کس قدر آساں ہے موت

پاکستان میں ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کی نگرانی کا کوئی جامع اور موثر نظام موجود نہیں ہے۔


Abid Mehmood Azam 1 November 18, 2014

وطن عزیز میں رہتے ہوئے شاید ہم لوگ دکھ درد برداشت کرنے کے اس قدر عادی ہوچکے ہیں کہ اب بڑے بڑے سانحات بھی جھیل جانے کے بعد بھول جاتے ہیں۔ آئے روز کوئی نیا سانحہ ملک عزیز کے باسیوں کو آنسوؤں کے سمندر میں ڈبو جاتا ہے۔ ابھی ایک سانحے کے دلفگار اثرات ذہن سے محو نہیں ہوپاتے کہ دوسرا اپنی تمام تر قہر سامانیوں کے ساتھ دل کو گھائل کرنے کے لیے رونما ہو جاتا ہے۔

ایک آفت کے نتیجے میں بہنے والے آنسو تھمتے نہیں کہ دوسرا حادثہ خون میں لت پت و لتھڑی لاشیں دے کر انھیں آنسوئوں کو لہو میں بدل دیتا ہے۔ ستم یہ کہ غم میں مبتلا کردینے والے المناک واقعات بڑھتے ہی جاتے ہیں اور ہر طرف موت کے سائے منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ کہیں ٹارگٹ کلنگ میں موت، کہیں چوری ڈاکے میں موت، کہیں بم دھماکوں و خودکش حملوں میں موت اور کہیں ٹریفک حادثات میں موت۔ ہر سو موت ہی موت رقص کرتی دکھائی دیتی ہے۔ ان حالات میں علامہ اقبال کے یہ اشعار یاد آتے ہیں ؎

کتنی مشکل زندگی ہے، کس قدر آساں ہے موت
گلشن ہستی میں مانند نسیم ارزاں ہے موت
موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں
ڈوب جاتے ہیں سفینے موت کی آغوش میں

کچھ روز قبل واہگہ بارڈر پر برپا ہونے والی خونریزی کے نتیجے میں 62 لاشوں کا غم ابھی ہلکا نہیں ہوا تھا کہ سندھ میں خیرپور کے قریب ٹھیڑی بائی پاس پر ہونے والے ہولناک ٹریفک حادثے میں 62 افراد کی قیمتی جانوں کے ضیاع کی خبر نے ہر درد مند پاکستانی کا دل بے چین اور رنجیدہ کردیا اوراس قیامت صغریٰ نے پوری قوم کو افسردگی میں ڈبو دیا ہے۔ حادثے کی وجہ اوور لوڈنگ، تیزرفتاری بتائی گئی، جب کہ حادثے کا بڑا اور اصل سبب قومی شاہراہ کی حالت زار ہے، جو نیشنل ہائی وے اتھارٹی کے زیر انتظام طویل عرصے سے زیر التوا ہے۔

افسوس! جس قومی شاہراہ سے روزانہ ہزاروں مسافر گاڑیاں گزرتی ہوں، اس کی مرمت میں انتہائی تاخیر اور لاپرواہی و غفلت سے کام لیا گیا۔ واقعے کے بعد ہر بار کی طرح حکومت و انتظامی اداروں کے سربراہان کی جانب سے تحقیقات کرکے قصوروار عناصر کو منظرعام پر لانے کے اعلانات کیے گئے، حالانکہ یہ اندوہناک سانحہ کوئی پہلا نہیں، بلکہ وقتاً فوقتاً اسی قسم کے سانحات رونما ہوتے رہتے ہیں۔ یہ ہمارا قومی المیہ ہے کہ اکثر ہم واقعہ رونما ہونے کے بعد حرکت میں آتے ہیں۔

حالانکہ کچھ عرصہ قبل ہی گڈانی کے مقام پر دو بسوں کے ٹکرا جانے کے سبب 40 مسافر جاں بحق ہو گئے تھے۔ اسی طرح ملک میں متعدد جگہوں پر اسی قسم کے کئی بڑے ٹریفک حادثات رونما ہونے کے بعد حکومت کی جانب سے ٹریفک حادثات کی روک تھام کے لیے ٹریفک قوانین پر سختی سے عمل درآمد کروانے کے اعلانات کیے گئے، لیکن عمل درآمد نہ ہوا۔ ہر ٹریفک حادثے کے بعد حکومت کی جانب سے ٹریفک حادثات پر قابو پانے کی باتیں ہوتی ہیں، لیکن اس کے بعد کچھ بھی نہیں کیا جاتا اور کچھ روز بعد کوئی اور بڑا حادثہ رونما ہوجاتا ہے۔

آئے روز ملک کے مختلف حصوں میں ٹریفک کے بڑے بڑے حادثات پیش آتے رہتے ہیں، جن میں بیک وقت دسیوں، بیسیوں افراد جان کی بازی ہار جاتے ہیں۔ پاکستان بھر میں اوسطاً 15 سے 30 افراد روزانہ ٹریفک حادثات کا شکار ہو کر اپنی قیمتی جانیں گنواتے ہیں اور متعدد افراد ہمیشہ کے لیے معذور بھی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان میں سالانہ ہونے والے ٹریفک حادثات کی تعداد اندازاً تین لاکھ بتائی جاتی ہے، جن میں سالانہ 13ہزار افراد موت کی بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور پچاس ہزار سے زاید زخمی ہوجاتے ہیں۔ پاکستان کا شمار دنیا کے ان ممالک میں ہوتا ہے، جہاں ٹریفک حادثات بہت زیادہ ہوتے ہیں۔

ان حادثات کی عمومی وجوہات مخدوش سڑکیں، ٹرانسپورٹ کی خراب حالت، ڈرائیوروں کی غفلت، ٹریفک قوانین سے لاعلمی اور گاڑیوں میں گنجائش سے زیادہ مسافر سوار کرنا بتائی جاتی ہیں اور ذمے دار اداروں کی نااہلی و کاہلی کے سبب ٹریفک قوانین کا احترام نہ کرنے کا چلن حادثات میں بے پناہ اضافے کا سبب بنتا ہے۔ پاکستان میں ٹریفک کے اصولوں کی پابندی کی نگرانی کا کوئی جامع اور موثر نظام موجود نہیں ہے۔ روڈ اینڈ سیفٹی کا قانون صرف لکھا ہوا موجود ہے، لیکن اس پر عملدرآمد شاذ ہی ہوتا نظر آتا ہے۔

گاڑیوں کی فٹنس چیک کرنے، ڈرائیوروں کی مہارت واہلیت کو دیکھنے اور شاہراہوں پر ٹریفک کے اصولوں پر عملدرآمد کروانے کا اہتمام نہ ہونے کے برابر ہے۔ بدقسمتی سے سب سے زیادہ بدعنوانی، کرپشن اور رشوت ستانی ٹرانسپورٹ کے شعبے میں ہوتی ہے۔ عشروں پرانی گاڑیاں ہماری شاہراہوں پر موت بانٹتی پھر رہی ہوتی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ جب کہ ہماری عام سڑکیں تو درکنار قومی شاہراہیں بھی تعمیر ومرمت کے بین الاقوامی معیار پر پوری نہیں اترتیں۔ سڑکوں کی تعمیر کے اربوں روپے کے فنڈز بدعنوانی اور کمیشن مافیا کی نذر ہوجاتے ہیں۔

مہذب معاشروں میں ٹریفک قوانین پر عملدرآمد کے لیے نہ صرف سخت قوانین موجود ہیں، بلکہ عوامی شعور کی بیدار ی کے لیے مختلف ادارے بھی قائم ہیں۔ معاشرے کی اخلاقی ترقی میں انسانی شعور بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ یورپین ممالک میں ٹریفک حادثات کے نتیجے میں اموات کی شرح انتہائی کم ہے۔ یورپ میں متعدد بار ایسے ٹریفک حادثات بھی رونما ہوئے، جن میں بیک وقت کئی کئی سو گاڑیاں آپس میں ٹکرائیں، لیکن ہلاک ہونے والوں کی تعداد صرف دو یا تین تھی، جب کہ ہمارے ملک میں ہونے والے حادثات کے نتائج انتہائی بھیانک و خوفناک ہوتے ہیں، یہاں ایک ایک حادثے میں ساٹھ ستر افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔

اس کی وجہ یہی ہے کہ ان ممالک میں ٹریفک قوانین پر سختی سے عملدرآمد کروایا جاتا ہے۔ گاڑیوں میں اوورلوڈنگ پر بھی سخت پابندی ہے اور گاڑیوں کو اس وقت تک سڑک پر آنے کی اجازت نہیں ہوتی، جب تک ان کو فٹنس سرٹیفکیٹ نہ جاری کردیا جائے اورگاڑی میں سفر کے دوران بیلٹ باندھنے کی پابندی کی وجہ سے حادثات میں نقصان انتہائی کم ہوتا ہے اور وہاں فوری طور پر امدادی کارروائی کرنے سے بھی حادثات کے نقصانات انتہائی کم ہوتے ہیں، لیکن ہمارے یہاں ہر معاملہ ہی الٹ ہے۔ ٹریفک قوانین پر نہ تو انتظامیہ سختی سے عمل درآمد کرواتی ہے اور نہ ہی ڈرائیور قوانین کی پروا کرتے ہیں۔

ٹریفک حادثات کے مشاہدات اس بات کے غماز ہیں کہ ٹریفک کے زیادہ تر حادثات ٹریفک قوانین کی خلاف ورزی کی وجہ سے ہی رونما ہوتے ہیں۔ اس لیے ہمارے مواصلات کے پورے نظام پر ازسرنو غور کرنے اور اس میں انقلابی تبدیلیاں لانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ساتھ پورے ملک میں ایسے اداروں کا قیام ضروری ہے، جہاں ڈرائیور اور کنڈیکٹر حضرات کی مناسب تربیت ہوسکے۔ ایسے اداروں سے تربیت کے بعد ہی ڈرائیور حضرات کو باقاعدہ سرٹیفکیٹ کا اجرا کیا جائے۔ ملک میں ٹریفک حادثات پر قابو پانے کے لیے ٹریفک قوانین کی پابندی ہر شہری پر لازم ہے۔ جب تک بحیثیت قوم سب ٹریفک قوانین پر عمل نہیں کریں گے تو اس وقت تک ان سانحات میں کمی کا واقع ہونا انتہائی مشکل ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں