سانحہ واہگہ بارڈر
قوم دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ان کے مقابل کھڑی ہے۔
PESHAWAR:
یہ بات یقینا افسوس ناک اور تکلیف کا باعث ہے کہ گزشتہ کئی سال سے عشرہ محرم کے آغاز کے ساتھ ہی پورے ملک میں دہشت گردی کی ایک تازہ لہر عود کر آتی ہے اور دہشت گرد عناصر خودکش حملوں اور بم دھماکوں کے ذریعے درجنوں بے گناہ معصوم شہریوں کو خون میں نہلا دیتے ہیں۔
اگرچہ نواسہ رسول امام عالی مقام حضرت امام حسین کی کربلا میں دی جانے والی لازوال قربانی کی یاد و عزاداری سے منسلک ماہ مکرم محرم الحرام کے آغاز ہی سے ملک بھر میں عزاداری کی مجالس و جلوس کا سلسلہ شروع ہوجاتا ہے جس کی حفاظت کے پورے ملک کے تمام سیکیورٹی ادارے اور انٹیلی جنس ایجنسیوں کو ہائی الرٹ کردیا جاتا ہے اس کے باوجود دہشت گرد عناصر کا وطن عزیز کے کسی نہ کسی گوشے، شہر اور حساس مقام پر دہشت گردی کی خوفناک اور خون آشام کارروائی میں درجنوں لوگوں کو آگ و خون میں ڈبو دینا حکومتی ذمے داری اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی پر ایک بڑا سوالیہ نشان لگا دیتا ہے۔
حیرت اور دکھ کا مقام یہ ہے کہ کسی بھی دلخراش سانحے کے وقوع پذیر ہونے کے بعد حکومتی ٹیم کا کوئی عہدیدار یا ادارہ اپنی کوتاہی تسلیم کرنے اور ناکامی کا اعتراف کرنے کی بجائے ایک دوسرے پر ذمے داری ڈال کر خود کو بری الذمہ قرار دینے کی کوشش کرنے لگتا ہے یہی صورتحال سانحہ واہگہ بارڈر کے بعد دیکھنے میں آرہی ہے۔ وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان صاحب فرماتے ہیں کہ وزارت داخلہ کی جانب سے واہگہ بارڈر پر ممکنہ خودکش حملے کی وارننگ جاری کرتے ہوئے پنجاب حکومت کو آگاہ کردیا گیا تھا، وارننگ کے باوجود خودکش حملہ آور کو نہ روکنا بڑا سوالیہ نشان ہے اور اس بات کی مکمل تحقیقات کی جائے گی کہ اتنا بڑا سیکیورٹی لیپس کیوں کر ہوا؟
بعض انٹیلی جنس ذرایع کا بھی یہ دعویٰ ہے کہ حساس اداروں نے واہگہ بارڈر پر ممکنہ خودکش حملے کی اطلاع صبح ہی سیکیورٹی حکام کو دے دی تھی جس کے بعد واہگہ بارڈر پر سیکیورٹی کو ہائی الرٹ کرنے کے علاوہ دو مزید نئی چیک پوسٹیں بھی قائم کردی گئی تھیں۔ اس کے باوجود خودکش بمبار کا دھماکہ کردینا افسوس ناک امر ہے جس میں60 کے قریب مرد، عورتیں، بچے شہید ہوگئے اور تین رینجرز اہلکاروں نے بھی جام شہادت نوش کیا۔
خدا نخواستہ اگر خودکش بمبار تمام چیک پوسٹوں سے گزر کر پریڈ کے مقام پر پہنچ کر دھماکہ کرتا یا بھارتی حدود میں داخل ہوکر کارروائی کرتا تو ذرا سوچیے کہ کیسے المناک حادثے سے دوچار ہونا پڑتا۔ ہندوستان کا متعصب میڈیا اور بھارت میں پاکستان و مسلمان دشمن مودی حکومت آسمان سر پر اٹھا لیتی، ہماری مشرقی سرحدوں پر کیسی افراتفری مچی ہوتی ۔ اگرچہ ہم اس امکانی خطرے سے محفوظ رہے واہگہ بارڈر سانحے سے جن سوالوں نے جنم لیا ہے ان کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے۔
واہگہ بارڈر پر رینجرز کی پرجوش پریڈ اور پرچم کی تقریب روزانہ کا معمول ہے جسے دیکھنے کے لیے زندہ دلان لاہور کے علاوہ ملک کے دیگر شہروں سے آئے ہوئے لوگ بھی ملی جوش و جذبے کے جوق در جوق آتے ہیں۔ یہ امر یقینا خوش آیند اور پوری قوم کے لیے حوصلے و تقویت کا باعث ہے کہ سانحہ واہگہ بارڈر کے دوسرے ہی روز ہونے والی معمول کی پریڈ میں بھی اہلیان لاہور جن میں خواتین اور بچوں کی بڑی تعداد شامل تھی، بھرپور قومی جذبے کے ساتھ شرکت کی اور وہی فضا نعرہ تکبیر اللہ اکبر اور پاکستان زندہ باد کے فلک شگاف نعروں سے گونجتی رہی گویا عوام نے دہشت گردوں کو ان کی بزدلانہ کارروائیوں کا بھرپور جواب دیتے ہوئے یہ بتا دیا ہے کہ ان کا حوصلہ خودکش حملوں، بم دھماکوں اور ٹارگٹ کلنگ سے پست نہیں کیا جاسکتا پوری قوم دہشت گردوں کے عزائم کو ناکام بنانے کے لیے سیسہ پلائی دیوار کی طرح ان کے مقابل کھڑی ہے اور دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج اور سیکیورٹی اداروں کے اٹھائے گئے تمام اقدامات اور فیصلوں کی بھرپور حمایت کرتی ہے۔
مذکورہ پریڈ میں کورکمانڈر لاہور لیفٹیننٹ جنرل نوید زمان سمیت دیگر اعلیٰ حکام نے بھی شرکت کی اس موقع پر کورکمانڈر کا کہنا تھا کہ پریڈ میں عوام کی بھرپور شرکت سے ثابت ہوگیا کہ وہ دہشت گردی سے دبنے اور ڈرنے والے نہیں۔ قوم کے حوصلے بلند ہیں اور دہشت گرد قوم کو کبھی ہرا نہیں سکتے۔ مذکورہ سانحے پر وزیر اعظم نواز شریف، سابق صدر آصف علی زرداری، پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری اور ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین و دیگر سیاسی قائدین و رہنماؤں نے گہرے دکھ اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے دہشت گردوں سے آہنی ہاتھوں سے نمٹنے کی ضرورت پر زور دیا۔
مقام اطمینان ہے کہ یوم عاشور خیریت سے گزر گیا سیکیورٹی کے فول پروف انتظامات کے باعث ملک کے کسی شہر میں دہشت گرد عزاداران حسین کے جلوسوں کو نشانہ بنانے میں کامیاب نہ ہوسکے۔ بالخصوص کراچی، کوئٹہ اور پشاور جیسے حساس علاقے دہشت گردی کی کارروائی سے محفوظ رہے جس پر وزیر اعظم نواز شریف نے صوبائی حکومتی اور سیکیورٹی اداروں کی کارکردگی کو سراہا جس کے بجا طور پر وہ مستحق ہیں ۔ اس حوالے سے کراچی شہر کی حساسیت کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ کہا جا رہا ہے کہ واہگہ بارڈر حملے کی ذمے داری کالعدم تنظیم تحریک طالبان، جنداللہ اور جماعت الاحرار نے قبول کی ہے اور اس حملے کی ساری پلاننگ کراچی میں کی گئی۔
شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن کے بعد ان خدشات کا برملا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ دہشت گرد عناصر جائے پناہ کی تلاش میں ملک کے دیگر شہروں بالخصوص کراچی میں داخل ہو رہے ہیں۔ یہاں پھر سے منظم و متحد ہوکر دہشت گردی کی کارروائیاں کرسکتے ہیں۔ اس خطرے کے پیش نظر صوبائی حکومت نے سیکیورٹی اداروں کو ہائی الرٹ کر رکھا ہے بالخصوص کراچی میں تعینات رینجرز پوری طرح مستعد ہے اور ڈی جی رینجرز میجر جنرل بلال اکبر اپنی پیشہ وارانہ مہارت کے ساتھ شرپسند عناصر کا تعاقب کر رہے ہیں۔
کراچی کی سینٹرل جیل میں قید خطرناک قیدیوں کو رہائی دلانے کے لیے ان کے ساتھیوں نے قریبی مکان سے ایک سرنگ کھود کر ان تک پہنچنے کی کوشش کی لیکن رینجرز اہلکاروں کو انٹیلی جنس اداروں نے بروقت آگاہ کیا اور رینجرز کی کارروائی سے یہ خطرناک منصوبہ ناکام ہوگیا تاہم خطرات پوری طرح ٹلے نہیں ہیں۔ اگرچہ پاک فوج جنرل راحیل کی قیادت میں شمالی وزیرستان میں جاری آپریشن ضرب عضب کے ذریعے دہشت گردوں کا قلع قمع کر رہی ہے اور 90 فیصد سے زائد علاقے کو کلیئر کرالیا گیا ہے لیکن اس کے ردعمل میں واہگہ بارڈر سے بھی شدید تر سانحہ رونما ہونے کے امکان کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔
مغربی و مشرقی سرحدوں سے مداخلت کاروں کی آمد کا خطرہ بدستور موجود ہے ادھر داعش کی شکل میں ایک نیا خطرہ سر پہ منڈلا رہا ہے اور کالعدم تنظیموں سے منحرف و مایوس عناصر تیزی سے داعش میں شامل ہو رہے ہیں جو نئی قوت کے ساتھ حکومتی، سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کے لیے آیندہ دنوں میں خطرناک چیلنج کی صورت میں سامنے آسکتے ہیں۔
دہشت گردی کے امکانی خطرات کے پیش نظر ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت اور سیکیورٹی کے ذمے دار تمام ادارے ہمہ وقت ہائی الرٹ رہیں، حساس مقامات کی سیکیورٹی کو فول پروف بنایا جائے، قومی سلامتی پالیسی کے خدوخال پر نئے سرے سے غور کے لیے حکومت پارلیمنٹ کا اجلاس بلائے، ہر سانحے کے بعد ''سیکیورٹی لیپس'' کی گردان کرنے اور ایک دوسرے کو قصور وار ٹھہرانے کی روش تبدیل ہونی چاہیے۔ حکومت اور سیکیورٹی ادارے قیام امن کے ذمے دار ہیں اپنی خامیوں و کمزوریوں کو دور کریں اور باہمی روابط کو مزید مربوط اور مستحکم بنائیں، دہشت گردوں کے ناپاک عزائم کے خلاف پوری قوم متحد ہوکر آپ کے ساتھ کھڑی ہے لیکن اختیار و اقتدار آپ کے پاس ہے فیصلہ آپ کو کرنا ہے۔