دنیا بھر سے میرا قاتل ہی میرا منصف ہے

2010ء میں حسینہ واجد کے قائم کردہ وارٹربیونل کی حمایت کرنیوالی انسانی حقوق کی تنظیمیں آج اس کو ڈھونگ قراردے رہی ہیں۔


اویس حفیظ November 07, 2014
بنگلادیشی حکومت انصاف کے نام پر جو کھیل کھیل رہی ہے وہ دنیا کے امن کیلئے انتہائی خطرناک ہے۔ اِس طرح تو برطانیہ کو بھی یہ حق حاصل ہوجائیگا کہ وہ بھی برطانیہ کیخلاف فیصلے دینے والے 48 فیصد اسکاٹ لینڈ شہریوں کیخلاف غداری کا مقدمہ قائم کرلے۔ فوٹو: فائل

RAWALPINDI: دنیا بھر میں جنگی جرائم کے تعین کے حوالے سے وار کرائم ٹربیونلز قائم کیے جاتے ہیں۔ ان ٹربیونلز میں جہاں ایک طرف جنگی جرائم کے مرتکب ذمہ داران کا تعین کیا جاتا ہے وہیں پر ان سے حقائق کی درستی کا کام بھی لیا جاتا ہے۔ 1971ء کی جنگ کے حقائق جاننے کیلئے 2010ء میں بنگلادیشی حکومت نے بھی ایک وار کرائم ٹربیونل تشکیل دیا تھا۔ شیخ حسینہ واجد حکومت نے ٹربیونل تو قائم کرلیا مگر شاید جلد بازی میں اس کی شرائط پڑھنا بھول گئی۔ جن میں سے ایک شرط یہ بھی ہے کہ ''متاثرہ فریق'' خود مسند انصاف پر براجمان نہیں ہوگا بلکہ اس مقصد کے لئے کسی تیسرے فریق کی خدمات مستعار لی جائیں گی لیکن بنگلادیشی وارکرائم ٹربیونل میں حسینہ واجد حکومت خود ہی منصف، خود ہی مدعی اور خود ہی گواہ کا کردارادا کر رہی ہے۔؂
میرا قاتل ہی میرا منصف ہے
کیا میرے حق میں فیصلہ دے گا

دنیا بھر میں وار کرائم ٹربیونل کے لئے علیحدہ عدالتیں قائم کی جاتی ہیں جن کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جا سکتا مگرفروری2013ء میں جب ٹربیونل نے ''ملا عبد القادر''کو عمر قید کی کی سزا سنائی تو ڈھاکا کے ''شاہ بیگ چوک'' میں ہزاروں افراد نے دھرنا دیا اور یہ مطالبہ کیا کہ انہیں ''جنگی جرائم'' کے مرتکب کسی فرد کی موت سے کم سزا منظور نہیں۔ جس کے بعد حکومت نے اس ٹربیونل میں یہ ترمیم بھی کر لی کہ اگروہ کسی فیصلے سے متفق نہ ہو تو وہ اس کے خلاف اعلیٰ عدالت میں جا سکتی ہے۔اول تو وار کرائم ٹربیونل کا پس منظر ہی بنگالی حکومت کا خبث باطن ظاہر کرنے کو کافی تھا مگر اس فیصلے نے تو پس پردہ حکومت کی نیت کو دنیا کے سامنے عیاں کر دیا۔

پھراس ٹربیونل کی ایک حقیقت اس وقت سامنے آئی جب مارچ2013ء میں وارکرائم ٹربیونل کے چیف جج ''جسٹس نظام الحق ناظم'' کی دسمبر 2012ء سے مارچ2013ء تک کی 17گھنٹے سے زائد کی سکائپ ریکاڈنگ اور تقریباً 230 ای میلز منظرعام پر آئیں۔ جس میں وہ برسلز میں مقیم بیرسٹر احمد ضیاء الدین سے ٹربیونل کے حوالے سے گفتگو کر رہے تھے ۔ان میں سے ایک سکائپ ریکارڈنگ میں جسٹس نظام تو یہاں تک کہہ رہے تھے کہ
''عوامی لیگی حکومت بالکل پاگل ہو گئی ہے۔ وہ سولہ دسمبر سے پہلے پہلے تمام مقدموں کا فیصلہ چاہتے ہیں، مجھ پر مسلسل دباؤ ہے۔''

مزید یہ کہ
''آج شام ایک حکومتی وزیرنے مجھ سے ملاقات کی ہے اور مجھے یہ مقدمات جلد سے جلد نمٹانے کا کہا ہے، حکومت اس حوالے سے بالکل دیوانی ہو چکی ہے۔''

لیکن اس ریکارڈنگ کا اثر یہ ہوا کہ 11اپریل 2013ء کو بنگالی صحافی 'محمود الرحمن' کو ''سائبر کرائم ایکٹ'' کی آڑ میں گرفتار کرلیا گیا کیونکہ وہ اپنے اخبار 'امر دیش' کے ذریعے حکومت اور ججوں کی ملی بھگت منظرعام پر لایا تھا۔ یہ سچ حسینہ واجد کی حکومت کے لئے ناقابل برداشت تھا۔ اس لئے اس کی پاداش میں محمود الرحمن پر غداری کا مقدمہ قائم کردیا گیا لیکن سکائپ ریکارڈنگ میں کس حد تک صداقت تھی اس کا علم اس ہی بات سے ہو جاتا ہے کہ اس ریکارڈنگ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی وارکرائم ٹربیونل کے چیف جج محمد نظام الحق ناظم نے 'ذاتی وجوہات' کا بہانہ بناتے ہوئے استعفیٰ دے دیا۔ مگر دوسری جانب ڈھٹائی کی انتہا کرتے ہوئے حسینہ واجد نے''جسٹس فضل کبیر'' کو چیف جج بناتے ہوئے ایک نیا ٹربیونلتشکیلدیا اور کہا کہ'' کسی کے جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا، کارروائی جاری رہے گی۔''

اس ٹربیونل کی اوٹ لے کر جس طرح پوزیشن جماعتوں بالخصوص جماعتِ اسلامی کے لیڈروں کو سزائیں سنائی جاہی ہیں ۔جماعت اسلامی کے اکیانوے سالہ سابق امیر غلام اکبر کی نوے سال قید دی گئی جو دوران قید ہی رحلت فرما گئے، پھر ملا عبد القادرکی پھانسی کے بعد بھی ''حسینہ واجد'' کا پیٹ نہیں بھرا۔ اس کے بعد امیر جماعتِ اسلامی بنگلا دیش مطیع الرحمٰن نظامی سمیت 14مزیدلوگوں کی سزائے موت سنائی گئی اور اب جماعت کے ایک اور سینئر رہنما میر قاسم علی کو بھی سزائے موت سنا دی گئی ہے۔

اگرچہ اس طرز عمل پر پوری دنیاکو تفتیش ہے لیکن جب پاکستان کی وزارتِ خارجہ کی جانب سے اس معاملے میں خاموشی برتی جاتی ہے تو حیرانی ہوتی ہے کیونکہ دوسری اسلامی سربراہی کانفرنس لاہور کے دوران پاکستان کے وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو اور بنگلادیش کے وزیر اعظم شیخ مجیب الرحمٰن کے مابین ایک معاہدہ طے پایا تھا۔ جس کے تحت پاکستان نے بنگلادیش کو تسلیم کیا تھا۔ اسی معاہدے کے تحت بنگلادیشی حکومت کسی شہری پر کوئی ایسا مقدمہ نہیں چلا سکتی جو 16دسمبر 1971ء سے پہلے کا ہو۔

2010ء میں جب وار ٹربیونل کے قیام کی بات کی گئی تھی تو تمام انسانی حقوق کی تنظیموں کی حمایت حسینہ واجد حکومت کے ساتھ تھی مگر آج تمام انسانی حقوق کی تنظیمیں اس ٹربیونل کو ایک ڈھونگ قرار دے رہی ہیں۔ برطانوی جریدے اکانومسٹ نے تو یہاں تک لکھا کہ'' ٹربیونل کے سربراہ کو حسینہ واجد حکومت نے ہدایات دیں کہ اسے کیا کرنا ہے،مقدمے کی سماعت کے بعد ٹربیونل نے جو فیصلہ دینا تھااس کا متن بھی حکومتی کارندوں نے ٹربیونل کے سربراہ تک پہنچا دیا تھا، جسے من و عن پڑھ کر سنا دیا گیا''

آج بنگلادیشی حکومت جس روش پر چل رہا ہے اگر یہ ریت قائم ہو گئی تو پھر دنیا بھر میں امن و سکون ایک خواب کا نام ہو جائے گا کیونکہ ابھی سکاٹ لینڈ کی کم و بیش 48 فیصد آبادی نے برطانیہ سے آزادی کے لئے ووٹ کاسٹ کیا ہے ، اس طرح تو برطانیہ کو ان سب کو پھانسی دے دینی چاہئے کیونکہ یہ سب حکومت برطانیہ کے غدارہیں۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں