میڈیا واچ ڈاگ – اس دم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہونگے

جون ایلیا کو ہم سے جدا ہوئے آج 12 برس ہو گئے ہیں لیکن ان کی شاعری کی صدا کی گونج آج بھی اسی طرح سنائی دیتی ہے۔


شہباز علی خان November 08, 2014
جون ایلیا کو ہم سے جدا ہوئے آج 12 برس ہو گئے ہیں لیکن ان کی شاعری کی صدا کی گونج آج بھی اسی طرح سنائی دیتی ہے۔ فوٹو فائل

ISLAMABAD: شاعری ابتدائے آفرین سے انسان کا پسندیدہ مشغلہ رہا ہے جب انسان نے لکھنا اور پڑھنا بھی نہیں سیکھا تھا۔شاعری انسان کی بنیادی فطرت کی عکاسی کرتی ہے۔فن اور ادب جذبات کے ترجمان ہوتے ہیں اور کسی بنیادی سچائی سے ہی شاعری جنم لیتی ہے ،شاعر کی تعریف یہ نہیں کہ وہ صرف شعر بیان کرتا ہے بلکہ وہ تو ایک تخلیق کار ہوتا ہے جس کے وجود سے ایسی کرنیں پھوٹتی ہیں جن سے ارد گرد خوبصورت رنگ بکھر جاتے ہیں، یہ خداداد صلاحیت ہوتی ہے جو ماحول اور تربیت کے ساتھ نکھرتی جاتی ہے۔ جون ایلیا کا شمار ایسی ہی ادبی شخصیات میں ہوتا ہے وہ 14دسمبر 1931ء میں ہندوستان میں اتر پردیش کے شہر امروہہ میں پیدا ہوئے۔وہ خود لکھتے ہیں کہ ؛

" وہ ایک مشرق رویہ مکان تھا ۔اس کا طرہ دالان آخر شب سے آفتاب کا مراقبہ کیا کرتا تھا، اس مکان میں رات دن طبع اور روشنائی کی روشنی پھیلی رہتی تھی۔شعر و ادب کا سلسلہ ہمارے یہاں کئی پشتوں سے چلا آرہا تھاجب میں نے ہوش کی آنکھیں کھولیں تو اپنے گھر میں صبح شام تک شاعری، تاریخ،علم ہئیت (Astronomy) اور فلسفے کا دفتر کھلا دیکھا، بحث و مباحثے کا ہنگامہ گرم رہتا ،بابا کئی علوم پر دسترس رکھتے تھے۔ ہمارے گھر میں عربی، فارسی، انگریزی ،ہیبریو( عنبرانی ) کا استعمال کثرت سے ہوتا تھا،علم ہئیت سے خاص شغف تھا اور مسائل سے متعلق رصد گاہ گرینچ( GreenWich Observatory) انگلستان کے ماہرین، علماء اور سیاستدانوں سے میرے والد کی خط و کتابت رہتی تھی۔ ہمارے بابا علامہ سید شفیق حسن ایلیا چار بھائی تھے اور چاروں کے چاروں شاعر تھے اور بابا کے والد سید نصیر حسن نصیر بھی شاعر تھے۔ بابا کے دادا سید امیر حسن امیر فارسی اور اردو کے شعر کہتے تھے۔شاعری میرے ماحول میں جزوے از پیغمبری نہیں بلکہ مکمل پیغمبری سمجھی جاتی تھی۔جس طرح بابا چار بھائی تھے اسی طرح ہم بھی چار تھے۔ رئیس امروہوی، سید محمد تقی، سید محمود عباس اور میں۔"

جون ایلیا نے آٹھ سال کی عمر میں پہلا شعر کہا؛

چاہ میں اس کی تمانچے کھائے ہیں
دیکھ لو سرخی مرے رخسار کی

شاعری کی ایک خوبی اظہار محبت بھی ہے مگر اس معاملے میں جون ایلیا ایک مختلف ہی سوچ کے حامل تھے ۔ان کے اظہار کا طریقہ عجیب و غریب تھا کہ اگر وہ سامنے آرہی ہوتی تو وہ اسی طرف سے منہ پھیر لیتے تھے، اور اسکا مطلب یہ کہنا ہوتا تھا کہ وہ اس سے محبت کرتے ہیں ۔ایک دن کا ذکر ہے کہ وہ لڑکی ان کے گھر آئی اور آپ اس وقت کھانا کھارہے تھے اسے دیکھتے ہی لقمہ نگل لیا کیونکہ محبوبہ کے سامنے لقمہ چبانے کا عمل انہیں انتہائی ناشائستہ غیر جمالیاتی اوربیہودہ محسوس ہو رہا تھا۔ان کی شاعری میں اگر رومان ملتا ہے تو اسکے ساتھ زندگی کی حقیقتیں بھی جیسے کہ؛
تم بہت جاذب و جمیل سہی
زندگی جاذب و جمیل نہیں
نہ کرو بحث ہار جاؤ گی
حسن اتنی بڑی دلیل نہیں۔

ان کی شاعری صرف انسانی احساسات کا نام ہی نہیں ہے بلکہ زندگی کے تمام رنگوں کے خدو خال کو نکھار کر سامنے پیش کرنے کا نام ہے۔زندگی کے کچھ رنگ ایسے ہوتے ہیں جن پر زندگی ٹھہر سی جاتی ہے ۔یہ رنگ بچھڑنے، محبت اور نفرت کے ہوتے ہیں ،جون ایلیا کی خوبصورتی یہی تھی کہ وہ ایک کینوس پیپر پر بہت سے رنگ ایک ہی برش سے بھر دیتے تھے اور ہر رنگ اپنی علیحدہ شناخت بیان کرتا، جیسے کہ؛
عشق سمجھے تھے جسکو وہ شاید
تھا بس اک نارسائی کا رشتہ
میرے اور اسکے درمیاں نکلا
عمر بھر کی جدائی کا رشتہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے یہ بازار جھوٹ کا بازار
پھر یہی جنس کیوں نہ تولیں ہم
کر کے اک دوسرے سے عہد وفا
آؤ کچھ دیر جھوٹ بولیں ہم
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جب ہم کہیں نہ ہونگے تب شہر بھر میں ہونگے
پہنچے گی جو نہ اس تک ہم اس خبر میں ہونگے
تھک کر گرینگے جس دم بانہوں میں تیری آکر
اس دم بھی کون جانے ہم کس سفر میں ہونگے

ان کے شاعری مجموعوں میں شاید(1991)، یعنی (2002)، گمنام (2002)، لیکن (2006)، گویا (2008) شامل ہیں۔ انہیں صرف شاعری پر ہی نہیں بلکہ تاریخ، اسلامی مشرقی و مغربی علوم کے ساتھ ساتھ سائنس اور فلسفہ پر بھی عبور حاصل تھا ۔ وہ کئی جرائد و رسائل سے وابستہ رہے جہاں ان کی ملاقات زاہدہ حنا سے ہوئی مگر اس اس شادی کا انجام علیحدگی پر ہوا۔

اس ناکامی نے انہیں بہت بڑے صدمے سے دوچار کیا اور 71برس کی عمر میں آج ہی کے دن 8 نومبر 2002ء میں وفات پائی۔ جون ایلیا کو ہم سے جدا ہوئے آج 12 برس ہو گئے ہیں لیکن ان کی شاعری کی صدا کی گونج آج بھی اسی طرح سنائی دیتی ہے۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں