ایک اور دو نمبر انسان
بات ہو رہی ہے ان اعلیٰ افسروں کی جو شیر کی کھال پہنے ہوئے بھیڑیے ہیں یا بکری۔
مجھے سرکاری ملازمت کے دوران ہی معلوم ہو گیا تھا کہ ڈاکٹر سیاستدان اور وکیل کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ ڈاکٹری چونکہ پڑھی نہیں تھی لہٰذا جب ریٹائرمنٹ نزدیک آ گئی تو ہومیوپیتھی سے متعلق کتابیں پڑھیں اور گھریلو ملازموں وغیرہ کی چھوٹی موٹی بیماریوں کا انھیں ادویات دے کر مفت علاج کرنے میں دلچسپی لینا شروع کر دی۔ گلی محلے کے غریب لوگوں تک خبر پہنچی تو شام کے وقت انھوں نے بھی دوا کے لیے آنا شروع کر دیا۔
غریب مریض مجھے ڈاکٹر صاحب کہہ کر بلاتے تو اندر سے شرمندگی ہونے لگتی۔ بیوی بچوں نے جب مذاق اڑایا تو میں نے شوق ترک کیا جب کہ میرے ایک سینئر کولیگ نے تو باقاعدہ کورس کرنے کے بعد مصروف رہنے کے لیے فری ڈسپنسری بھی قائم کر رکھی ہے۔ جہاں ایک خدا ترس ہومیو پیتھک ڈاکٹر دو گھنٹے کلینک بھی کرتا ہے۔ میرا ایک دوست اور ریٹائرڈ سینئر کولیگ آج کل اپنے گاؤں میں فری پرائمری اسکول چلانے کا منصوبہ بنا رہا ہے جسے وہ ورثے میں ملنے والی زرعی اراضی سے فنانس کرے گا۔ لیکن میرے پیش نظر تو معاش، مصروفیت اور خدمت تینوں پر منصوبہ بندی کرنا تھی۔ تینوں محاذوں پر کامیابی محض فضل ربی ہے ورنہ سول ہوں یا ملٹری ریٹائرڈ افسروں کی اکثریت یا خود گوشہ گمنامی میں چلی جاتی ہے یا لوگ انھیں چلا ہوا کارتوس سمجھ کر ان سے کنی کتراتے ہیں۔
ہمارے ایک کالم نویس دوست نے گریڈ بائیس کے ایک افسر کے روزمرہ اور زندگی کا نقشہ کھینچا ہے۔ اس پر کچھ میری بھی ذمے داری بنتی ہے کہ آج کل کے 56-57 سال کی عمر پھلانگ چکے ایسے افسروں کا ذکر کروں دراصل گریڈ 22 کے اکثر افسر گھریلو تنہائی کا شکار ہو جاتے ہیں کیونکہ بیگم سرکاری گاڑی پر پرائیویٹ نمبر لگوا کر اپنی کمیٹی پارٹی یا کلب پارٹی کی وجہ سے اپنی لیڈیز پارٹیوں میں مصروف ہو چکی ہوتی ہیں۔ دو یا تینوں بچے اسکالر شپ پر بیرون ملک کسی یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں۔ تعلیم سے فارغ بچوں کو ملٹی نیشنل کمپنی جاب دے کر بیرون ملک ہی تعینات کر دیتی ہے۔
گریڈ 22 لیول پر بیرون ملک تجارتی، سفارتی، مراعاتی، باہمی گفت و شنید، ایگریمنٹ، مذاکرات، وضاحتیں، ملاقاتیں، شارٹ کورس، سمپوزیم، ورکشاپس، لیکچر اور قسم قسم کے قومی اور بین الاقوامی معاملات وغیرہ کے سلسلے میں حکومت کی نمائندگی کے لیے انھیں گھر، دفتر اور ایئرپورٹ کے درمیان شٹل کرنا پڑتا ہے۔ اسلام آباد کے علاوہ کوئٹہ کراچی پشاور لاہور میں ملاقاتیں کرنا اور میٹنگوں کو پریذائیڈ کرنا وزراء وزیر اعظم صدر بیرون ملک سے آئے وفود کے ساتھ مغز ماری، اس تمام درد سری میں سے نکل کر ریلیکس کرنے کا وقت صرف بیرون ملک دوروں کے دنوں میں ملتا ہے۔ ان ھی دوروں کے دن ہوتے ہیں جب کوئی مہربان کمپنی یا ایجنسی بیگم کا کمپلیمنٹری ٹکٹ بھی بھجوا دیتی ہے اور بیرون ملک زیر تعلیم یا ملازم بچوں سے ملاقات بھی نصیب ہو جاتی ہے۔
اہم اور پرکشش عہدوں پر تعینات ہونے کی قیمت بھی ادا کرنی پڑتی ہے۔ موصوف کو تمام صحیح یا غلط کام کرنے ہی پڑتے ہیں ظاہر ہے اوپر سے کیے گئے ایسے دس کام کرتے وقت دو تین ذاتی مفاد کے کاموں کا رسک لینے کی ترغیب و تحریک مل ہی جاتی ہے۔ جب اوپر سے بھیجی گئی Assignment کو رولز میں نرمی کر کے Through کرنے کا حکم آئے تو گریڈ 22 کے افسر کے سامنے اپنے اور اپنے دوستوں کے لیے رستہ کھل ہی جاتا ہے۔
جو تصویر میرے کالم نویس دوست نے گریڈ 22 کے افسروں کی پیش کی وہ ان کے تکبر، کروفر، رعب و دبدبے، اکڑی ہوئی گردن، اسٹاف اور ماتحتوں کے ساتھ درشت رویے وغیرہ کے متعلق تھی لیکن اس نے تصویر کا دوسرا رخ عمداً پیش کرنے سے گریز کیا۔ کیونکہ یہی فرعون نظر آنے والا افسر جب اپنی پوسٹنگ و ٹرانسفر کرنے والی اتھارٹی کا غیر قانونی و ناجائز کام کرنے کا حکم سن رہا ہوتا ہے تو اس کی سٹی گم ہوتی ہے آواز میں لکنت آ جاتی ہے۔ ٹانگیں کانپ رہی ہوتی ہیں او وہ اپنے اس باس کی پوری بات سنے بغیر یس سر، او کے سر، بہتر سر، جیسے ارشاد سر، ابھی سر کی گردان الاپ رہا ہوتا ہے لیکن اپنے کمرے میں واپس پہنچتے ہی شیر کی کھال پہن لیتا ہے۔
بات ہو رہی ہے ان اعلیٰ افسروں کی جو شیر کی کھال پہنے ہوئے بھیڑیے ہیں یا بکری، ایسے افسر ہمیشہ اعلیٰ، منافع رساں اور طاقتور پوسٹنگ حاصل کرتے ہیں۔ حکومت کسی کی بھی ہو پارٹی کوئی بھی برسراقتدار ہو وہ حکمرانوں کے منظور نظر ہوتے ہیں۔ یہی ہیں جو حسب طلب نوٹنگ ڈرافٹنگ کرتے اور کیس سمری بناتے ہیں۔ رولز ریگولیشن نرم کرنے کی راہ دکھاتے ہیں۔ کچھ حقائق چھپا جاتے اور کچھ اجاگر کرتے ہیں۔ قانونی پوزیشن توڑ مروڑ کر حاکم کو گمراہ کرتے ہیں۔ بعض معاملات کو داخل دفتر کرتے اور کچھ کو پہیے لگاتے ہیں۔ یہ الگ بات کہ اس میں حاکم کی ایما شامل ہوتی ہے۔
دوسری قسم کے افسران بھی ہیں جو پروموشن تو اپنی قابلیت اور سنیارٹی کی بنا پر حاصل کر لیتے ہیں لیکن کھڈے لائن پوسٹنگز پاتے ہیں کیونکہ وہ رولز اور قانونی پوزیشن دیکھ کر کام کرتے ہیں۔ تنخواہ پر گزارہ کرتے اور دامن داغدار نہیں ہونے دیتے۔ اعتراز کرتے اختلاف کرتے اور انکار کرتے ہیں۔ یہ ناپسندیدہ افسر ہوتے ہیں۔ افسران بالا کی پہلی قسم ہے جو سسٹم کا بیڑہ غرق کرتی، انصاف حق اور سچ کا گلا دبا کر ذاتی مفاد کے لیے نوکری کرتی ہے کرسی پر ہو تو عزت کرواتی لیکن ریٹائر ہوکر ذلت کماتی ہے جب کہ دوسری قسم ہے جن کے دم قدم سے ملک بکھرنے اور دولخت ہونے سے بچے رہتے ہیں۔ پہلی قسم ریٹائر ہوکر صرف اپنی ناجائز کمائی کے بل بوتے پر معاشرے میں زندہ رہتی ہے۔
دوسری قسم ہے جو حقیقی عزت پاتی اور قدر کی نگاہ سے دیکھی جاتی ہے۔ یہ بار بار کنٹریکٹ پر ملازمت پانے والوں کی اکثریت اسی پہلی قسم کے بے ضمیروں کے قبیلے سے تعلق رکھتی ہے۔ بھلا ہو پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کا جس کے ماہرین اب ہر خبر پر نظر تو رکھتے ہی ہیں بولنے سے پہلے اسے تولتے بھی ہیں تا کہ ملک کی باگ ڈور سنبھالنے والی نوجوان نسل کو یہ شعور بھی بروقت حاصل ہو کہ ایک نمبر اور دو نمبر سامان کارخانوں ہی میں تیار نہیں ہوتا ملک چلانے والے حکمران اور افسران بھی ایک اور دو نمبر ہوتے ہیں اور ان ھی کے فیصلوں سے ملک اور عوام بام عروج پر پہنچتے یا فنا کی وادیوں میں اتر جاتے ہیں۔