موجودہ صورتحال کے ذمے دار ہم سب ہیں
نائن الیون کے بعد سے ملک میں دہشتگردی، جرائم اور قانون کی بے وقعتی کی عجیب سی فضا قائم ہے۔
کراچی میں منعقدہ ایک سیمینار سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس (ر) وجیہہ الدین نے کہا ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس آئین کے منافی و متصادم ہے جو عدلیہ میں چیلنج کیا جا چکا ہے لہٰذا اس نام پر جو کارروائیاں ہو رہی ہیں، آئین سے ماورا اس آرڈیننس سے ماورائے عدالت ہلاکتیں ہو رہی ہیں، انسداد دہشت گردی ایکٹ میں ترامیم کر لی جائیں تو تحفظ پاکستان آرڈیننس کی کوئی ضرورت نہیں ہو گی۔ الطاف شکور نے اس آرڈیننس کو کالا قانون قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کی منظوری کی ذمے دار پی پی پی، (ن) لیگ اور پی ٹی آئی ہیں، ان جماعتوں کے قائدین سے مطالبہ کیا کہ وہ قوم کو غلامی کی بیڑیوں میں جکڑنے پر معافی مانگیں۔
نظام عدل ریگولیشن آرڈیننس ہو یا گواہوں کے تحفظ اور تحفظ پاکستان آرڈیننس وغیرہ پچھلے کچھ سال سے وضع کیے گئے ایسے قوانین پر قانونی حلقوں اور قانون کی سمجھ بوجھ رکھنے والے سیاستدانوں اور خود حکومتی حلقوں کی جانب سے بھی اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے ان کے لیے ترامیم پیش کی گئیں اور اظہاریے و اداریے بھی تحریر کیے گئے۔ اس سلسلے میں خاص طور پر سینیٹر رضا ربانی کا کردار و موقف ہر موقع پر بڑا واضح، قابل تعریف اور مثالی رہا ہے۔
نائن الیون کے بعد سے ملک میں دہشتگردی، جرائم اور قانون کی بے وقعتی کی عجیب سی فضا قائم ہے، شریف، امن اور قانون پسند شہری عدم تحفظ اور شدید خوف و ہراس کا شکار ہیں جب کہ دہشتگرد قانون شکن جرائم پیشہ گروہ اور افراد دندناتے پھر رہے ہیں، ججز، وکلا، عدالتیں اور عدالتی عملہ تک عدم تحفظ اور خوف و دباؤ کا شکار ہیں، لاتعداد قتل کیے جا چکے ہیں یہاں تک کہ چیف جسٹس سندھ ہائی کورٹ کو بھی ایک دہشتگردانہ کارروائی میں ہلاک کرنے کی کوشش کی گئی۔
ایک موقع پر تو دہشتگردی کی خصوصی عدالتوں کے سرکاری وکلا نے عدالتوں کو تحریری طور پر آگاہ کر کے مقدمات کی سماعت میں عدالتوں کی معاونت سے انکار کر دیا تھا کہ انھیں اپنی جانوں کا خطرہ ہے، انھیں تحفظ فراہم کرنے کے قانونی تقاضے پورے نہیں کیے جا رہے ہیں۔ ڈینیل پرل کے مقدمہ قتل کی پیروی کرنیوالے اسپیشل پراسیکیوٹر نے مقدمے کی پیروی سے انکار کر دیا تھا۔ عدالتوں، جیلوں، اسپتالوں سے قیدیوں کے فرار کے واقعات تواتر کے ساتھ رونما ہو رہے ہیں جس کے دوران پولیس والوں کو قتل تک کر دیا جاتا ہے یا پھر فرائض سے غفلت برتنے پر قید یا نوکریوں سے برطرف کر دیا جاتا ہے۔
عدالتوں میں وکلا، پولیس، گواہوں اور مخالفین کو خوفزدہ کرنے، تشدد کا نشانہ بنانے، ڈرانے دھمکانے، متحارب گروہوں کی جانب سے ججز اور عدالتوں کا گھیراؤ کرنے کے واقعات روزمرہ کا معمول بن گئے ہیں، مظاہرے، دھرنے اور ہڑتالیں وغیرہ مسائل کے حل کا ذریعہ سمجھ لی گئی ہیں۔ حکومت بھی صرف طاقت کے مظاہروں پر ہی توجہ دیتی اور حل طلب سمجھتے ہے۔
عدلیہ اور میڈیا جو حکومت اور سیاسی جماعتوں کی بداعمالیوں پر بڑی قدغن تھے، انھیں زرد صحافت اور سیاسی اکھاڑ پچھاڑ اور کردار کشی کی مہم کے ذریعے معتوب کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔ وکلا ایسوسی ایشن اور بار کونسلوں کے انتخابات میں کھلی مداخلت اور فنڈ کی غیر منصفانہ تقسیم اور اربوں روپوں کی بندربانٹ سے کنٹرول کرنے کی حکمت عملی اپنا لی گئی ہے۔ عدالتوں اور ججز کو سیاست زدہ اور بدنام کرنے اور ان کی کردار کشی کی باقاعدہ مہم جاری ہے۔
بین الاقوامی طاقتوں کے دباؤ اور مصلحت اور خوشنودی کی خاطر موت کی سزاؤں پر عمل نہیں کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے اصلاح، عبرت اور جذبہ انتقام کی تسکین کے پہلو تشنہ ہیں۔ حکومتی رٹ اور گڈگورننس کہیں دیکھنے میں نہیں آتی جس کی وجہ سے ایک طبقے میں قانون سے بے خوفی اور دوسرے طبقے میں قانون سے بد دلی اور مایوسی کے جذبات پروان چڑھ رہے ہیں۔ ردعمل کے طور پر خود بدلہ لینے، قتل و غارتگری، سنگسار کر دینے، جلا دینے اور گینگ ریپ کے واقعات ہو رہے ہیں عدالتوں میں آتے جاتے اور ان کے احاطے اور حتیٰ کہ کمرہ عدالت کے اندر تک میں قتل کی وارداتیں ہو رہی ہیں۔
قیدی کبھی بیرکس توڑ کر کبھی جیلوں کی چھتوں پر چڑھ کر اپنے مطالبات منواتے ہیں کبھی کوئی قیدی جیل کی ٹنکی پر چڑھ کر اپنی محبوبہ سے ملاقات کا مطالبہ کر ڈالتا ہے تو کبھی کوئی کلاشنکوف بردار شخص کئی گھنٹے تک دارالخلافہ کو یرغمال بنا لیتا ہے، کبھی کوئی فریادی انصاف کے حصول کیلیے کھمبے پر چڑھ کر ارباب اختیار کی توجہ اپنی جانب مبذول کرانے کی کوششیں کرتا ہے تو کبھی اجتماعی زیادتی کا شکار لڑکی انصاف کے بجائے دھمکیاں ملنے پر خودسوزی کر کے حکومت کا ضمیر جھنجھوڑنے کی کوششیں کرتی ہے، کبھی پیشی پر عدالت آئی خاتون کو اس کے رشتے دار اینٹیں مار کر ہلاک کر ڈالتے ہیں۔ ایک عجیب سا تماشا لگا ہوا ہے۔
پچھلے دنوں کراچی پولیس رپورٹ میں یہ سنسنی خیز انکشاف سامنے آیا تھا کہ شہر میں مختلف سیاسی، لسانی اور مذہبی جماعتوں کے قتل ہونے والے 100 افراد کو دو پستولوں کے ذریعے ہلاک کیا گیا تھا جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ملک میں قتل و غارتگری، بدامنی، فسادات میں غیر مرئی قوتوں کا ہاتھ ہے جو دہشتگردی کی اس قسم کی وارداتوں سے مختلف سیاسی، لسانی اور مذہبی گروہوں کو باہم دست و گریباں کراتے اور منافرتیں ابھارتے ہیں۔ گزشتہ دنوں پنجاب میں توہین مذہب کے الزام میں ایک عیسائی جوڑے کے بہیمانہ قتل اور لاشیں جلا دینے کا واقعہ پیش آیا جو ماضی کے واقعات کا تسلسل ہے۔
غیر مسلموں کے ساتھ ہی نہیں بلکہ مسلمانوں کے ساتھ بھی یہی بربریت کی گئی ہے۔ فیصل آباد میں فیکٹری منیجر نے ذاتی عناد کی خاطر فیکٹری مالک پر توہین مذہب کا الزام لگاکر ایک مجمع سے قتل کروا دیا، بعد میں حقیقت سامنے آئی کہ ایسا کوئی واقعہ نہیں ہوا تھا بلکہ فیکٹری منیجر نے جھوٹا ڈرامہ رچایا تھا۔ سیالکوٹ کے دو بھائیوں کی کھلے عام جو درگت بنائی گئی تھی ابھی ذہنوں سے محو نہیں ہوئی ہے۔ لیاری گینگ وار کے کردار ارشد پپو کا قتل جس انداز میں کیا گیا لوگوں کو اس سے بدلہ لینے کے لیے اعلانات کیے گئے اس کو گاڑی میں گلی کوچوں میں گھما کر تشدد کا نشانہ بنایا گیا جسم کے ٹکڑے کیے گئے پھر انھیں جلانے کے بعد گٹر میں بہا دیا گیا، اس سے بڑا ظلم اور انسانیت کی تذلیل کیا ہو سکتی ہے۔
سب سے بڑا ظلم یہ ہے کہ ایسے روح فرسا اور انسانیت سوز واقعات کی مذہب، فرقوں، لسانیت اور سیاسی بنیادوں پر درجہ بندی کر دی جاتی ہے جس کی وجہ سے مختلف مذاہب، فرقوں، لسانی و سیاسی گروہوں میں خلیج اور نفرت و انتقام کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور شریف اور امن پسند شہریوں کے ذہنوں پر ان مذہبی، سیاسی، لسانی گروہوں اور گینگ وار شرپسند عناصر کا شدید خوف طاری ہو جاتا ہے جو ان میں مزاحمت اور مذمت کے جذبے کو ختم کرتا جا رہا ہے۔
ایسے واقعات سے حکومتوں پر بین الاقوامی طاقتوں کا دباؤ اور ان کی ڈیمانڈ کا دباؤ بھی بڑھ جاتا ہے، ایسے واقعات پر بعض این جی اوز دولت، شہرت اور نیک نامی حاصل کرنے اور اپنے عزائم کو پورا کرنے کے لیے غلط بیانی، جھوٹ و فریب اور مکاری سے منفی تاثر پیدا کرنے کی تگ و دو میں لگ جاتی ہیں۔ کبھی عورتوں کو کوڑے مارنے کی فلم تو کبھی شمالی علاقہ جات میں عورتوں کو قتل کیے جانے کے معاملات سامنے لائے جاتے ہیں جو بعد میں جھوٹے ثابت ہوتے ہیں۔
میڈیا کے بعض افراد جذباتی اور غیر ذمے دارانہ رویے سے جرم کی نوعیت کچھ سے کچھ بنا ڈالتے ہیں جو اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ کسی نہ کسی پہلو سے ملک کی موجودہ صورتحال کے ہم سب ذمے دار ہیں لیکن سب سے بڑی ذمے دار حکومت ہے جس کی آئینی اور کلیدی ذمے داری ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کو بلاتفریق و امتیاز جان و مال، عزت و آبرو، عزت نفس، مذہبی و سیاسی آزادی اور تحفظ فراہم کرے۔