پاکستان ایک نظر میں آئی ایس آئی ملک و قوم کا فخر

نئے ڈی جی آئی ایس آئی سے گزارش ہے کہ ادارے کو سیاست سے دور رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کرتے رہیں۔


سہیل اقبال خان November 11, 2014
آئی ایس آئی کے نومنتخب سربراہ جرنل رضوان اختر سے یہی امید ہے کہ ادارے کی کارکردگی کو مزید بہتر بناتے ہوئے وہ بھی قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ فوٹو: فائل

دنیا میں ریاستیں اور قوموں نے نہ صرف اپنے رہنے سہنے کا طریقہ تبدیل کرلیا ہے بلکہ ساتھ ہی ساتھ ان کی ضروریات اور ان کے تحفظ کے لئے نئے اور مختلف اقدامات اور طریقہ کار کو اپنا لیا گیاہے ۔آج سے پہلے اور اب ، جنگوں کا طریقہ کار بہت مختلف ہے۔آج سے پہلے جنگیں اسلحے کے زور پر ہوا کرتی تھیں جس میں فوجیں محض زور ِبازو کو جنگ میں فتح کا واحد ذریعہ سمجھتی تھیں مگر اب ایسا نہیں ہوتا۔اب دشمن کو زیر کرنے کے لئے صرف فوجی قوت ہی نہیں بلکہ اس کے ساتھ ساتھ دماغ کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔

یہ دماغ اُس ملک کے انٹیلی جنس ادارےکے پاس ہوتا ہے۔یہ ادارہ اپنے دشمن کی چال،اس کے نقصان سے ملک کو محفوظ رکھنے،اور دشمن پر نظر رکھنے کے لئے ہوتا ہے۔کسی ملک میں بھی انٹیلی جنس کا ادارہ بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہےکیونکہ جس ملک میں جتنا مضبوط اور فعال انٹیلی جنس ادارہ ہو گااتنا ہی اس ملک کا دفاع مضبوط ہو گا۔

یہ تو حقیقت ہے کہ دنیا میں اس وقت دنیا کے تقریباً تمام ہی ممالک میں انٹیلی جنس ادارے قائم ہیں جو اپنا کام سرانجام دے رہے ہیں۔لیکن دوسری جانب یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ پاکستان کے انٹیلی جنس کا ادارہ آئی ایس آئی کا نام ان تمام انٹیلی جنس اداروں کی فہرست میں سب سے اوپر ہے۔آئی ایس آئی اپنی شہرت صرف پاکستان میں ہی نہیں رکھتی بلکہ اس کی تعریف دنیا بھر میں کی جا رہی ہے جو بے شک ہمارے لئے کسی فخر سے کم نہیں۔

اور شاید یہی وجہ ہے کہ ہر پاکستانی کو اپنی فوج سے جنون کی حد تک پیار ہے۔ میں ذاتی طور پر خود اپنی فوج اور اپنے انٹیلی جنس ادارے پر فخر محسوس کرتا ہوں۔ آئی ایس آئی کی کارکردگی ہمیشہ سے بہت بے مثال رہی ہے اور اِس کی بنیادی وجہ آئی ایس آئی کے سربراہان کا مخلص ہو کر کام کرناہے۔اگر آئی ایس آئی کے سربراہان پر ایک نظر ڈالی جائے تو آئی ایس آئی کے وجود سے لے کر اب تک جن سربراہان نے بھی اپنی ذمہ داریاں نبھائیں وہ نہایت قابل تعریف ہیں۔اس وقت آئی ایس آئی ایک نئے سربراہ جنرل رضوان کی قیادت میں جا چکی ہے۔ رضوان اختر پہلے ڈی جی رینجر سندھ کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے چکے ہیں۔ان کی ڈی جی رینجر سندھ کے طور پر خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔کراچی جیسے شہر میں جہاں رینجرزکو بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے،لیکن رضوان اختر کی قیادت میں رینجرز نے قابل تعریف کامیابیاں حاصل کیں اور شاید یہی وجہ ہے کہ آج سندھ میں لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال پہلے کی نسبت بہتر ہے۔

رضوان اختر نے1982ء کو فرنٹئیر فورس رجمنٹ میں کمیشن حاصل کیا،یہ سٹاف کالج کوئٹہ اور نیشنل ڈیفنس یونیورسٹی سے گریجویٹ ہیں۔ اب چونکہ رضوان اختر آئی ایس آئی کے سربراہ کے طور پر اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں تو پوری قوم ان سے یہی امید کرتی ہے کہ ان کی سربرائی میں آئی ایس آئی کی کارکردگی مزید بہتر ہو گی او ریہ ادارہ اسی طرح ملک اور قوم کے لئے کام کرتی رہے گا ۔

لیکن رضوان اختر جو اب اپنے عہدے کا چارج سنبھال چکے ہیں ان پر نہایت اہم ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ آئی ایس آئی کو ملکی سیاست سے الگ رکھیں کیونکہ جب ہمارا انٹیلی جنس کا ادارہ سیاست سے الگ ہو کر اپنا کام کرے گا تو کوئی شک نہیں کہ اس ادار ے کی تمام تر توجہ ملک کی حفاظت اور دشمنوں کی سازشوں کو ناکام بنانے کی جانب ہو گی اور یہ پہلے سے زیادہ بہتر کام کرسکے گا۔

دشمن کی نظریں ہمیشہ ہمارے خفیہ ادارے پر ہوتی ہیں۔ماضی میں بھی دشمن چھپ کر وار کرتا رہا ہے،جس کا آئی ایس آئی نے منہ توڑ جواب دیا۔آئی ایس آئی پر ماضی میں اور اب بھی زلزامات لگائے جاتے رہے ہیں،کبھی ہماری آئی ایس آئی کو وکی لیکس کی جانب سے جہادی گروپوں کے ساتھ جوڑا جاتا ہےتو کبھی رپورٹس میں طالبا ن کی حمایت اور امداد کا الزام عائد کیا جاتا ہے۔لیکن یہ سب الزامات جھوٹے ثابت ہوتے رہے ہیں اور اب بھی ہوتے رہیں گے۔میرے نذیک اِن سارے الزامات کی بنیادی وجہ دشمن کا اِس ادارے سے خوف زدہ ہونا ہے۔ اِس لیے رضوان اختر صاحب سے یہ امید ہے کہ وہ قوم کی امیدوں پر پورا اتریں گےاور آئی ایس آئی کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں گئے۔آئی ایس آئی ہمارا فخر ہے اور پوری قوم کو اپنے خفیہ ادارے پر اعتماد ہےاور پوری قوم آئی ایس آئی کے شانہ بشانہ کھڑی ہے۔کسی بھی الزام کا جواب ہمیشہ یک زبان ہو کر دیا جائے گا، جس سے دشمنوں کی نیندیں حرام ہو جائیں گی۔آئی ایس آئی ہمارا فخر ہے اور ہمیشہ رہے گا۔نئے ڈی جی آئی ایس آئی رضوان اختر کے لئے نیک خواہشات۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں