بات کچھ اِدھر اُدھر کی ہمارا اقبال بلند ہو

اگر ایک بار آپ کو اقبال فہمی کی منزل عطا ہو گئی تو پھر آپ بھی یہ کہتے ہوئے نہ تھکیں گے کہ ہمارا اقبال بلند ہو ۔


اویس حفیظ November 09, 2014
آپ کسی بھی فکر، کسی بھی نظریے کے حامل ہوں، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اقبال نے اپنے کلام میں آپ کی فکر و سوچ کی تقویت کا تمام سامان مہیا کیا ہے آخر اقبال سب کہ جو ہیں۔ فوٹو: فائل

'ہمارا اقبال بلند ہو'۔ سیاستدان صاحب نے سٹیج پر آتے ہی یہ نعرہ بلند کیا تو میں تو حیران رہ گیا ۔ یہ پہلا شخص تھا جو اپنے نعرے خود لگا رہا تھا مگر بعد میں علم ہوا کہ حکیم الامت سر ڈاکٹر علامہ محمد اقبالؒ کے یوم پیدائش کے حوالے سے ایک تقریب میں سیاستدان صاحب مہمان خصوصی تھے اور ''ہمارا اقبال'' سے ان کی مراد علامہ اقبالؒ تھے۔اقبال کی شاعری کا یہ رخ میرے لئے کچھ نیا نہ تھا کیونکہ اس قوم کیلئے اقبال کی جانے والی شاعری اُس اُس مقام پر سننے کو ملتی ہے کہ۔۔۔ الامان الحفیظ۔

مثلاً لبرٹی بازار سے گزرتے ہوئے یہ فقرہ سننے کو ملا کہ ؂
ہے دیکھنے کی چیز اسے بار بار دیکھ

عام آدمی کے لئے اس طرح کے 'اشعار ' اور ان کا مقام سمجھنا کافی مشکل ہوتا ہے مگر؂
مومن کی فراست ہو تو کافی ہے اشارہ

اگرچہ 'ذوق دید 'نے ابھی میری آنکھیں نہیں کھولی تھیں مگر جس 'چیز ' کے بارے میں یہ کہا جا رہا تھا اسے دیکھنے کے بعد واقعی اندازہ ہو گیا کہ؂
دنیا میں فقط مردانِ حُر کی آنکھ ہے بینا

آپ کسی بھی دن شام کا کوئی اخبار پکڑ لیں۔ اخبار میں طرح طرح کے ''رنگ'' دیکھنے کے بعد آپ کو بھی یقین ہو جائے گا کہ اقبال نے بالکل درست فرمایا تھا کہ ؂
وجود زن سے ہے تصویر کائنات میں رنگ

حد تو یہ ہے کہ گرلز کالج کے باہر کھڑے ہونے والے منچلے بھی اقبال کو ہی یاد کرتے ہوئے محبت فاتح عالم کی گردان الاپتے ہیں۔اور ان کے'' یقین محکم اور عمل پیہم'' سے یہ اندازہ بھی ہو جاتا ہے کہ وہ کس درجہ اقبال کے عاشق پائے گئے ہیں۔

اگر آپ اقبال فہمی اور اقبال شناسی کی منزلوں سے آشنا ہونا چاہتے ہیں تو یومِ اقبال کے حوالے سے کسی بھی تقریب میں چلے جائیں۔ اگر مائیک کیمونسٹ صاحب کے ہاتھ میں ہے تو پھر تقریر کا آغاز؂
اٹھو میری دنیا کے غریبوں کو جگا دو

جیسے قاتل مصرعے سے ہو گا اور پورے زوروں پر ثابت کیا جائے گا کہ اقبال نہ صرف کیمونسٹ فکر کے حامل تھے بلکہ یہ نظم بھی انہوں نے 'لینن'، 'سٹالن' اور'ماؤزے تنگ ' کے کہنے پر لکھی تھی تا کہ ہندوستان میں بھی کیمونزم کی بنیاد رکھی جا سکے۔وہ تو بُرا ہوا یہاں کے لوگوں کا کہ وہ اقبال کو سمجھ نہ سکے۔

اس کے بعد ایک مذہبی رہنما آئیں گے اور فرمائیں گے کہ اقبال دراصل صاحبِ راز اور صاحب حال تھے۔ وہ تو خلافت کے حامی تھے اس لئے سقوطِ خلافتِ عثمانیہ پر آپ نے فرمایا کہ؂
چاک کر دی تُرکِ ناداں نے خلافت کی قبا
سادگی مسلم کی دیکھ، اوروں کی عیاری بھی دیکھ

آپ کی تو شاعری میں جا بجا یہی پیغام ملتا ہے ۔ اسی لئے کہیں آپ؂
ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لئے
نیل کے ساحل سے لیکر تابخاک کاشغر

کا پیغام دیتے ہیں اور کہیں پر؂
اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی

کی ترغیب دیتے ہیں۔اقبال تو حدت امت مسلمہ کے قائل تھے مگر بُرا ہوا اس امت کا جو اُن کا پیغام نہ پا سکی۔اگلے لمحے جیسے ہی مائک کسی نیشنلسٹ رہنما کے ہاتھ آئے گا، آپ کو سب سے پہلے
چین و عرب ہمارا ہندوستان ہمارا

جیسا مصرعہ سننے کو ملے گالیکن کچھ دیر بعد ایک دوسرے لیڈر صاحب؂
ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن ہے اس کامذہب کا وہ کفن ہے

کے ذریعے آپ کو ایسی بھول بھلیوں میں گم کریں گے کہ آپ سوچتے رہ جائیں گے کہ کیا واقعی یہ سب اقبال کا کلام ہی ہے؟کیا واقعی اقبال نظریات کا مغلوبہ قسم کی شخصیت تھے؟ ہمارے یہاں تو اقبال بھی اک جنس بازار کی طرح بکتے ہیں۔ صبح شام جمہوریت کا راگ گانے والوں نے اقبال کو بس؂
سلطانی جمہور کا آتا ہے زمانہ
جو نقش کہن تم کو نظر آئے مٹا دو

تک ہی پڑھا ہے مگر مارشل لاء کے حامیوں نے تو کلیات اقبال میں ؂
دیو استبداد جمہوری قبا میں پائے کوب
تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری

اور ؂
جمہوریت اک طرز حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے

جیسے اشعار بھیپڑھ رکھے ہیں۔مذہب کے نام پر سیاست کرنے والے ؂
جدا ہو دیں سیاست سے
تو رہ جاتی ہے چنگیزی

جیسے اشعار پر عاشق ہیں اورجو ذرا سیکولر قسم کے لوگ ہیں وہ ؂
یہ بتانِ عصر حاضر کہ بنے ہیں مدرسے میں
نہ ادائے کافرانہ، نہ تراش آزرانہ

جیسے اشعار سے آگے نہیں بڑھ سکے۔اہل تصوف کے ہاں اقبال کے کل کلام کا حاصل صرف یہ ایک شعر ہے کہ؂
گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے تیرا
کہاں سے آئے صدا لا الہ الا اللہ

مگر جہاد کے داعین ؂
الفاظ و معنی میں تفاوت نہیں لیکن
ملا کی اذاں اور مجاہد کی اذاں اور

جیسے اشعار کو ہی اقبال کا کل اثاثہ و کل کائنات متصور کیے بیٹھے ہیں۔غرض آپ کا تعلق کسی بھی شعبہ زندگی سے ہو آپ کو قطعاً کسی فکر کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ اقبال آپ ہی کے تھے۔ آپ کسی بھی فکر ، کسی بھی نظریے کے حامل ہوں ، کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ اقبال نے اپنے کلام میں آپ کی فکر و سوچ کی تقویت کا تمام سامان مہیا کیا ہے۔بس اگرضرورت ہے تو اس کلام کو کھولنے اور پڑھنے کی۔اگر ایک بار آپ کو اقبال فہمی کی منزل عطا ہو گئی تو پھر آپ بھی یہ کہتے ہوئے نہ تھکیں گے کہ ہمارا اقبال بلند ہو ۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں