کم عمر ہیروئن
سنگیتا بھی کبھی کبھی کسی فلمی تقریب میں نظر آ جاتی تھی مگر اسے ان دنوں فلمی دنیا سے ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں تھی۔
ہندوستان کی فلم انڈسٹری میں برسوں تک پختہ عمر کی عورتیں ہی ہیروئن ہوا کرتی تھیں اور نصف صدی سے زیادہ عرصے تک چالیس، پینتالیس سال کی خواتین ہیروئنوں کے روپ میں پیش کی جاتی رہیں، یہ تو فلم ساز، ہدایت کار راج کپور کو کریڈٹ جاتا ہے کہ اس نے اپنے بیٹے رشی کپور کے ساتھ پہلی بار ایک نوخیز اور نو عمر نازک اندام لڑکی ڈمپل کو اپنی فلم ''بوبی'' میں بطور ہیروئن پیش کیا، اسی طرح پاکستان میں اداکار، فلم ساز و ہدایت کار رحمان، راج کپور سے بھی دو قدم آگے نکل گئے اور انھوں نے اپنی فلم ''کنگن'' میں کراچی کی ایک لڑکی پروین کو سنگیتا کا نام دے کر اپنی فلم میں ہیروئن بنا کر پیش کیا۔
اس وقت سنگیتا نویں جماعت میں پڑھتی تھی اور مشکل سے اس کی عمر تیرہ، چودہ سال کے قریب ہو گی۔ وہ دن سنگیتا کے کھیلنے کودنے کے دن تھے مگر اس کے والدین کی رضامندی کے ساتھ ہی اسے فلم ''کنگن'' میں ہیروئن کا کردار دے کر اس کے ہاتھوں میں کتابوں کے بجائے فلم کا اسکرپٹ تھما دیا گیا۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب مشرقی پاکستان کی فلم انڈسٹری میں اداکار رحمان ایک مقبول ترین ہیرو کی حیثیت سے ڈھاکا کی فلم انڈسٹری پر چھایا ہوا تھا۔ بحیثیت اداکار تو اس کا ایک بڑا مقام تھا ہی مگر وہ ایک کامیاب فلم ساز و ہدایت کار بھی تھا اور مشرقی پاکستان کے ساتھ مغربی پاکستان کے فلم بینوں میں بھی وہ بہت پسند کیا جاتا تھا۔
جب اداکار رحمان کار کے ایک حادثے میں بدقسمتی سے اپنی ایک ٹانگ گنوا بیٹھا تھا تو مشرقی پاکستان سے زیادہ مغربی پاکستان کی فلم انڈسٹری کے لوگوں نے رحمان کا بڑا ساتھ دیا ، کئی ہیروئنوں نے اس کی آیندہ فلموں میں مفت کام کرنے کی آفرز دیں۔ مشہور ہیروئن دیبا نے تو اتنا زیادہ تعاون کیا کہ وہ رحمان کی ایک فلم میں کام کرنے کے لیے اپنے کرائے سے ڈھاکا گئی اور اس کی پوری فلم مکمل کرا کے اپنے کرائے ہی سے واپس لاہور آئی۔ اسی طرح اداکارہ بابرہ شریف نے بھی رحمان کی فلم میں برائے نام معاوضے پر کام کیا۔
جب رحمان نے اپنی فلم کنگن کا آغاز کیا تو وہ کراچی کی ایک کم سن لڑکی کو ڈھاکا لے گیا اور اس طرح پروین اپنے والدین، مہتاب بیگم اور والد طیب رضوی کے ساتھ فلم ''کنگن'' کی شوٹنگ کے لیے اپنے اسکول اور کتابوں کو چھوڑ کر فلم کی شوٹنگ کے لیے ڈھاکا چلی گئی۔ یہاں میں یہ بات بھی واضح کرتا چلوں کہ پروین کی ایک چھوٹی بہن نسرین بھی تھی جو ابھی بہت چھوٹی تھی، پروین کی امی مہتاب بیگم انڈیا کی نامور اداکارہ مینا کماری کو بہت پسند کرتی تھیں اور مینا کماری ان کا آئیڈیل تھی ۔ مہتاب بیگم کو فلموں میں کام کرنے کا شوق تھا اور ان کے شوہر طیب رضوی بھی اپنی بیگم کو ہیروئن کے روپ میں دیکھنا چاہتے تھے۔
مہتاب بیگم کو ہدایت کار اقبال اختر نے اپنی فلم ''دوسری ماں'' میں ایک سائیڈ کردار میں کاسٹ کیا۔ اس طرح مہتاب بیگم کی برسوں کی مراد بر آئی مگر بدقسمتی سے فلم ''دوسری ماں'' بری طرح فلاپ ہو گئی اور اس طرح مہتاب بیگم پر فلم انڈسٹری کے دروازے بند ہو گئے۔ شاید انھوں نے اسی وقت اپنے دل میں یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ وہ مستقبل میں اپنی بیٹیوں کو فلمی دنیا سے روشناس کرائیں گی اور انھیں ایک نہ ایک دن ہیروئن ضرور بنائیں گی۔ ان دنوں مشہور فلمی ہفت روزہ نگار کے مالک و ایڈیٹر الیاس رشیدی سے طیب صاحب کی دوستی ہو گئی اور کراچی کی بڑی بڑی فلمی تقریبات میں مہتاب بیگم کو بھی بلایا جانے لگا اور اس طرح کراچی آنے والے لاہور کے بڑے بڑے فنکاروں سے بھی مہتاب بیگم کی اچھی خاصی شناسائی ہوتی چلی گئی۔
سنگیتا بھی کبھی کبھی کسی فلمی تقریب میں نظر آ جاتی تھی مگر اسے ان دنوں فلمی دنیا سے ذرا برابر بھی دلچسپی نہیں تھی ۔ وہ ایک پتلی دبلی خوب صورت، نازک اندام اور بہت ہی کم سن نظر آتی تھی۔ میں نے بھی سنگیتا کو پہلی بار اس کی ایک سالگرہ کی تقریب میں دیکھا تھا۔ اس کی سالگرہ کی تقریب ہوٹل میٹروپول میں منائی گئی تھی، جس میں کراچی کی ساری فلمی پریس کے لوگ موجود تھے۔ تقریب میں کئی صنعت کار اور بہت سی مشہور شخصیتیں بھی موجود تھیں۔ میں ان دنوں نگار ویکلی کے لیے مضامین لکھا کرتا تھا اور مہتاب بیگم نگار کے دفتر آتی رہتی تھیں۔
ہاں تو بات ہو رہی تھی، سنگیتا کی سالگرہ کی تقریب جس کا سارے شہر میں چرچا تھا۔ تقریب بڑے شاندار پیمانے پر منائی گئی اور سارے اخبارات نے بڑی بڑی تصویریں شایع کیں، اب سنگیتا کا نام اخبارات کے لیے عام ہو چکا تھا اور فلمی دنیا میں اس پھول چہرے کی خوشبو بھی پھیلتی جا رہی تھی۔ اسی دوران میرے ایک دوست سعود حسنی نے اپنے ایک اور دوست شاہد کے ساتھ ایک فلم بنانے کا پروگرام بنایا، میرے ذہن میں نوجوان نسل کی ایک کہانی کا آئیڈیا تھا جو میں نے سعود حسنی کو سنایا، اسے وہ آئیڈیا بہت اچھا لگا، اس نے کہا یار ہمدم! تم اس آئیڈیے کو اسکرپٹ کی صورت میں مکمل کرو، اسکرپٹ مکمل ہونے کے بعد فلم کا ایک اچھا سا نام بھی تجویز کریں گے اور تم فلم کے تمام گیت بھی لکھو گے، میں چاہتاہوں کہ تم ہمارے ساتھ ورکنگ پارٹنر بن کر ہمارا ساتھ دو۔ یہ سن کر مجھے بڑی خوشی ہوئی اور میرے حوصلے مزید بلند ہوتے چلے گئے۔
میں نے دن رات محنت کر کے دو ماہ میں فلم کا اسکرپٹ مکمل کر لیا، میرا ہفت روزہ فلمی اخبار نگار سے تعلق تھا اور ''نگار'' پاکستان فلم انڈسٹری کا سرتاج اخبار کہلاتا تھا۔ آہستہ آہستہ میرے تعلقات صنعت کاروں سے بھی ہوتے چلے جا رہے تھے اور بعض صنعت کاروں کے میں نے جو دلکش انٹرویوز نگار میں لکھے تھے ان کی وجہ سے میں کچھ آرٹسٹوں کی گڈ بک میں تھا، ان دنوں ایسٹرن اسٹوڈیو کے بعد کراچی کے دوسرے اسٹوڈیو ماڈرن اسٹوڈیو نے بھی کام کا آغاز کر دیا تھا۔ وہاں کیمرہ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ کیمرہ مین مدد علی مدن کا معاون کیمرہ میں سعید رضوی تھا، جس سے میری دوستی تھی، میں نے کہا یار مجھے ایک فلم ملی ہے۔
اس میں جلد ہی تم فل فلیش کیمرہ مین کی حیثیت سے کام کرو گے۔ وہ بڑا خوش ہوا۔ سعود حسنی، شاہد اور میں نے بہت سے نام تجویز کیے جن میں ایک نام ''تم سا نہیں دیکھا'' پر سب کا اتفاق ہو گیا اور پھر فلم کا نام فائنل کر دیا گیا۔ اب فلم کے آرٹسٹ فائنل کرنے کا مرحلہ درپیش تھا۔ یہ ذمے داری بھی سعود حسنی نے میرے سپرد کر دی کہ میرے فلم آرٹسٹوں سے اچھے تعلقات ہیں۔ ان دنوں کراچی میں ''محمد بن قاسم'' کے نام سے ایک تاریخی فلم کا آغاز بڑے کروفر کیا گیا تھا، مگر فلم کا سبجیکٹ بہت ہی ہیوی (Heavy) تھا، اس فلم میں بڑے سرمائے کی ضرورت تھی۔ اس فلم کا ہیرو ناظم تھا جو ایک سنارا تھا اور اس نے کچھ اپنا پیسہ بھی اس میں لگایا ہوا تھا۔ میرا بھی اچھا دوست تھا، میں نے اس کو اپنی فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی کہانی سنائی، جو بہت پسند آئی، اس کا ایک کالج بوائے کا نٹ کھٹ کردار تھا، میرے تعلقات کی وجہ سے ناظم نے 101 روپے لے کر فلم سائن کر دی۔
اب ہیروئن کا انتخاب کرنا تھا۔ ایک دن میں ڈرتے ڈرتے سنگیتا کے گھر گیا اور سنگیتا کی والدہ مہتاب بانو سے اپنا مدعا بیان کیا کہ ایک فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' میں لکھ رہا ہوں اور میری خواہش ہے کہ سنگیتا اس فلم میں ہیروئن کا کردار ادا کرے، جب کہ ہیرو کے طور پر اداکار ناظم کو کاسٹ کر لیا ہے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی جب میڈم مہتاب نے بغیر ماتھے پہ کوئی شکن ڈالے کمال شفقت کے ساتھ میری آفر کو قبول کر لیا اور پھر انھوں نے ایک عنایت یہ بھی کی کہ ہم یونس ہمدم ایڈوانس کے طور پر تم سے ٹوکن منی صرف 201 روپے لیں گے۔ میرے دل میں اندر ہی اندر خوشی کی گھنٹیاں سی بجنے لگی تھیں، میں نے ان کا بہت بہت شکر ادا کیا اور پھر جیب سے نکال کر فلم کا ایک کنٹریکٹ ان کے سامنے رکھ دیا اور 201 روپے ان کی نذر کر دیے۔ اس طرح فلم ''تم سا نہیں دیکھا'' کی ہیروئن سائن ہو گئی۔
میں نے جب یہ خبر اسی رات ہوٹل جہاں ہماری روزانہ بیٹھک رہتی تھی ہدایت کار سعود حسنی اور فلم ساز شاہد کو سنائی تو انھوں نے میرا ماتھا چوم لیا۔ اس رات ہم دو بجے تک ہوٹل میں چائے پیتے رہے۔ ایک دو ہفتے میں فلم کی مزید کاسٹ بھی سائن کر لی گئی جس میں اداکار کمال ایرانی، اداکارہ سنتوش رسل (ریڈیو کی مشہور فنکارہ) اور قاضی واجد کے ساتھ ساتھ معین اختر کو بھی فلم میں شامل کر لیاگیا کہ قاضی واجد اور معین اختر دونوں ہی میرے بہت اچھے دوست تھے۔ اب فلم کی کاسٹ مکمل ہو چکی تھی بس شوٹنگ ہونی تھی۔