے کہ ماضی کی طرح اس بار بھی یہ کوششیں آخر میں بدمزگی کا شکار نہ ہو جائیں۔