واپسی کا سفر

دھرنا احتجاج سے نواز حکومت بھی خاصی گھبراتی رہی، تاہم جونہی ان کا اعتماد بحال ہوا وزیراعظم چین روانہ ہوگئے۔


MJ Gohar November 18, 2014
[email protected]

وزیراعظم میاں نواز شریف نے اپنے حالیہ دورہ چین میں اربوں ڈالر کے متعدد دو طرفہ معاہدوں اور منصوبوں پر دستخط کیے ہیں جو پاک چین دوستی کے لازوال رشتے کا عکاس ہے، ان معاہدوں و منصوبوں کے طفیل پاکستان میں انرجی بحران میں کمی سمیت معاشی نمو میں بہتری کے امکانات بھی ظاہر کیے جارہے ہیں جو قومی معیشت کے لیے نیک شگون ہوسکتا ہے، پاک چین دوستی کے حوالے سے ہر دو جانب کی حکومتوں اور عوام کے درمیان جو پختہ یقین اور اعتبار پایاجاتا ہے وہ ہر قسم کے موسموں کے منفی اثرات سے ہمیشہ محفوظ رہا ہے، یہی اس رشتے کی بنیاد اور پہچان ہے۔

70 کی دہائی میں پاکستان کے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو اور چینی وزیراعظم چو این لائی کے دور میں پاک چین دوستی کے جس سفر کا آغاز ہوا تھا، وہ چار دہائیاں گزرنے اور دونوں ممالک میں حکومتوں کی تبدیلی کے باوجود آج بھی پورے یقین و اعتماد کے ساتھ جاری ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ دوستی کا یہ بندھن مزید مستحکم اور قابل رشک ہوتا جارہا ہے۔ اگست کے مہینے میں چینی وزیراعظم کو پاکستان کا دورہ کرنا تھا لیکن اسلام آباد میں تحریک انصاف اور عوامی تحریک کے دھرنوں کے باعث وہ سیکیورٹی خدشات کے پیش نظر پاکستان نہ آسکے۔

دھرنا احتجاج سے نواز حکومت بھی خاصی گھبراتی رہی، تاہم جونہی ان کا اعتماد بحال ہوا وزیراعظم چین روانہ ہوگئے۔ جب کہ دھرنا سیاست دانوں میں سے ایک کا سفر تو تمام ہوگیا، طاہر القادری جو قسمیں کھا کھاکر اپنے ''انقلابیوں'' کو یقین دلاتے رہے کہ تم سب بھی چلے جائو تو میں اکیلا یہاں بیٹھوں گا اور انقلاب لائے بغیر دھرنا ختم نہیں کروں گا لیکن جمہوریت پسندوں کے متحد ہونے کے باعث مولانا قادری نہایت مایوسی و بے بسی کے عالم میں اپنے ''انقلابیوں'' کو شرمندگی کے سراب میں بھٹکتا چھوڑ کر یہ کہتے ہوئے کہ ''اﷲ ابھی نواز حکومت کو ختم نہیں کرنا چاہتا''، اپنے دیس کینیڈا روانہ ہوگئے۔

طاہرالقادری کی واپسی کے بعد عمران خان بھی حالات سے مایوس ہوتے جا رہے ہیں۔ اولاً وہ بھی یہی کہتے رہے ہیں کہ نواز شریف کا استعفیٰ لیے بغیر ڈی چوک سے واپس نہیں جائوںگا چاہے مجھے اکیلا ہی یہاں رکنا پڑے اور خواہ کنٹینر کی بجائے مجھے ٹینٹ لگاکر بھی بیٹھنا پڑا تو میں اس کے لیے تیار ہوں تاہم وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ عمران خان کے حوصلے پست ہوتے جارہے ہیں، مایوسی غالب اور حالات مخالف ہوتے نظر آرہے ہیں۔

عمران خان کی مایوسی، ناکامی، پریشانی اور دھرنا ختم کرنے پر آمادگی کی متعدد وجوہات ہیں جن میں سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ وہ دعوے کے باوجود دس لاکھ کا مجمع اکٹھا کرنے اور نواز حکومت پر پریشر ڈالنے میں ناکام رہے۔ اسکرپٹ کے مطابق ''ایمپائر'' کی انگلی اٹھنے کے سربستہ راز سے انھی کی جماعت کے ''باغی صدر'' جاوید ہاشمی نے پردہ اٹھا دیا، سابق صدر آصف علی زرداری سمیت تمام جمہوریت پسند پارلیمانی قوتیں جمہوریت کو ڈی ریل ہونے سے بچانے کے لیے نواز حکومت کی پشت پر کھڑی ہوگئی، خان صاحب کا سول نافرمانی کی تحریک شروع کرنے کا اعلان نقش برآب ثابت ہوا۔

پی ٹی آئی کے ارکان پارلیمنٹ کے استعفوں کا معاملہ بھی الجھا ہوا ہے اور ان کے ارکان اسمبلی مستعفی ہونے سے منحرف ہورہے ہیں جس سے خان صاحب خاصے پریشان ہیں۔ ادھر ڈی چوک پر ''شائقین دھرنا'' کی تعداد روز بہ روز کم سے کم تر ہوتی جارہی ہے، نیا پاکستان بنانے کا نعرہ کان کے پردے پھاڑنے والے میوزک کے شور و غل میں گم ہوکر رہ گیا، لوگوں کی مایوسی و عدم دلچسپی کا یہ عالم ہے کہ ڈی چوک کا دھرنا رات کے 3/4 گھنٹے کے میوزک کنسرٹ تک محدود ہوکر رہ گیا ہے، جس میں خانہ پری کے لیے چند سو افراد ہی شریک ہوتے ہیں باقی سارا دن ڈی چوک پر دھول اڑتی رہتی ہے۔

اس تمام مایوس و پریشان کن صورت حال کے بعد عمران خان نے ''آخری پتہ'' پھینکتے ہوئے 30 ستمبر کو ''سونامی دھرنے'' کا اعلان کردیا ہے، ایک مرتبہ پھر انھوں نے دعویٰ کیا ہے کہ پورے پاکستان سے لاکھوں عوام کا سمندر 30 ستمبر کو اسلام آباد میں جمع ہوکر وزیراعظم کو ''گو نواز گو'' پر مجبور کردے گا۔

عمران خان کو ایک موہوم سی امید عدالت عظمیٰ سے بھی ہے جہاں آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت اسمبلی کے فلور پر جھوٹ بولنے کے حوالے سے وزیراعظم میاں نواز شریف کے عوامی عہدے کے لیے نا اہلی کا کیس زیر سماعت ہے تاہم معزز ججز صاحبان کے اس کیس کی اب تک کی کارروائی کے دوران دیے گئے ریمارکس کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہی نظر آتا ہے کہ عمران خان کو یہ دھچکا بھی برداشت کرنا پڑے گا۔

در اصل جھوٹ بولنا ہمارا قومی مزاج بن گیا ہے، جھوٹ ہماری ذاتی، خاندانی، سماجی، معاشرتی، معاشی اور سیاسی زندگی کا خاصا بنتا جا رہاہے اور جھوٹ کو بھی اس یقین کے ساتھ اور دھڑلے سے بولا جاتا ہے کہ وہی سچ قرار پاتا ہے۔ ایک سچ کو چھپانے کے لیے سو جھوٹ بولے جاتے ہیں۔ بقول عمران خان ان کی والدہ مرحومہ نے انھیں سچ بولنے کی تلقین کی تھی اس لیے وہ ہمیشہ سچ بولتے ہیں، فریبی تقریروں میں وہ قوم کی ماؤں کو بھی یہی تلقین کررہے ہیں کہ وہ اپنے بچوں کو ہمیشہ سچ بولنا سکھائیں۔

اگر عمران خان ہمیشہ سچ بولتے ہیں تو آئین کی اس سچائی کو بھی تسلیم کرتے ہوںگے جس کے تحت پاکستان میں تمام اقلیتوں کو ان کے حقوق کے تحفظ کی ضمانت دی ہے لیکن افسوس کہ خان صاحب نے کوٹ رادھا کشن قصور میں ایک مسیحی جوڑے کو بہیمانہ تشدد کرکے ہلاک اور آگ کے الائو میں پھینکنے پر کوئی احتجاجی دھرنا، نہ ریلی نکالی، نہ جلسہ کیا، جب کہ سابق صدر آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، الطاف حسین سمیت تمام قابل ذکر سیاسی قائدین نے پرزور مذمت کرتے ہوئے سخت احتجاج کیا ہے۔

کیا خان صاحب آئینی سچائیوں کو جھٹلاسکتے ہیں؟ سچ بولنا اور اس کی تلقین کرنا بلا شبہ بہت اچھی بات ہے لیکن اس کا آغاز اپنے گھر سے کرنا چاہیے کیا عمران خان کی پارٹی کے تمام رہنما اور خان صاحب کے ساتھ کھڑے دیگر رہنماؤں کی ذاتی و سیاسی زندگی ''سچائیوں'' کی آئینہ دار ہے؟ خان صاحب کل تک جس کومعمولی عہدہ دینے کے روادار نہیں تھے وہ آج ان کے رائٹ مین بنے ہوتے ہیں۔

معروف مصنف ڈاکٹر طاہر مسعود کی کتاب ''کوئے دلبراں'' پڑھ لیجیے جس کے صفحہ نمبر 212 اور 213 پر وہ رقمطراز ہیں کہ 1999 کے نومبر، دسمبر میں ڈاکٹر طاہر القادری نے ایک پریس کانفرنس میں شیخ رشید اور شہناز بیگم کی شادی کا انکشاف کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ شہناز بیگم کے حقوق کے لیے جد وجہد جاری رکھیں گے ۔ جب کہ شیخ رشید صاحب اپنی شادی سے ہمیشہ انکاری رہے انھوں نے 2013 کے الیکشن میں حلقہ این اے 55 سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے جس میں خود کو کنوارا ظاہر کیا ۔ قصہ کوتاہ یہ کہ عمران خان 14 اگست کو قوم کے نجات دہندہ بن کر ٹارزن کے اسٹائل میں لاہور سے اسلام آباد پہنچے تھے لیکن افسوس کہ ان کی واپسی کا سفر نہایت مایوس کن انداز سے ختم ہونے جا رہا ہے ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں