پاکستان ایک نظر میں بہتر ہوتے پاک افغان تعلقات

افغانستان میں نئی حکومت کےقیام کےبعد امید یہی ہےکہ دونوں ممالک ماضی کی تلخیوں کو بھولاکرنئےعزم کیساتھ مل کرکام کرینگے۔


سہیل اقبال خان November 18, 2014
لگ یوں رہا ہے کہ جیسے افغان نئی قیادت ماضی کی تلخ یادوں کو بھلا کر اب پاکستان کے ساتھ مل کر ہر شعبے میں کام کرنا چاہتی ہے مگر میرے نذدیک یہ سب اُسی وقت ممکن ہوسکے گا جب سب سے بڑا یعنی دہشت گردی مسئلہ حل ہو۔ فوٹو: فائل

پاکستان ایک پرامن اور تعاون کرنے والے ہمسایہ ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے کا ہمیشہ سے خواہاں رہا ہے۔ کچھ ہمسائیہ ممالک نے تو خوب پاکستان کے ساتھ ہمسائے ہونے کا حق ادا کیا،لیکن دوسری جانب کچھ ممالک میں ایسی قیادتیں بھی موجودر ہیں جنہوں نے ہمیشہ تعلقات میں کشیدگی کو پروان چڑھانے کے لیے ہوا دی۔

لیکن افغانستان کا معاملہ کچھ مختلف ہے۔ جب پاکستان نے طالبان کی حکومت کو تسلیم کیا تو اُس وقت پاک افغان تعلیم اگر مثالی نہیں تو کم از کم بہت اچھے ضرو ر تھے۔ مگر پھر حالات نے کروٹ لی اور سب کچھ بدل کر رہ گیا۔ جو دوست تھے وہ دشمن بن گئے اور پھر ایک دونوں ممالک کی قیادت نے ایک دوسرے الزامات کی بارش شروع کردی۔جس نے پاک افغان تعلقات کو بہتر نہ ہونے دیا اور نہ ہی وہ اعتماد قائم ہو سکا جو کبھی ماضی میں ہوا کرتا تھا۔خاص طور حامد کرزئی کی قیادت نے تو پاک افغان تعلقات میں اس حد تک کشیدگی پیدا کی کہ یوں لگنے لگا تھا جیسے ان ممالک میں اب کبھی اچھے تعلقات پیدا ہی نہیں ہو سکتے۔

لیکن افغانستان میں نئی قیادت کے آنے سے بہت سے زیادہ لچک کا مظاہرہ کیا جا رہا ہےیہ امید ضرور پیدا ہوئی ہےکہ شاید اب پاکستان اور افغانستان کے درمیان تعلقات بہتری کی جانب گامزن ہوں گےاور افغان صدر اشرف غنی کے موجودہ دورہ پاکستان نے اِس اُمیدکو ایک حقیقت کے روپ میں تبدیل کرنا شروع کیا ہے۔

افغانستان کے نئے صدر کا دورہ پاکستان نہایت کامیاب قرار دیا جا رہا ہے۔ اس دو روزہ دورے میں دونوں ملکوں کے درمیان گئی شعبوں میں تعاون کا یقین دلانے کا اظہار کیا گیا۔افغان صدر کا موجودہ دورہ اس لئے بھی کامیا ب قرار دیا گیا کیوں کہ اس دورے میں ماضی کی روایات کو چھوڑ کر افغان صدر نے شکوے شکایات اور الزامات کی بجائے اعتماد،تعاون اور ہاہم مل کر کام کرنے کی خواہش کا اظہار کیا گیا۔

میرے خیال میں یہ دورہ دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد بحال کرنے میں نہایت سود مند ثابت ہوگا کیونکہ اس دورے میں مجھے افغان صدر کی جانب وہ لچک دیکھنے کو ملی جو شاید ماضی میں نہیں تھی۔ اُمید تو یہی ہے کہ اِس لچک کے فوائد اب آہستہ آہستہ دونوں ممالک کے درمیان دفاع،تجارت سمیت تمام شعبوں میں نظر آتے دیکھائی دیں گے۔

لگ یوں رہا ہے کہ جیسے افغان نئی قیادت اب پاکستان کے ساتھ مل کر ہر شعبے میں کام کرنا چاہتی ہے۔مجھے ذاتی طور پر یہ سن کر خوشی ہوئی ہے کہ اس بار پاک افغان قیادت کی جانب سے تمام مثبت باتیں سامنے آئیں اور یہی خطے کے امن اور دونوں ممالک کے مفاد کے لئے بہتر ہے کہ دونوں ممالک مل کر کام کریںاور باہم تعاون سے ہر ایک شعبے میں ترقی کریں۔

مگر میرے نذدیک یہ سب اُسی وقت ممکن ہوسکے گا جب سب سے بڑا یعنی دہشت گردی مسئلہ حل ہو، جس نے دونوں ممالک کے لئےمسائل کے انبار لگادیے ہیں اگر یہ کہا جائے کہ یہ مسئلہ دونوں ممالک کے درمیان اچھے تعلقات میں ایک رکاوٹ ہے تو ہرگز غلط نہ ہوگا۔ اس بار اشرف غنی کی جانب سے جہاں تمام شعبوں پر تعاون کا یقین دلایا گیا تو دوسری جانب دہشت گردی سے نمٹنے کے لئے بھی ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنے کی جانب ہاتھ بڑھایا گیا۔

خطہ میں اگرچہ طاقت کا کھیل جاری ہے اور خود افغانستان سے بیٹھ کر بیرونی طاقتیں اور ہمارے پڑوسی ممالک بشمول بھارت اپنی سیاست کررہے ہیں اور سازشوں کے بیچ بو رہے ہیں جس کو پروان چڑھانے میں سابق افغان صدر حامد کرزئی نے اپنا بہت کردارادا کیا تھا۔ مگر نئی حکومت کے قیام کے بعد بس اب امید یہی ہے کہ اب کی بار دونوں ممالک ماضی کی تمام تلخیوں کو بھولا کرہمیں نئے عزم کے ساتھ مل کر کام کرینگے اور ماضی کی طرح اس بار بھی اگر صرف الزامات لگائے جاتے رہے تو بس پھر مسائل وہیں کے وہیں موجود رہیں گے اور ماضی کی طرح اب بھی پاک افغان تعلقات میں کشیدگی قائم رہے گی۔

نوٹ: روزنامہ ایکسپریس اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 800 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر ، فیس بک اور ٹویٹر آئی ڈیز اوراپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کریں۔ بلاگ کے ساتھ تصاویر اورویڈیو لنکس بھی بھیجے جا سکتے ہیں۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔