جمہوری سیاست کا انوکھا لاڈلا

ابتدا میں عمران خان نےایک ایسی نگراں حکومت بنانےکامطالبہ کرڈالاجسےآئینی اوردستوری تقاضوں کےتحت پورا کرنا نا ممکن تھا۔


Dr Mansoor Norani November 19, 2014
[email protected]

KARACHI: عمران خان ہماری سیاست میں اب ایک انوکھے لاڈلے کی حیثیت بھی اختیار کر چکے ہیں۔ وہ گزشتہ چند ماہ سے کچھ ایسے ایسے مطالبے کر رہے ہیں جن کو پورا کرنا ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے۔ ان کا ایک مطالبہ مان بھی لیا جائے تو یہ معلوم نہیں ہوتا کہ وہ کب کوئی نیا مطالبہ کر بیٹھیں۔ بات صرف چار حلقوں کے کھولنے سے شرو ع ہوئی تھی اور وزیر ِاعظم کے استعفیٰ تک جا پہنچی۔

14 اگست کو اسلام آباد میں دھرنے کے لیے پہلے زیرو پوائنٹ کا انتخاب کیا گیا اور پھر رفتہ رفتہ ریڈ زون کراس کرکے ڈی چوک اور پارلیمنٹ ہاؤس تک پڑاؤ ڈال دیا گیا۔ جس دھرنے کو وہ تاریخی اور عالمی ریکارڈ والا دھرنا کہتے ہیں اس کا حال سب کو معلوم ہے۔ اسے تین سے چار گھنٹوں پر مشتمل تفریح سے محروم عوام کے لیے ایک خوبصورت میوزیکل پروگرام کہا جائے تو کوئی اتنا غیرمناسب بھی نہیں ہو گا۔ لیکن اسے دھرنا ہرگز قرار نہیں دیا جا سکتا۔ دھرنے کا مطلب ایک جگہ پر کچھ لوگوں کا اس وقت تک احتجاجاً جمے رہنا جب تک کہ ان کے سارے مطالبے تسلیم نہ کر لیے جائیں۔ مگر یہاں تو حاضرین سمیت تمام لیڈران بھی رات گہری ہونے سے پہلے ہی اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے ہیں۔

ابتدا میں عمران خان نے ایک ایسی نگراں حکومت بنانے کا مطالبہ کر ڈالا جسے آئینی اور دستوری تقاضوں کے تحت پورا کرنا نا ممکن تھا، یعنی ٹیکنوکریٹس کی حکومت جس پر جاوید ہاشمی ناراض ہو کر لانگ مارچ شروع ہونے سے پہلے ہی لاہور سے ملتان اپنے گھر جا بیٹھے تھے۔ بعدازاں یہ غیر آئینی مطالبہ واپس لے کر انھیں منا لیا گیا۔ دھرنے کے دوران جب بات چلی حکومت سے مذاکرات کی جس میں شخ مجیب الرحمن کی سنت پر عمل کرتے ہوئے چھ بڑے بڑے نکات رکھے گئے۔

حکومت کی ٹیم نے ان کے پانچ مطالبے تو مان لیے لیکن آخری چھٹا مطالبہ نہیں مانا۔ اب عمران خان کئی مہینے تک یہی کہتے رہے کہ صاف اور شفاف جوڈیشل انکوائری میاں صاحب کے اقتدار میں ہوتے ہوئے ناممکن ہے، لہٰذا جب تک وہ استعفیٰ نہیں دے دیتے یہ انکوائری بھی نامنظور ہے۔ مگر اب رحیم یار خان کے جلسے سے اپنی یہ سخت کنڈیشن واپس لیتے ہوئے میاں صاحب کے ہوتے ہوئے بھی وہ جوڈیشل انکوائری پر رضامند دکھائی دیتے ہیں۔ لیکن یہاں بھی وہ ایک نئی ضد اور پخ شامل کر گئے کہ اس جوڈیشل انکوائری میں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے نمایندوں کو بھی شامل کیا جائے۔ جس کا پورا کیا جانا موجودہ آئینی دائرہ کار میں شاید بہت مشکل ہے۔

ساتھ ہی ساتھ وہ 30 نومبر سے جلاؤ گھیراؤ اور پرتشدد احتجاج کا پروگرام بھی بنا رہے ہیں۔ اب یا تو حکومت ان سے ڈر کے ان کے آگے سرنگوں ہوجائے یا پھر وہ بھی ڈٹ کر مقابلے کے لیے تیار ہو جائے۔

قوم یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ ایک طرف تو آپ جوڈیشل انکوائری کے لیے ڈیڑھ ماہ کا ٹائم فریم بھی دے رہے ہیں اور دوسری طرف 30 نومبر سے احتجاجی بلوؤں کا اعلان بھی کر رہے ہیں۔ پھر جب جاوید ہاشمی کہتا تھا کہ لانگ مارچ کے منصوبے میں چند لاشیں گرانے کا ٹارگٹ رکھا گیا تھا تو وہ کچھ غلط بھی نہیں تھا۔ شیخ رشید کے تیوروں سے تو یہ بالکل درست ہی معلوم ہو رہا ہے۔ غریب عوام کی لاشوں پر سیاست شیخ رشید کی خواہش تو ہو سکتی ہے لیکن عمران خان کی سیاست کا محور قطعاً نہیں ہو سکتا۔ عمران کو اپنے مشیروں کی حرکات و سکنات پر گہری نظر رکھنا ہو گی۔ کہیں وہ انھیں اپنی خواہشوں کی بھینٹ تو نہیں چڑھا رہے ہیں۔

کہنے کو تو عمران خان نے جوڈیشل کمیشن بنانے پر رضامندی دکھا دی ہے لیکن جب اس کے ممبران کا انتخاب ہو رہا ہو گا تو نجانے کتنی اور مشکلات اور رکاوٹیں سامنے آئیں گی۔ جب چیف الیکشن کمیشن کا انتخاب ہی آج ایک انتہائی مشکل مرحلہ بنا ہوا ہے تو جوڈیشل کمیشن کے ممبران بھلا کیسے چنے جا سکیں گے۔ اور ابھی تو یہ بھی نہیں معلوم کہ عمران خان کو جوڈیشل کمیشن کا وہ فیصلہ جو ان کی مرضی و منشا کے مطابق نہیں ہو گا منظور بھی ہوگا یا نہیں۔ جب وہ جسٹس فخرالدین جی ابراہیم اور جسٹس افتخار چوہدری کی ایمانداری اور غیر جانبداری پر شک و شبہ ظاہر کر تے رہے ہیں تو دیگر ججوں پر ان کا اعتبار اور اعتماد بھلا کب تک قائم رہے گا۔

اول تو جوڈیشل کمیشن کے ممبروں کا انتخاب ہی عمران خان کی مرضی کے مطابق ہونا ہی جوئے شیر لانے کی مترادف ہے اور اگر یہ ہو بھی جائے تب بھی عمران خان کے نظریات اور خیالات بدلنے میں کتنی دیر لگے گی۔ جب وہ دیکھیں گے کہ انکوائری ان کی خواہشوں کے پورا ہونے میں کامیاب دکھائی نہیں دے رہی تو وہ یک لخت اس سے لاتعلقی کر کے دھرنے کو جاری رکھنے کا اعلان بھی کر سکتے ہیں۔

اب تک وہ جو سیاسی کھیل کھیل رہے ہیں اس میں ذہنی پختگی، متانت اور سنجیدگی کا زبردست فقدان نظر آتا ہے۔ ان کے اندر جذباتیت، عدم برداشت اور جلد بازی کا عنصر نمایاں طور پر دکھائی دیتا ہے۔ 30 اکتوبر 2011ء سے اچانک ملنے والی عوامی پذیرائی کو وہ فوراً ہی کیش کروانا چاہتے ہیں۔ انھیں چاہیے تھا کہ وہ صبر کرتے ہوئے اگلے الیکشن کا انتظار کرتے اور اس سے پہلے انتخابی اصلاحات کا مطالبہ کرتے ہوئے صاف اور شفاف الیکشن کی راہ ہموار کرتے۔ میاں صاحب کی غلطیوں اور خامیوں کو نمایاں ہونے دیتے اور پھر ایک زور دار طریقے سے انتخابی میدان میں اترتے۔

بردباری اور شائستگی کا دامن ہاتھ سے جانے نہ دیتے اور دوسروں سے ایک مختلف سیاستدان کے روپ میں سامنے آتے۔ میاں صاحب نے تو اپنے اس دور میں ابھی کرپشن کی وہ وارداتیں نہیں کی ہیں جو زرداری کے دور میں پیپلز پارٹی والے اپنے سابقہ پانچ سال میں کر گئے۔ عمران خان کی جلد بازی نے میاں صاحب کو اور بھی محتاط بنا ڈالا ہے اور وہ حتی المقدور ایک اچھی اور بہتر کارکردگی دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کی وجہ سے کرپشن اور مالی بدعنوانیوں کے وہ قصے بھی سامنے نہیں آ رہے جو سابقہ پی پی دور میں طشت ازبام ہوتے رہے۔

عمران خان کی جلد بازی اور جارحانہ اندازِ تکلم نے پارلیمنٹ کے اندر ساری جماعتوں کو متحد ہونے پر مجبور بھی کر دیا ہے، ورنہ اگر وہ دو تین سال انتظار کر لیتے تو پارلیمنٹ کے اندر سے کئی جماعتیں ان کے ساتھ کھڑی ہوتی دکھائی دیتیں۔ قبل از وقت لانگ مارچ اور وزیر اعظم کے استعفیٰ جیسے انتہائی اقدام نے ان کی اگلی سیاست کو بھی خطرے میں ڈال دیا ہے۔ اگر وہ واپس ہوتے ہیں تو بھی ان کے لیے مشکلات بانہیں کھولے کھڑی ہیں اور اگر توڑ پھوڑ اور جلاؤ گھیراؤ کا سہارا لیتے ہیں تو بھی ناکامی کا خوف اور احتمال اپنی جگہ قائم رہتا ہے۔

بیانوں کی آتش فشانی اور شعلہ نگاری سے بھی عوام آہستہ آہستہ بیزار ہوتے جائیں گے اور جلسوں میں ان کی آمد اور شرکت بھی رفتہ رفتہ کم ہوتی جائے گی۔ اسی لیے اب ان کے اندر بے چینی اور بے تابی بڑھتی جا رہی ہے اور وہ جارحانہ سیاست کی جانب مبذول ہوتے جا رہے ہیں۔ گرچہ وہ سیاست میں پندرہ سولہ سال سے ہاتھ پیر مار رہے ہیں لیکن عوامی مقبولیت اور پذیرائی کا نشہ ان پر اکتوبر 2011ء سے ہی طاری ہوا ہے۔ جسے وہ صرف تین سال ہی میں ضایع کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔ اگر وہ صبر سے کام لیتے تو اگلا الیکشن یقیناً انھی کا تھا۔ ابھی بھی انھیں اپنے طرزعمل پر نظر ثانی کی ضرورت ہے۔

وہ حکومت کی خامیوں اور کوتاہیوں پر گہری نظر رکھتے ہوئے اگلے الیکشن کی بھرپور تیاری کریں، خواہ وہ پانچ سال میں ہوں یا چار سال میں۔ پارلیمنٹ سے اپنے استعفے واپس لے کر انتخابی اصلاحات کے عمل میں حصہ دار بنیں اور اپنے گرد جمع ہو جانے والے مفاد پرستوں اور اسٹیٹس کو کے لوگوں سے چھٹکارا حاصل کر کے پارٹی کو پاک، صاف ایماندار اور دیانتدار لوگوں کی جماعت بنائیں، تبھی کامیابی اور کامرانی ان کے قدم چومے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں