تھکادینے والے سفر کی کہانی
یہ ایک تھکا دینے اور پسلیاں توڑ دینے والے سفر کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسے دور دراز علاقے کی کہانی ہے
یہ ایک تھکا دینے اور پسلیاں توڑ دینے والے سفر کی کہانی ہے۔ یہ ایک ایسے دور دراز علاقے کی کہانی ہے جس کے سرحدی مکینوں کا شکوہ ہے کہ ہم نے جنھیں ووٹ دیے اور جن سے بلند امیدیں وابستہ کیں کہ وہ ہمارے دکھوں کو سُکھ میں تبدیل کریں گے، وہ اسمبلیوں میں پہنچ کر اپنے ذاتی مفادات کے تحفظ میں الجھ گئے۔ یہ ایک ایسے سفر کی مختصر رُوداد ہے جس میں اداسی اور ناامیدی کے عناصر نے لکھنے والے کے دل و دماغ کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔
یہ پاکستانی سرحد پر بسنے والے Far Flung Area کی کتھا ہے جو آئے روز دشمنِ پاکستان کی سازشوں اور بمباری کا ہدف بنا رہتا ہے مگر پاکستان کے حکمرانوں کی طرف سے اس دشمن کو دندان شکن جواب دینے سے بار بار گریز کیا جا رہا ہے۔ دوستی کے حصول کی کوشش میں ہم اتنی بڑی قیمت بھی ادا کرنے کی سکت رکھتے ہیں؟ اس کا تو کبھی سوچا بھی نہ گیا تھا۔
اس بدقسمت اور ''لاوارث'' علاقے کا نام شکر گڑھ ہے جو آزادی کے وقت ریڈ کلف ایوارڈ کی ''مہربانی'' سے پاکستان کا حصہ بنایا گیا۔ ویسے تو اس ایوارڈ کے تحت ضلع گورداسپور بھی ہمارا حصہ بنتا تھا لیکن لیڈی ماؤنٹ بیٹن کے عاشقِ زار، نہرو، نے راتوں رات نجانے وائسرائے ہند پر کیا جادو پھونکا کہ گورداسپور بھارت کے حوالے کر دیا گیا۔ یوں بھارت کے لیے کشمیر پر قبضہ کرنے کی راہیں بھی ہموار کر دی گئیں کہ (مقبوضہ) کشمیر جانے والے تمام زمینی راستے ضلع گورداسپور ہی سے گزرتے ہیں۔ قیامت بنا شکر گڑھ کا علاقہ 1272 مربع کلومیٹر پر محیط ہے۔
گزشتہ دو ہفتوں کے دوران بھارتی بارڈر سیکیورٹی فورسز (BSF) نے اس کے سرحدی دیہات میں اغواکاری اور خونریزی کا بازار گرم کر رکھا ہے لیکن ہمارے حکمران ''دوستی'' کی خاطر خاموشی اور بے بسی کا پیکر بنے ہوئے ہیں۔ مجھے شکر گڑھ، جو جغرافیائی اعتبار سے پاکستان کی مشرقی سرحد پر آخری پاکستانی تحصیل ہے، کے ان قیامت بنے سرحدی دیہاتوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے کا موقع ملا ہے۔ بے شمار لوگوں کی لاتعداد بپتائیں بھی سنی ہیں لیکن ایک اخبار نویس ان کے مصائب کم کرنے میں بھلا کیا کردار ادا کر سکتا ہے، سوائے اس کے کہ الفاظ کی زبانی حکمرانوں اور پالیسی سازوں تک ان کی ہچکیوں اور آہ و زاری کی باز گشت پہنچا سکے۔
شکر گڑھ کا وہ گاؤں جہاں انڈین بارڈر سیکیورٹی فورسز نے اپنے جرنیلوں اور وزیر اعظم کے حکم پر سب سے پہلے ایک پاکستانی نوجوان کی جان غصب کی، اس کا نام ''جلالہ'' ہے۔ اس گاؤں کی جانب پشت کر کے کھڑے ہوں تو بھارتی علاقہ چند قدموں کی دوری پر پڑا صاف نظر آتا ہے اور وہ چودہ فٹ بلند دہری آہنی دیوار بھی جس پر بھارت نے اربوں روپیہ خرچ کیا ہے۔ ''جلالہ'' کے نوجوان (توقیر خان) کا جرم یہ تھا کہ وہ پاکستانی علاقے میں کھڑے ہو کر کھیتوں سے چارہ کاٹ رہا تھا کہ معاً ''بی ایس ایف'' نے شعلہ بار بندوقوں کے دہانے کھول دیے۔ ہدف توقیر خان تھا۔ گولیوں کی باڑھ سے وہ تیورا کر زمین پر گر گیا۔ وہ شدید زخمی تھا لیکن اسے کسی نے نہ اٹھایا۔
رات آئی تو اسے زخمی حالت میں بی ایس ایف والے اٹھا کر پار لے گئے جہاں اسے مزید گولیاں ماری گئیں۔ قفسِ عنصری سے جان پرواز کر گئی تو رات کے اندھیروں میں اس کی ادھڑی ہوئی نعش پاکستان کی طرف پھینک دی گئی۔ اگر بھارتی سرحدی علاقے کے کسی شہری کے ساتھ ہماری سیکیورٹی فورسز اس طرح کا بہیمانہ سلوک روا رکھتیں تو بھارت نے آسمان سر پر اٹھا کر ساری دنیا کو اپنے گرد اکٹھا کر لینا تھا لیکن ایک پاکستانی شہری دن دیہاڑے دشمن ملک کے ہاتھوں قتل کر دیا گیا لیکن یہاں نہایت بے ضرر اور دھیمی آواز سے احتجاجی بیان دے کر خاموشی اختیار کر لی گئی۔
نہ ہمارے ذمے داران اور حکمرانوں نے یو این مشن کے ارکان کو بلا کر ''جلالہ'' کا دورہ کروایا نہ مقتول کے وارثوں کی آہ زاری سے دنیا کو آگاہ کیا گیا۔ ایسے میں شکر گڑھ کے وہ دیہات جو پاک بھارت سرحد پر خوف اور بے یقینی کی حالت میں زندگی گزار رہے ہیں، کیوں نہ کہیں کہ ہمیں پاکستان کے حکمرانوں نے لاوارث قرار دے کر بھارت کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے؟ ان سطور کے راقم نے اس دل شکن سانحہ کے پس منظر میں سرحدی عوام کی پاکستانی حکمرانوں کے بارے جو باتیں سنی ہیں، وہ مَیں لفظ بہ لفظ لکھنے کی جرأت نہیں رکھتا۔
انڈین بارڈر سیکیورٹی فورسز کی شکر گڑھ کے سرحدی دیہاتوں کے خلاف جارحیت اور آئے روز کی بمباری میں اس لیے بھی اضافہ ہوا ہے کہ ہماری طرف سے تگڑی زبان میں جواب نہیں دیا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ''جلالہ'' کے نوجوان کو بہیمانہ طریقے سے شدید زخمی اور پھر اس کے خون نچڑتے زخمی بدن کو اغواء کر کے شہید کرنے کی جرأت و جسارت کے بعد بھارت نے شکر گڑھ کے دیگر سرحدی دیہاتوں اور علاقوں پر مزید قاتلانہ بمباری کا سلسلہ دراز کر رکھا ہے۔
مثال کے طور پر ''جلالہ'' حملے کے بعد بھارت توپوں کی ''تغل پور'' گاؤں پر بے تحاشہ بمباری۔ یہ گاؤں عین بارڈر پر واقع ہے۔ کئی گولے تباہی مچاتے چلے گئے اور کئی پھٹ نہ سکے جو زیادہ مہلک ثابت ہو رہے ہیں۔ تغل پور کے بچے اپنے کھیت میں پڑے ایک ایسے ہی بم شیل کو کھلونا سمجھ کر گھر لے آئے اور اس سے کھیلنے لگے تو وہ اچانک پھٹ گیا۔ تینوں پھول سی اور معصوم جانیں (گیارہ سالہ حفیظ اللہ، اس کی آٹھ سالہ بہن سائرہ اور ان کا ہمسایہ حنظلہ قاسم) ہوا میں بکھر گئے۔ ہمارے وزیر اعظم صاحب نے ان تینوں بچوں کی شہادت پر غم اور ان کی مغفرت کا اظہار تو کیا ہے لیکن جس ظالم ملک کی وجہ سے یہ حادثۂ فاجعہ رُونما ہوا ہے۔
اس کے خلاف ایک لفظ بھی ادا نہ کیا۔ یہ تینوں بچے تغل پور سے تھوڑی دور واقع گاؤں ''چتر'' کے ''مفکرِ اسلام اسکول'' میں زیرِ تعلیم تھے۔ اسکول کی انتظامہ اور شہداء کے ہم جماعت افسردگی، بے چارگی اور بے کسی کی آہنی گرفت میں ہیں۔ شہید بچوں کا یہ سارا علاقہ غم و اندوہ کی دبیز چادر میں لپٹا محسوس ہوتا ہے۔ یہاں کے پرائیویٹ اسکولز ایسوسی ایشن کے صدر جناب رشید تابانی، جو کبھی پنجاب یونیورسٹی میں اے ٹی آئی کے معروف طالب علم راہنماء بھی رہے ہیں، نے دل گیر اور اشکبار لہجے میں کہا: ''شکر گڑھ کے جوان اور بچے بھارتی گولہ باری سے شہید ہو رہے ہیں لیکن ہمارا کوئی پُرسانِ حال نہیں۔
ہمیں سرکاری عمال اور حکام نے راندئہ درگاہ بھی قرار دے رکھا ہے اور ہمیں لاوارث بھی چھوڑ دیا ہے۔ حکومت کے ایوانوں میں ہماری مظلوم زندگیوں کی کوئی شنوائی ہے نہ صحافت میں ہماری طرف نگاہ اٹھا کر کوئی دیکھا جاتا ہے۔'' شکر گڑھ شہر کے سینئر صحافی میاں اظہر عنایت صاحب، جن کے والدِ گرامی کامریڈ عنایت صاحب کا تحصیل بھر میں صحافت کی خدمات کے پیشِ نظر نہایت احترام پایا جاتا ہے، سے ملاقات ہوئی تو انھیں بھی ایسی ہی کہانیاں سناتے ہوئے پایا گیا۔ بھارتی بمباری کے باعث کئی لوگ شہید اور معذور ہو گئے لیکن شکر گڑھ کے رکن قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی نے اپنی اپنی اسمبلیوں میں ان شہداء کے بارے میں کیا اور کیسی آواز اٹھائی، یہ سوال بھی اپنی جگہ ایک خاص اہمیت رکھتا ہے۔
شکر گڑھ محض آج ہی لاوارث نہیں ہوا۔ یہ ''رِیت روایت'' خاص پرانی ہے۔ اہلِ شکر گڑھ کی بے بضاعتی اور بے بسی اس وقت اپنے عروج پر پہنچ گئی تھی جب 1971ء کی جنگ میں بھارتی افواج نے یلغار کرتے ہوئے شکر گڑھ کے 1272 مربع کلومیٹر میں سے 910 مربع کلومیٹر کے رقبے پر قبضہ کر لیا تھا۔ لاکھوں شکر گڑھی بے آسر ہو کر یہاں سے ہجرت کرنے پر مجبور ہو گئے۔ بھارتی قابض فوج نے کھل کر ان کے گھر بار لوٹے۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو کا یہ احسان کم نہیں کہ انھوں نے شملہ معاہدے کے تحت اندرا گاندھی سے شکر گڑھ کا یہ سیکڑوں مربع کلومیٹر کا مقبوضہ علاقہ چھڑوایا۔ بھٹو صاحب امریکا سے وہ مالی امداد بھی لانے میں کامیاب رہے۔
جس سے تین سال تک مسلسل شکر گڑھ کے اجڑے پجڑے شہریوں کو ازسرِ نو اپنے گھر بار تعمیر کرنے اور پیٹ پالنے کے مواقع میسر آتے رہے۔ اس احسان کے بدلے بھٹو صاحب کے ساتھ جنرل ضیاء کے ''عہدِ زریں'' میں جو سلوک روا رکھا گیا، وہ ہمارے سامنے ہے۔ شکر گڑھی بھی بھٹو صاحب کے احسانات کو فراموش کر چکے ہیں۔