ہم حالات کے مارے نہیں
دنیا کے تمام جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی ، استحکام اور ترقی کی وجہ نظام ضرور ہے۔
تلخ زمینی حقائق یہ ہیں کہ حکمرانوں کے خلاف ہونے والے جلسے جلسوں کی وجہ سے ہر آنے والے لمحے میں ان کی عوامی حمایت ختم ہو رہی ہے۔ فی الحال ان کے ووٹر کم ہو رہے ہیں رفتہ رفتہ ان کے ورکر ز کم ہو جائیں گے اور ایسا لگتا ہے کہ آنے والے وقتوں میں ان کی جماعت چند سیٹوں تک محدود ہو جائے گی لہذا وہ بڑی بڑی باتیں کرنے کے بجائے زمین کی طرف دیکھیں جو ان کے پیروں سے آہستہ آہستہ سرک رہی ہے۔
حکمرانوں کو اپنی تیزی سے گری ہوئی ساکھ کو بچانے کی کوشش کرنی چاہیے کیونکہ وہ اپنے ساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کو بھی سخت مسائل سے دو چار کر چکے ہیں اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ آنے والا وقت بڑے بحران کی طرف بڑھ رہا ہے حالات کو پیچیدہ تر بنانے کی ساری ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے لگتا ہے وہ خو ف اور مایوسی دونوں سے دو چار ہو چکے ہیں خوف اور مایوسی میں کیے گئے تما م فیصلوں کے اثرات ہمیشہ تباہ کن نکلتے ہیں جو نکل رہے ہیں۔
اگا تھا کرسٹی کا ناول ''مرڈر ان دی اورینٹ ایکسپر یس'' آپ میں سے اکثر نے پڑھا ہو گا اس نا ول پر فلم بھی بن چکی ہے۔ کہانی کے مطابق ایک ٹرین میں قتل ہو جاتا ہے اس ٹرین میں ایک سراغ رساں بھی موجو د ہے جب وہ تفتیش کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ جس ڈبے میں ایک مسافر کا قتل ہوتا ہے اس ڈبے کے ہر مسافر نے اس قتل میں حصہ لیا ہوتا ہے۔ یہ ناول اس لیے یاد آیا ہے کہ ہمارے حکمرانوں کے ساتھ بھی سب کچھ اسی طرح ہوا ہے حالات کو بگاڑنے مسائل میں اضافہ کرنے کشیدگی کو ہوا دینے اور معاملات کو اس نہج پر لے جانے پر جہاں سے واپسی ناممکن ہو سب حکومتی اراکین نے اس 'کار خیر' میں اپنا اپنا حصہ ڈالا ہے ۔
اصل میں حالات کی بہتری یا ابتری کی جانب جانے میں انداز حکمرانی کا اصل ہاتھ ہوتا ہے کیونکہ رویے نتائج کے ذمے دار ہوتے ہیں دنیا کے تمام جمہوری اور ترقی یافتہ ممالک کی خوشحالی ، استحکام اور ترقی کی وجہ نظام ضرور ہے لیکن کامیابی کی اصل وجہ کا راز انداز حکمرانی میں پنہاں ہے نظام حکمرانوں کو راستہ بتاتا ہے لیکن اس راستے پر سفر کے دوران آنے والی مشکلات کو کم کرنے یا انھیں اور بڑھانے میں سارا کردار آپ کے انداز سفر اور آپ کے رویے پر ہوتا ہے ۔
رویہ وہ واحد پیمانہ ہے جو یہ بتاتا ہے کہ آپ منزل پر پہنچیں گے یا کسی کھائی میں پڑے درد سے کراہ رہے ہونگے ۔ آپ کی سوچ آپ کے رویے کو جنم دیتی ہے اس لیے انسان اپنی سو چ سے زیادہ کچھ نہیں ۔ ایمرسن نے کہا تھا ''انسان وہی کچھ ہے جو وہ تمام دن سو چتا ہے اور اس سے مختلف وہ ہو بھی کیا سکتا ہے'' ہماری زندگی بازگشت جیسی ہے ہم وہی پاتے ہیں جو دیتے ہیں۔ فرینکلن نے کہا تھا جب تم دوسرے کے لیے اچھے ہوتے ہو تو اپنے لیے بہترین ہوتے ہو۔ مشہور فلسفی ابن طفیل ایک روز اپنے گھر سے چلاتا ہوا باہر آیا اور خوش ہو کر لوگوں کو بتانے لگا کہ اے لوگو میں نے وہ راز پا لیا ہے۔
جس سے انسانی معاشرہ خو ش و خرم رہ سکتا ہے ایک دوست نے دریافت کیا ذرا بتائیے وہ کس طرح ابن طفیل نے جواب دیا۔ کا ئنات کی ہر چیز دوسروں کے لیے ہے درخت اپنا پھل خو د نہیں کھاتے دریا اپنا پانی خود نہیں پیتے یہ بہاریں یہ بر ساتیں یہ نغمے سب دوسروں کے لیے ہیں بس وہی زندگی اچھی ہے جو دوسروں کے لیے ہو ۔ بس صرف یہ ہی وہ واحد راز ہے جس سے آپ اور باقی سب خو ش و خرم رہ سکتے ہیں ۔ یاد رہے پیسوں سے خوشیاں نہیں خریدی جا سکتیں اور اب تو سائنس نے بھی یہ بات تسلیم کر لی ہے۔ سان فرانسسکو کی ایک یونیورسٹی کے ماہرین کی جانب سے کی گئی ایک نئی تحقیق کے مطابق پیسوں سے دنیا کی تمام تر آسائشیں تو خریدی جا سکتی ہیں لیکن خوشیاں نہیں۔ یہ راز ہمارے کرتا دھر تا سمجھ نہیں پا رہے۔
یا یہ کہ سمجھنا نہیں چاہتے اسی لیے انھوں نے اپنے عیش و عشرت، شان و شوکت کی خاطر لوگوں کو زندہ در گور کر رکھا ہے۔ ہم سب حالات کے مارے ہوئے نہیں بلکہ اس ہی سو چ کے مارے ہوئے ہیں کہ سب کچھ ہمارا ہے اس پر کسی اور کا کوئی حق نہیں۔ ہم صرف حکمرانی کے لیے پیدا ہوئے ہیں اور باقی سب غلامی کے لیے اسی لیے انھوں نے ملکی وسائل کا رخ عوام کے بجائے اپنے اور اپنے پیاروں کی طرف موڑ ا ہوا ہے ہم 67 سالوں سے سنتے آ رہے ہیں کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے۔ عوام قربانیوں کے لیے تیار ہو جائیں اور بیچارے عوام قربانیوں پہ قربانیاں دیتے چلے آ رہے ہیں نہ ملک پر نازک وقت ختم ہو رہا ہے اور نہ ہی عوام پر۔
قوم 67 سالوں سے مشکلوں میں ہے اور مشکل کشا ہیں کہ قربانیاں لیتے لیتے تھک ہی نہیں رہے ہیں قوم غریب سے غریب تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور مشکل کشا امیر سے امیر تر ہوتے چلے جا ر ہے ہیں بے شرمی کی بھی ایک حد ہوتی ہے ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ملک اور قوم کو مکمل سماجی، سیاسی اور معاشری طور پر کنگال اور دیوالیہ کرنے کے بعد تمام سیاسی جماعتیں یک سو ہو کر قوم سے معافی مانگتیں اور اپنی مکمل ناکامی کا اعتراف کر کے ملک اور قوم کو لاحق تمام مسائل ان کی وجوہا ت اور ان کے حل کے لیے آیندہ کا لائحہ عمل سو چتیں۔ اور ملکی وسائل کا رخ اپنے بجائے عوام کی طرف کر دیتیں ۔ جو ملکی وسائل کے اصل مالک ہیں۔
لیکن کیا کریں ہم اچھا بننے کی اتنی کوشش نہیں کرتے جتنی کوشش اچھا نظر آنے کی کرتے ہیں۔ یاد رہے پاکستان کے عوام سب کچھ جان چکے ہیں اور سمجھ چکے ہیں۔ آج نہیں تو کل وہ سب کو انصاف کے کٹہرے میں لا کھڑا کر یں گے۔ پھر آپ کے پاس سوائے ندامت کے کچھ اور نہ ہو گا۔ اگر آپ یہ سمجھ رہے ہیں کہ کل بھی سب کچھ ویسا ہی ہوتا رہے گا جیسا کہ کل ہوتا آیا ہے تو آپ انتہائی غلط فہمی کا شکار ہیں۔ اور ساتھ ساتھ یہ بات بھی یاد رہے کہ عوام کبھی غا صبوں، لٹیروں کو معاف نہیں کرتی ہیں۔ اس لیے آپ اپنے مستقبل کا کیا فیصلہ کرتے ہیں یہ آپ پر منحصر ہے۔ وقت تیزی سے نکلا جا رہا ہے اس لیے فیصلے کر نے میں دیر نہ کریں۔