پاکستانیوں کو پاکستانی سمجھا جائے
دہری شہریت کے حامل بعض ارکان نے غیر ملکی شہریت کو ترک کر دیا۔
KARACHI:
بیرون ملک مقیم اور دوسرے ممالک کی شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کی خدمات اور حب الوطنی بلاشبہ ملک میں بسنے والے شہریوں سے کسی طرح کم نہیں بلکہ بہت زیادہ ہیں۔ وہ ملک کے لیے متفکر رہتے ہیں، ہر آڑے وقت میں ملک کی قانونی، اخلاقی و مالی امداد و تعاون میں قابل رشک خدمات سر انجام دیتے ہیں، ملک کے لیے کثیر زرمبادلہ کے علاوہ اپنی پیشہ ورانہ صلاحیت اور سیاسی و سماجی حیثیت سے بھی ملک و قوم کی خدمات میں پیش پیش رہتے ہیں۔
کچھ برسوں سے دہری شہریت رکھنے والے پاکستانیوں کے انتخابات لڑنے کے حق کے سلسلے میں بحث و تمحیث کا سلسلہ بڑی شد و مد سے چل رہا ہے۔ 1973ء کے آئین میں انتخابات لڑنے والوں کی نااہلیت کی وجوہات کی جو فہرست درج ہے اس میں اول نمبر پر دہری شہریت والوں کی نااہلیت کا ذکر ہے۔ اس موقف کی مخالفت اور موافقت میں بہت سے دلائل دیے جاتے ہیں۔ یہ معاملہ سپریم کورٹ تک بھی پہنچا تھا جس نے آئین و قانون کے مطابق ایسے ارکان پارلیمنٹ کو نمایندگی کے لیے نااہل قرار دیا تھا بلکہ ان کی فہرستیں طلب کر کے انھیں فارغ کرنے کا حکم بھی دیا تھا۔
دہری شہریت کے حامل بعض ارکان نے غیر ملکی شہریت کو ترک کر دیا، بہت سے اصل حقیقت چھپانے اور معاملے کو طول دینے کی کوششوں میں سرگرداں رہے، کچھ لوگوں نے اس پابندی کے خاتمے کے لیے قانونی راستہ اختیار کرنے کی کوششیں بھی کیں۔ گزشتہ روز دہری شہریت رکھنے والوں کے انتخابات لڑنے پر پابندی کے خاتمے کا بل قائمہ کمیٹی نے کثرت رائے سے مسترد کر دیا۔ یہ بل متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے پیش کیا گیا تھا لیکن اس کی مخالفت میں پی پی پی، (ن) لیگ، جماعت اسلامی اور جمعیت علمائے اسلام سمیت دیگر جماعتیں بھی یکجا ہو گئیں حالانکہ خود پی پی پی اور (ن) لیگ میں کافی تعداد میں ایسے ارکان اسمبلی اور سینیٹ میں جو دہری شہریت کے حامل ہیں، ان پارٹیوں کو اندرونی طور بھی اس پابندی کے خاتمے کے لیے دباؤ تھا۔
غیر ملکی شہریت کے حامل افراد اس ملک کی وفاداری اور اس کے مفادات کو ہر مقصد پر مقدم رکھنے کا اور اس کے لیے ہتھیار اٹھانے کا بھی عہد کرتے ہیں۔ جب کہ ارکان پارلیمنٹ کے حلف میں بھی یہ بات شامل ہے کہ وہ پاکستان کے تشخص اور قومی مفادات کو ہر چیز پر مقدم رکھیں گے، اس طرح یہ دونوں حلف باہم متضاد و متصادم ہو جاتے ہیں جب تک کہ کسی ایک کو ختم نہ کیا جائے۔
دنیا بھر کے بیشتر ممالک میں دہری شہریت کے حصول کو اچھی نظروں سے نہیں دیکھا جاتا اور وہاں پر شہریوں کے اس حق پر پابندی عائد ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اور سیاسی صورتحال میں اس کی اہمیت مزید بڑھ جاتی ہے۔
اگر دہری شہریت کے حامل افراد میں بذریعہ اختیار و اقتدار ملک و قوم کی خدمت کرنے کا اتنا ہی جذبہ ہے تو انھیں ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں دہری شہریت ترک کر کے اس بات کا عملی ثبوت فراہم کر دینا چاہیے جیسا کہ بہت سے لوگوں نے کیا بھی ہے تا کہ کسی قسم کا شک و شبہ یا رسک کے امکانات باقی نہ رہیں۔ جب کوئی شہری کسی دوسرے ملک کے آئین و قانون سے وفاداری کا حلف اٹھاتا ہے تو وہ پاکستان کے مقابلے میں اس ملک سے وفاداری کا پابند ہو جاتا ہے۔ اس کی شہریت اس بات سے مشروط ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کے بجائے اس ملک کا وفادار ہو گا۔
دہری شہریت کے حامل افراد کی حب الوطنی پر تو کسی قسم کا شک و شبہ نہیں کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی کرنا چاہیے لیکن وطن دشمن عناصر سے محفوظ رہنے کے لیے ضروری ہے کہ یہ قانون بحال رکھا جائے تا کہ کوئی اس کا ناجائز فائدہ نہ اٹھا سکے۔ جب دہری شہریت کے حامل شہریوں کے لیے غیر ملکی شہریت ختم کر کے انتخابات لڑنے کا اختیار موجود ہے تو انھیں اس قانون کی مخالفت کرنے کے بجائے وسیع تر قومی مفاد میں اس پابندی کا احترام کرنا چاہیے، خاص طور پر سپریم کورٹ کے فیصلے اور اب اس بل کے مسترد کیے جانے کے بعد یہ ہی ایک قانونی و اخلاقی راستہ بنتا ہے۔ اثر و رسوخ اور عزائم کے حامل کچھ لوگ اس پابندی کو ختم کرنے کی کوششوں میں لگے ہوئے ہیں تا کہ وہ اقتدار اور غیر ملکی شہریت دونوں سے لطف اندوز ہو سکیں۔
گزشتہ روز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے داخلہ کے اجلاس میں ایک سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا کہ نادرا میں غیر ملکی خفیہ ایجنسیوں را اور موساد سمیت دیگر غیر ملکی شہریوں کو پاکستانی شہریت دینے کا مذموم عمل جاری ہے، جس کے لیے مخصوص سافٹ ویئر کے حامل لیپ ٹاپ استعمال کیے گئے ہیں۔ کمیٹی نے اس معاملے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے چیئرمین نادرا سے رپورٹ طلب کر لی ہے۔ چیئرمین نادرا نے بتایا کہ غیرقانونی سرگرمیوں میں ملوث 76 اہلکاروں کو فارغ کر دیا گیا ہے، مزید اہلکاروں کی تحقیقات کی جا رہی ہے۔
پاکستان کی موجودہ دہشت گردی، سیاسی عدم تحفظ و خلفشار اور اندرونی و بیرونی سازشوں کی فضا میں یہ خبر کتنی تشویش ناک ہے، شاید ہمیں اس کا ادراک نہیں ہے۔ اس کو ایک عام سی خبر سمجھ کر زیادہ اہمیت نہیں دی جا رہی ہے۔ را اور موساد کے لوگ پاکستان کی جعلی شہریت کسی گوشہ جنت یا سیاسی پناہ، کاروبار، ملازمت یا کسی کارخیر کی جستجو میں حاصل نہیں کر رہے بلکہ اس ملک کو عدم استحکام اور خلفشار کے ذریعے جہنم بنانے کی منصوبہ بندیوں میں مصروف ہیں اور جو عاقبت نا اندیش لوگ چند ٹکوں کے مالی مفاد کی خاطر ملکی سالمیت دفاع اور استحکام کو داؤ پر لگا رہے ہیں وہ قومی مجرم اور ناقابل معافی ہیں۔
ان حرکتوں کے مرتکب افراد کے خلاف آئین کے تحت غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے۔ کیا اس قسم کے قبیح قومی جرم کے مرتکب افراد کی سزا صرف یہ ہے کہ ان کے خلاف محکمانہ کارروائی کر کے کچھ کو محض ملازمتوں سے فارغ کرنے پر اکتفا کیا جائے۔ اس نیٹ ورک اور اس کے کرتا دھرتاؤں کو تلاش کرکے نشان عبرت بنا دینا چاہیے، جو اس درجہ ملک دشمنی میں ملوث ہیں۔
ہزاروں کی تعداد میں پاسپورٹ اور شناختی کارڈ گم ہو جانا اور اسمگلنگ و انسانی اسمگلنگ کے واقعات ہو چکے ہیں، گمشدہ پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیسے گم ہو گئے، کس مقصد کے لیے گم کیے گئے ان کا کہاں کہاں اور کیا کیا استعمال ہوتا ہے غور طلب ہے۔ گزشتہ روز ایک پاکستانی خاتون اور اس کے دو بچوں کے جعلی پاسپورٹ پر یورپ بھیجنے والے گروہ کے افراد کو گرفتار کیا گیا جو 38 لاکھ روپے لے کر اس خاندان کو سوئیڈن پہنچانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کا ایک کارندہ خاندان کی رہنمائی کے لیے اس کے ساتھ ساتھ سفر کر رہا تھا، جنھیں ترکی ایئرپورٹ پر دھر لیا گیا۔
اس انسانی اسمگلنگ میں مدد دینے والے ایف آئی اے اور امیگریشن عملے کے خلاف بھی تحقیق کی جا رہی ہے۔ پاکستان میں انسانوں کی مختلف طریقوں سے اسمگلنگ کا کاروبار بھی طویل عرصے سے منظم طریقے سے جا ری ہے جس کے دوران بعض اوقات تو کنٹینر میں دم گھٹ جانے، بحری جہاز کے ٹینک میں غلطی سے پانی بھر دینے اور اسمگل کیے جانے والے بچوں کی بس میں آگ لگ جانے سے اجتماعی ہلاکتوں کے بڑے بڑے واقعات رونما ہو چکے ہیں۔ لیکن ہر سانحے کے بعد بیانات و دعوؤں کے سوا کچھ اقدامات دیکھنے میں نہیں آ سکے، جن سے اس مذموم کاروبار کا تدارک ہو سکے یا نمایاں کمی ہی واقع ہو سکے۔
البتہ پاکستانیوں کے لیے یہ ادارے بڑے فعال اور مستعد نظر آتے ہیں جن میں بعض کے لیے تو شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کا حصول جوئے شیر لانے کے مترادف ہے، حج و عمرہ کے خواہش مند ضعیف العمر افراد تک ایسے ایسے اعتراضات لگائے جاتے ہیں جنھیں سن کر عقل حیران ہو جاتی ہے، مثلاً 70 سالہ خاتون سے شوہر اور اولاد کو پاسپورٹ جاری کرنے کے باوجود اس کا نکاح نامہ طلب کرنا، ماں، باپ کے شناختی کارڈ، ب فارم اور پیدائشی اور تعلیمی سرٹیفکیٹ کے باوجود دادا کا شناختی کارڈ طلب کرنا، تیار شناختی کارڈ اور پاسپورٹ کے باوجود انھیں پولیس ڈپارٹمنٹ سے انکوائری کے لیے بھیجنا جہاں رشوتوں کا بازار گرم رہتا ہے۔ حکومت، حکومتی اداروں اور انسانی حقوق کے اداروں کو اس انسانی پہلو پر بھی توجہ دینی چاہیے۔