خزاں روٹھ رہا ہے

موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث پتوں میں ان مادوں کی کمی ہورہی ہے جو موسمِ خِزاں میں انہیں شوخ رنگ عطا کرتے ہیں۔


سید بابر علی November 16, 2014
محققین طویل عرصے سے موسمِ خِزاں اور ماحول کے درمیان موجود پیچیدہ تعلق کا راز جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔ فوٹو: فائل

پت جھڑ کا موسم شروع ہوتے ہی چہار سو ہر شجر اداس نظر آتا ہے، باہر چاہے جتنا شور ہو فِضا میں عجیب سی خاموشی محسوس ہوتی ہے اور ایسے میں جب ہوا کی سرسراہٹ کے ساتھ زرد اور نارنجی پتّے گرتے ہیں وہ منظر تو حسین ہوتا ہی ہے مگر اْن پتّوں کے گرنے سے جو ہلکی سی آواز ہوتی ہے اسے سُن کر لگتا ہے، جیسے کوئی دھیمی سی سرگوشی ہو، جسے سْننا اچھا لگتا ہے۔

شاید اسی وجہ سے اردو کی صف اول کی ناول نگار قرۃ العین حیدر نے اپنی ایک کتاب کا نام ''پت جھڑ کی آواز'' رکھا۔ پت جھڑ میں بادام کے نارنجی اور سرخ پتّوں سے بھرے آنگن میں ننگے پاؤں چلنا، پتّوں کی چْرمْراہٹ اور سوکھے پتّوں کی دھیمی سی خوشبو فضا میں اداسی سی گھول دیتی ہے۔ باہر سرد اور خشک ہواؤں سے سہمے سوکھے پتے درختوں کی برہنہ ہوتی ہوئی شاخوں پر اپنی بقا کی آخری جنگ لڑتے نظر آتے ہیں۔ کچھ سوکھے پتے درخت کی مزید قربت کے متمنی ہوتے ہیں، مگر پت جھڑ کا خوب صورت مگر ظالم موسم اْنہیں اتنی مہلت نہیں دیتا۔ ہوا کے تیز تھپیڑے درخت کی شاخوں پر آخری سانس لیتے ان پتوں کو جدائی پر مجبور کردیتے ہیں۔

سوکھے پتوں کی درخت کی شاخوں سے محبت اور جدائی کے کرب کی بنا پر ہی ہر دور کے شاعر و ادیب نے ''خزاں'' کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ شاید اسی کرب کو محسوس کرتے ہوئے احمد ندیم قاسمی کی وفات کے بعد ان کے مطبوعہ اور غیر مطبوعہ افسانوں کے مجموعے کا نام نہایت بامعنی، یعنی ''پت جھڑ'' رکھا گیا۔ خزاں کا یہ خوب صورت اور اداس موسم بھی آہستہ آہستہ ہم سے دور جا رہا ہے۔ گلوبل وارمنگ کی وجہ سے ہونے والے ماحولیاتی تغیرات اب خزاں کے موسم کو ہم سے جدا کر رہے ہیں۔



امریکا میں حال ہی میں ہونے والے ایک مطالعے میں پیش گوئی کی گئی ہے کہ اگلی صدی کی شروعات تک خزاں کا موسم ہم سے تقریباً جدا ہوجائے گا۔ ماحولیاتی تغیرات کی وجہ سے ہونے والے بلند درجۂ حرارت اور شبنم گرنے کے نئے طریقۂ کار نے کچھ درختوں کی اقسام پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں، خواہ یہ براہ راست ہوں یا فنگس، بیکٹریا کی وجہ سے ہونے والی بیماریوں اور حشرات الارض کے باعث۔ پیش منظر قبل از وقت تبدیل ہورہا ہے، کیوں کہ پت جھڑ میں خوب صورت رنگ بکھیرنے والے کچھ درخت ہجرت کر رہے ہیں۔

اس حوالے سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زیادہ تواتر کے ساتھ خشک سالی اور کچھ علاقوں کے بادلوں میں گِھر جانے کی وجہ سے پتوں میں ان رنگین مادوں کی کمی ہو رہی ہے جو موسمِ خِزاں میں انہیں شوخ رنگ عطا کرتے ہیں۔ محققین طویل عرصے سے موسمِ خِزاں اور ماحول کے درمیان موجود پیچیدہ تعلق کا راز جاننے کے لیے کوشاں ہیں۔ تاہم محققین اس بات کا اعتراف کرتے ہیں کہ اس معاملے میں ابھی بہت کچھ جاننا باقی ہے۔

حال ہی میں موسم خِزاں کے رنگوں پر تحقیق کرنے والے نارتھ کیرولینا یونیورسٹی کے ماہر علم الحیات Howard Neufeldکا کہنا ہے،''ہم ابھی تک ان تمام عوامل تک نہیں پہنچ سکے ہیں جو رنگوں پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ مثلاً اگر مئی میں بارش بہت زیادہ ہوتی ہے تو کیا یہ موسم سرما پر اثر انداز ہوگی؟ خزاں میں پتے تفریق کے عمل سے گزر کر زرد یا پیلے ہوتے ہیں۔

سبز رنگ کا موجب مادہ کلوروفل، جو سورج کی روشنی کو توانائی میں تبدیل کر کے درختوں کی نشوو نما میں اہم کردار ادا کرتا ہے، موسم گرما میں پتوں میں سے زائل ہونے لگتا ہے جس کی وجہ سے پتے ''میٹا بولزم'' (غذا کو کسی توانائی میں بدلنے کا عمل) سست ہونے کی وجہ سے گرنے کے قریب ہوجاتے ہیں۔ پتوں میں زرد اور پیلا رنگ بنانے والے بنانے مادےxanthophylls اور carotenoids رہ جاتے ہے۔ محققین کے لیے پت جھڑ میں پتوں کا سرخ رنگ ایک معمے سے بھی زیادہ ہے۔ پیپل اور اس نوع کے دوسرے درختوں کے پتے خزاں میں anthocyanins نامی مادے کی بدولت سرخ ہوجاتے ہیں۔



Neufeldکا کہنا ہے کہ سائنس داں اس معاملے پر ابھی تک بے یقینی کا شکار ہیں کہ موسم خزاں میں درخت ایسا طرز عمل کیوں اختیار کرتے ہیں؟ کچھ محققین کا کہنا ہے کہ رنگ میں تبدیلی حشرات کے لیے سگنل ہے، ممکنہ طفیلیوں کے لیے انتباہ ہے کہ اب درخت کیمیکل دفاع سے مسلح ہے۔ ایک دوسری تھیوری کہتی ہے کہanthocyanins پتوں کو روشنی کے نقصان سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔ خزاں کے موسم میں درخت بقیہ غذائیت کو بڑھوتری کے اگلے موسم تک پتوں سے شاخوں میں منتقل کردیتے ہیں۔ مرئی روشنی نقل و حمل کے اس نظام کو نقصان پہنچا سکتی ہے اور روشنی جذب کرنے کا اہل Anthocyanins مادہ درختوں کو اس قسم سے نقصانات سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔

ان چمک دار سرخ مادوں کے کردار کے قطع نظر انہیں زرد اور پیلے رنگ کی نسبت موسمی تغیرات سے زیادہ خطرات لاحق ہیں۔Anthocyanins نامی مادہ شکر سے بنتا ہے۔ سرد درجۂ حرارت میں درخت اس شکر کو پتوں میں محفوظ رکھتے ہیں، لیکن گرم ہونے پر یہ شکر پودے کے دوسرے حصوں میں منتقل ہوجاتی ہے۔ یہ سرخ مادہ انسانی سرگرمیوں کی وجہ سے بھی کم ہوسکتا ہے۔ بڑی مقدار میں مصنوعی کھاد مٹی میں نائٹروجن کی مقدار بڑھا دیتی ہے، جس کی وجہ سے درختوں کے پتوںمیں شکر ذخیرہ کرنے کی صلاحیت کم ہوجاتی ہے اور اس کا اثر خزاں کے سرخ رنگ پر پڑرہا ہے۔

Neufeldکا کہنا ہے کہ شکر کی سطح میں کمی کا اثر سرخ رنگ کے کم ہونے پر منتج ہوگا۔

خشک سالی کی مدت میں اضافہ بھی خزاں کے حسن کو گہنا رہا ہے۔ گذشتہ کئی سال سے درختوں کے پتے وقت سے پہلے ہی جھڑ رہے ہیں جس کے نتیجے میں موسم خزاں کے رنگ اجڑ رہے ہیں۔ موسمی تغیرات کے حوالے سے بنائے گئے ماڈل کچھ علاقوں میں کم اور کچھ میں زیادہ بارش کی پیش گوئی کرتے ہیں۔ زیادہ بارش والے علاقوں میں خزاں کے رنگ پھیکے پڑ سکتے ہیں کیوں کہ انہیں سرخ، نارنجی یا پیلا رنگ دینے کے لیے فوٹو سنتھیسز کا عمل ضروری ہے اور زیادہ بارشوں کا مطلب ہے زیادہ بادل اور کم فوٹو سنتھیسز۔

اس حوالے سے امریکی درس گاہ ہارورڈ یونیورسٹی کے ماہرِحیاتیات اینڈریو رچرڈ سن کا کہنا ہے،''کچھ وجوہات ایسی ہیں جنہیں میں درحقیقت نہیں سمجھ پاتا۔ لوگ ہمیشہ سوچتے ہیں کہ جب بہار میں درختوں پر نئے پتے آتے ہیں، پھول اپنا حسن چار سو بکھیرتے ہیں، تو اس بات کو سمجھنا زیادہ ضروری ہے کہ کن وجوہات کی بنا پر پتے رنگ تبدیل کرتے اور گر جاتے ہیں۔''



رچرڈ کا کہنا ہے لوگوں کی عادت ہے کہ وہ ستمبر کی گرم شاموں اور موسم خِزاں کے بہترین رنگوں میں ربط تلاش کرتے ہیں۔ اب سائنس دانوں کے پاس کیمرا بیسڈ مشاہدات اور 'یو ایس نیشنل فینولوجی نیٹ ورک، (موسمی تبدیلیوں کے مشاہدات جمع کرنے والا سائنس پروجیکٹ) کی بدولت اس پر کام کرنے کے لیے زیادہ اعداد و شمار ہیں۔ رچرڈسن کا کہنا ہے کہ کچھ محققین نے قدرتی تبدیلیوں کو خزاں میں موسمی اثرات کی پیش گوئی میں بھی تبدیل کردیا ہے۔ بہار میں پھوٹتی کونپلوں کی نسبت خزاں کے رنگوں کا مطالعہ کرنا بہت نازک کام ہے، کیوں کہ ایک طاقت ور طوفان بڑی تعداد میں پتوں کو زمین بوس کرسکتا ہے، تمام اعدادوشمار ایک رات میں الٹ پلٹ ہوجاتے ہیں۔

رواں سال جولائی میں امریکی جریدے ''گلوبل ویکولوجی اینڈ بائیو گرافی'' میں شایع ہونے والے ایک مطالعے کے مطابق امریکی محققین نے ایک سائنسی طریقے NPNکے ذریعے تین ہزار ایکٹر پر پھیلے درختوں کے اعدادوشمار جمع کیے جنہیں ہارورڈیونیورسٹی نے خزاں کے رنگوں میں تبدیلی کی پیش گوئی اور تحقیقی مقاصد کے لیے لگایا ہے۔ اس تحقیق کی سربراہی کرنے والے ''ناسا جیٹ پروپلشن لیباریٹری'' کیلی فورنیا کے سی جونگ جیونگ (Se-Jong Jeong) کا کہنا ہے،''ہم طویل المدتی اعداد و شمار کو استعمال کرتے ہوئے ایک نمونہ (ماڈؒل) تیار کرسکتے ہیں اور پھر ہم اس نمونے کی تصدیق مقامی طور پر حاصل ہونے والے مختصرالمدتی سے کرسکتے ہیں۔''

جیونگ اور ان کے ساتھی پرنسٹن یونیورسٹی کے ڈیوڈ میگ وگی(David Megvigy ) کا کہنا ہے کہ اس تحقیق سے وہ دو تغیرات، دن کی روشنی کا دورانیہ اور درجۂ حرارت کے ساتھ رنگ میں بڑے پیمانے پر ہونے والی تبدیلیوں کی پیش گوئی کرسکتے ہیں۔ تاہم اس میں درخت کی اقسام بھی اہمیت رکھتی ہیں۔ مثال کے طور پر، زیادہ اندھیرا برداشت کرنے کے اہل درخت، کم اندھیرا برداشت کرنے کے اہل درخت کی نسبت سرد درجۂ حرارت میں زیادہ تیزی سے رنگ تبدیل کرکے ردِعمل ظاہر کرتے ہیں۔

جیونگ کا کہنا ہے کہ گذشتہ 18سال میں خزاں کے پتوں میں رنگ کی تبدیلی اوسطاً 5دن پیچھے چلی گئی ہے۔ 2100 تک یقیناً اس تاخیر میں نمایاں اضافہ ہوگا۔ محققین کے نمونے کے مطابق اگر خوش فہمی کے منظرنامے کے تحت دیکھیں تو پتا چلتا ہے کہ جب بھی درجۂ حرارت میں 1.5یا 2ڈگری سینٹی گریڈ کا اضافہ ہوگا تو اس تاخیر کی مدت مزید ایک ہفتے بڑھ سکتی ہے۔ ۔ اس منظرنامے کے تحت اگر کاربن کے اخراج میں مناسب کمی نہیں کی گئی تو درجۂ حرارت 5.6 ڈگری سینٹی گریڈ سے اوپر پہنچنے کی پیش گوئی کی گئی ہے، جس کی وجہ سے خزاں کے پتوں میں رنگ کی تبدیلی آج کے مقابلے میں تین ہفتے تاخیر سے ہوگی۔

اگرچہ رنگ میں تبدیلی بہ ذات خود تباہ کن نہیں ہے۔ گذشتہ سال رچرڈ سن اور اُن کی ٹیم نے ہارورڈ کے جنگلات میں خزاں کے رنگوں میں تاخیر کا مشاہدہ کیا اور دیکھا کہ ستمبر کا گرم درجۂ حرارت پت جھڑ کے آغاز میں بڑی تاخیر کا محرک تھا۔ تحقیقی جریدے ''PLoS ONE'' میں شایع ہونے والی اُن کی پیش گوئیوں میں کہا گیا ہے،''یہ تاخیر اُن پتوں کو دیکھنے والوں کے لیے رنگ کی تبدیلی میں بہتری لا سکتی ہے'' کیوں کہ خزاں کا موسم زیادہ عرصے گرم رہے گا۔ انہوں نے کیلکولیشن کی ہے کہ درخت اپنے پتے گرانے سے پہلے زیادہ عرصے تک رنگ برنگے رہیں گے اور بیک وقت زیادہ پتے رنگین ہو ں گے۔



سوئزرلینڈ کی یونیورسٹی آف بازل کے محقق یان وتاسے) (Yann Vitasseکا کہنا ہے کہ جنوبی امریکا کے خزاں کے رنگ بہت کم ہوگئے ہیں اور اُن میں پت جھڑ کی شرح بھی بہت کم ہے۔ خزاں رسیدہ پتوں میں رنگ کی تبدیلیوں کا مشاہدہ یورپ میں بھی کیا گیا ہے۔ تاہم اس میں بڑھتے ہوئے موسموں کی وسعت بھی کارفرما ہے، موسمِِ بہار کے جلد آنے کا مطلب دیر سے موسم خزاں کی آمد ہے۔

ہیروشیمایونیورسٹی کے انسٹی ٹیوٹ فار سسٹین ایبل سائنس اینڈ ڈویولپمنٹ کے استاد ہدیوکی دوئی (Hideyuki Doi) کا کہنا ہے کہ جاپان اور چین جیسے ایشیائی ممالک میں، جہاں ماحولیاتی تبدیلیاں بھی موسم بہار میں زیادہ نمایاں ہوتی ہیں، پتے رنگ تاخیر سے بدل رہے ہیں۔ ہِدیوکی پت جھڑ میں رنگ میں تبدیلی پر ایشیائی برگ ریز درختوں ''جنکوگوز'' جس کے پتے خزاں میں سنہرے پیلے اور پیپل جس کے پتے سرخ رنگ اختیار کر لیتے ہیں، پر تحقیق کر چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ خزاں کی ہوا کا درجۂ حرارت رنگ کی تبدیلی پر اثر انداز ہونے والا اہم جُز ہے۔ اور کم چوڑائی والے درخت زیادہ چوڑائی والے درختوں کی نسبت بڑھتے ہوئے درجۂ حرارت پر زیادہ مضبوطی سے رد عمل ظاہر کرتے ہیں۔

دوئی کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی محض موسموں کے خوب صورت رنگوں کو متاثر نہیں کر رہی، بل کہ جاپانی خوبانی اور چینی آلوبخارے کے درخت بھی اس سے متاثر ہورہے ہیں، کیوں کہ جنوری سے مارچ کے ان کے گلابی پھولوں کا کِھل کر فضا میں بکھرنا خوب صورت منظر پیش کرتا ہے، لیکن ان پھولوں کے بکھرنے میں بھی اوسطاً ایک ہفتے کی تاخیر ہورہی ہے۔ تاہم نمونوں سے قطع نظر پتوں کے رنگوں کی گہرائی اور چمک دمک کو متاثر کرنے کے بارے میں غیریقینی صورت حال اپنی جگہ موجود ہے اور کچھ نہیں کہا جاسکتا کہ موسم خزاں کا مستقبل کیا ہوگا۔ محققین کے بنائے گئے نمونوں کے ناکام ہونے میں مزید پیچیدگیاں ہوسکتی ہیں، کیوں کہ درخت جامد نہیں ہیں۔ انسانوں کی نسبت یہ وقت کے پیمانے پر بہت آہستہ حرکت کرتے ہیں، لیکن یہ موافق درجۂ حرارت کی تلاش میں اونچی ڈھلانوں یا نئے علاقوں میں ہجرت کر سکتے ہیں۔



Neufeld کا کہنا ہے کہ امریکی محکمۂ جنگلات کی ایک تحقیق کے مطابق شمال مشرقی امریکا میں درختوں کی70 فی صد اقسام میں شمال کی جانب حرکت کرنے نشانات ظاہر ہوچکے ہیں اور ان ماحولیاتی مہاجرین میں پیپل اور اس نوع کے دوسرے درخت بھی شامل ہیں، جن کے سرخ پتے موسم خزاں کو اپنی جانب متوجہ کرتے ہیں اور اگر ان کی ہجرت جاری رہی تو مستقبل میں خزاں کے رنگ دیکھنے والے سیاحوں کو کینیڈا کا سفر کرنا پڑے گا۔ نیوفیلڈ کا کہنا ہے،''اگر آپ درختوں کو تبدیل کرتے ہیں تو پھر آپ رنگوں کی ترتیب بھی تبدیل کریں۔''

نیوفیلڈ نے بتایا کہ مغربی امریکا کے پہاڑی سلسلے خزاں کے رنگوں کے لیے ''سفیدے '' کے درخت کے محتاج ہیں، جن کے پتوں کو پت جھڑ کا موسم چمکتے اور سانس لیتے سونے میں تبدیل کر دیتا ہے۔ کولاراڈو فاریسٹ ری اسٹوریشن انسٹی ٹیوٹ کے مطابق1لاکھ 38 ہزار ایکڑ پر محیط سفیدے کے جنگلات بری طرح متاثر ہوچکے ہیں اور کچھ علاقوں میں ان میں سے نصف بالغ درخت مر رہے ہیں۔ طویل خشک سالی نے ان درختوں کو بیماریوں اور حشرات الارض کے لیے غیرمحفوظ بنا دیا ہے، جب کہ مغربی امریکا میں ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے خشک سالی کی میعاد میں اضافہ متوقع ہے۔ جس کے برے اثرات موسم خزاں پر بھی مرتب ہوں گے۔



نیو فیلڈ کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلی کی وجہ سے درختوں کی انواع نہ صرف شمال کی طرف پیش قدمی کر رہی ہیں، بل کہ اونچائی کی جانب بھی چڑھ رہی ہیں۔ اس کا مشاہدہ ریاست ورمونٹ میں کیا جاسکتا ہے، جہاں رنگ تبدیل کرنے والے ہارڈ وڈ (چوڑے پتے والے درخت، شاہ بلوط، شفتالو وغیرہ) کے جنگلات اور بلندوبالا صنوبر کے جنگلات پہاڑی ڈھلانوں کی طرف حرکت کر رہے ہیں اور اس سے یقیناً سیاحت کی صنعت بہت متاثر ہوگی۔

درختوں کے مرنے اور پت جھڑ کے موسم کو بچانے کے لیے اگر گلوبل وارمنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں پر قابو نہیں پایا گیا تو وہ دن دور نہیں جب ہم سرخ، نارنجی اور پیلے پتوں کو سورج کی روپہلی روشنی میں چمکتے اور ہوا کے دوش پر اڑتے دیکھنے سے محروم ہوجائیں گے، پت جھڑ کے اداس موسم میں کہی جانے والی نظمیں بھی مر جھا جائیں گی، خزاں سے وابستہ کہانیاں مر جائیں گی۔ پھر اس طرح کے شعر کون کہے گا:

فصلِ خزاں میں سیر جو کی ہم نے جائے گْل
چھانی چمن کی خاک ، نہ تھا نقشِ پائے گْل

موسمِ خِزاں کے بارے میں چند دل چسپ حقائق
٭موسم خزاں کو ''موت کو تھکا دینے والی خوب صورتی '' بھی کہا جاتا ہے۔
٭برطانوی تحقیقی جریدے ''پرسیپشن'' کے مطابق اس موسم میں مردوخواتین میں جذبات کو ابھارنے والے ہارمون ''ٹیسٹو ایسٹیرون'' کی مقدار بڑھنے کی وجہ سے صنفِ مخالف میں دل چسپی زیادہ بڑھ جاتی ہے۔

٭موسم خزاں کو زمانۂ قدیم ہی سے سال کا سب سے اہم حصہ مانا جاتا ہے۔
٭ماہرِین نجوم کا کہنا ہے کہ موسم خزاں میں پیدا ہونے والے بچوں کی عمرسال کے دوسرے موسموں میں پیدا ہونے والے بچوں کی نسبت زیادہ طویل ہوتی ہے۔
٭خلائی تحقیق کے امریکی ادارے ناسا کے مطابق خزاں ''Aurora Season'' ہے، کیوں کہ اس موسم میں ''ارضی مقناطیسی طوفان'' پورے سال میں سب سے زیادہ آتے ہیں۔



٭موسم خزاں کو امریکا ''فال'' کہا جاتا ہے، برطانوی اسے ''آٹم'' کہتے ہیں اور زمانہ قدیم میں ''ہارویسٹ'' کہا جاتا تھا۔
٭خطِ استوا پر رہنے والے افراد کبھی اس موسم کی خوب صورتی سے لطف اندوز نہیں ہوئے۔
٭موسم خزاں کا اداسی سے بھی گہرا تعلق ہے۔ اس موسم میں کسی علاقے کی کُل آبادی کا 4سے5 فی صد حصہ ''سیزنل ایفیکٹو ڈس آڈر'' کا شکار ہوجاتا ہے۔ خزاں کی اداسی مردوں کی نسبت خواتین کو زیادہ متاثر کرتی ہے۔

٭ ہر سال موسم خزاں میں جرمنی کے شہر میونخ میں سولہ روزہ سالانہ میلے ''اکتوبر فیسٹ'' کا انعقاد کیا جاتا ہے۔ 1810میں شہزادے کی جشن تاج پوشی سے شروع ہونے والے اس جشن میں ہر سال تقریباً60سے70لاکھ لیٹر شراب استعمال کی جاتی ہے۔
٭کچھ اقوام میں پت جھڑ میں گرنے والے پتوں کو پکڑلینا خوش قسمتی سمجھا جاتا ہے، اور ہر ایک پتے کو پکڑنے کا مطلب اگلے سال خوش قسمتی کا مہینہ ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں