پیوستہ رہ شجر سے

ہمارے حکمرانوں کا ہے کہ ان کی ہوس کی بھوک ختم نہیں ہو رہی ہے، پورے ملک کو کھا گئے، قومی خزانے کو لوٹ لیا۔


فاطمہ نقوی November 18, 2014
[email protected]

ایک شخص بہت پیٹو تھا، وہ کسی دن اپنے دوست کے گھر بغیر اطلاع کے کھانے پر پہنچ گیا، کیونکہ دوست کو اس کے آنے کی کوئی خبر نہ تھی اس لیے گھر میں کھانے کا کوئی خاص انتظام نہیں تھا، جو کچھ گھر والوں کے لیے بنا ہوا معمولی طریق کا کھانا تھا وہ موجود تھا، میزبان نے سوچا ایک آدمی تو ہے میرا بھرا کنبہ ہے، اس لیے ایک آدمی کے کھانے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا اس لیے علیحدہ سے کوئی انتظام نہیں کیا اور دسترخوان لگا دیا۔

مہمان نے کھانا شروع کیا کچھ دیر گزری سالن ختم ہوگیا میزبان سالن لینے گیا جب واپس آیا تو روٹی ختم ہوگئی روٹی لینے گیا تو پھر آکر دیکھا تو سالن ختم۔ غرض یہ کہ اس طرح گھر کے تمام افراد کا کھانا اس شخص نے کھا لیا جب جاکر کہیں مہمان نے ڈکار لی۔ کھانے کے بعد دونوں دوست ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے، میزبان نے دریافت کیا کدھر کا قصد ہے، مہمان نے کہا میں دوسرے شہر علاج کے لیے جا رہا ہوں، چند روز سے ہاضمے میں فتور آگیا ہے کہ بھوک مطلق نہیں لگتی، تم نے بھی دیکھا کہ میں نے کتنا کم کھانا کھایا ہے، بس یہی پریشانی ہے کہ پیٹ نہیں بھرتا بھوک نہیں لگتی۔

یہی حال ہمارے حکمرانوں کا ہے کہ ان کی ہوس کی بھوک ختم نہیں ہو رہی ہے، پورے ملک کو کھا گئے، قومی خزانے کو لوٹ لیا، کرپشن میں لاکھوں کیا اربوں کھربوں ڈکار گئے، مگر پھر بھی کہنا یہی ہے کہ پیٹ نہیں بھرا۔ حد تو یہ ہے کہ بجلی کے اوور بلنگ کے اربوں بھی ڈھٹائی سے کھا گئے، نہ زمین پھٹی نہ آسمان گرا بلکہ پارلیمنٹ میں بیٹھ کر یہاں تک کہا گیا ہاں ہم نے اوور بل بنا کر بھیجے ہیں۔ مگر کسی نے کسی وزیر سفیر کو سزا نہ دی، نہ کسی نے استعفیٰ دیا، حکمران تو ایسے بن گئے جیسے کہ کچھ جانتے ہی نہیں۔ پھر عوام کی دادرسی کے لیے ارشاد ہوا کہ اب یہ تمام معاملات دیکھیں گے۔

اقتدار میں آنے سے پہلے ہمارے حکمرانوں کے انداز و اطوار کچھ اور ہوتے ہیں اور اقتدار میں آنے کے بعد جو ذمے داریاں عوامی نمایندوں کی ہوتی ہیں انھیں یکسر فراموش کردیا جاتا ہے، پھر تو کون میں کون والا معاملہ ہوجاتا ہے۔ عوام کے مسائل سے نظریں چرانا ہی بہتر پالیسی ہوتی ہے کیونکہ اقتدار کی مسند پر بیٹھ کر اگر عوام کے لیے کام کیا تو کیا اصل مقصد تو الیکشن پر لگائے گئے اخراجات کی سود در سود وصولی سے بھی زیادہ کا کوئی معاملہ بن جاتا ہے اور کس قدر باعث شرم بات ہے کہ جن علاقوں سے یہ لوگ منتخب ہوتے ہیں ان ہی علاقوں میں اسکول، کالج، علاج معالجے کی سہولتوں کا فقدان ہوتا ہے مگر ان کے، ان کے گھر والوں کے علاج معالجے الحمد للہ جدید ملکوں میں ہو رہے ہوتے ہیں۔

اگر پورے ملک کی حالت پر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو اس وقت ملک چاروں طرف سے کرپشن، بے انصافی، بدامنی، دہشت گردی، پبلک ٹرانسپورٹ کی عدم موجودگی ، دن بہ دن بڑھتی ہوئی مہنگائی، بنیادی سہولیات کا فقدان، قدرتی وسائل کا یا تو بے دریغ استعمال یا پھر ان کو استعمال نہ کرنے کی قسم، صوبائی خودمختاری سے محرومی، بلدیاتی انتخابات سے دوری جیسے مسائل میں گھرا ہوا ہے جس کی وجہ سے ایک عام آدمی شدید بے چینی اور مایوسی کا شکار ہے، مگر ہمارے لیڈران نے اپنی تقریروں میں یا تدبیروں میں ان مسائل کو موضوع بنایا یا ان کو ختم کرنے کے لیے سنجیدگی سے کوشش کی؟

ہوا تو یہ ہوا کہ اگر تھر میں سیکڑوں بچوں نے غذائی قلت کی وجہ سے اپنی جان جان آفرین کے سپرد کی تو وقت کے بادشاہ نے یہ کہہ کر بات ہی ختم کردی کہ بچے بھوک سے نہیں غربت سے مرے ہیں، کوئی ان بے حس حکمرانوں سے پوچھے کہ یہ غربت ہی تو بھوک کو جنم دیتی ہے، ان کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے مگر یہ بے حس لوگ کیا جانیں کہ بھوک ہوتی کیا ہے ان کی بھوک تو کچھ اور ہے جو بجائے کم ہونے کے بڑھتی جا رہی ہے کیا بلاول نے ان ریمارکس کا کچھ نوٹس لیا۔ غریبوں کی پارٹی کی قیادت ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں جنھوں نے کرپشن کو ایک نیا راستہ دکھایا ہو، وہ کیا جانیں کہ غربت کیا ہوتی ہے۔

ان کا فارمولہ ہے غریب کو ختم کردو غربت خود بخود ختم ہوجائے گی اور یہی وجہ ہے کہ قومی ادارے خسارے میں جا رہے ہیں مگر افسران کے ٹھاٹ باٹ ہیں کہ وہی ہیں۔ کتنے لوگوں کو سزا ملی، کتنے لوگوں سے بیرون ملک میں رکھا، پیسہ وصول کیا گیا، کوئی ہے جو ان لوگوں کو کٹہرے میں لاکر کھڑا کرے؟ مگر حال یہ ہے کہ سزا دینا تو درکنار باز پرس تک نہیں ہوتی بلکہ مفاہمت کی سیاست کے نام پر ایک دوسرے کے عیبوں کو چھپایا جاتا ہے، ادھر عوام ہیں کہ ٹیکس در ٹیکس کے جال میں اس طرح الجھے ہیں کہ یہ ڈور سلجھ کے ہی نہیں دے رہی ہے۔

پاکستان میرے خیال میں تو دنیا کا وہ ملک ہے جہاں ٹیکسوں کا بوجھ عوام کی طاقت سے باہر ہے مگر اب بھی عوام کو گنے کی طرح ٹیکس مشین میں ڈال کر آخری قطرہ تک نچوڑنے کا پروگرام بنائے بیٹھے۔ یہ حکمران ابھی بھی خواب غفلت کے مزے لوٹ رہے ہیں مگر شاید وہ وقت اب قریب ہے کہ عوام اپنے ساتھ کیے گئے، ایک ایک ظلم کا حساب لے سکیں، کیونکہ شعور کی بیداری شروع ہوچکی ہے، ووٹ کی طاقت کا اندازہ آہستہ آہستہ ہو رہا ہے، اس لیے کہتے ہیں پیوستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ۔ شاید کبھی ایسا ہو کہ ایسے حکمران عوام کے ووٹوں کی طاقت سے منتخب ہوکر مسند اقتدار پر بیٹھیں جو واقعی مثالی حکمران ہوں، جن کے پیش نظر صرف اور صرف عوام کی فلاح و بہبود کے منصوبے ہوں، ایسا وقت ضرور آئے گا مگر اس وقت جب عوام اپنے ووٹ کا استعمال خودمختار ہوکر کریں گے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں