سیاست میں نئے مدوجذر
پاکستان میں قانون کی اہمیت، بالادستی اور عملدرآمد روز اول ہی سے متنازع رہا ہے۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت نے علامہ طاہرالقادری اور عمران خان کو اشتہاری ملزم قرار دے دیا ہے، مگر حکومت انھیں گرفتار کرنے سے گریزاں ہے۔ معاملہ یہ نہیں کہ حکومت ان دونوں شخصیات کی سیاسی حیثیت سے خوفزدہ ہے، بلکہ مقتدر اشرافیہ (منتخب اور غیر منتخب دونوں) کی نظر میں آئین اور قانون کی کوئی اہمیت و افادیت نہیں ہے۔ اس لیے عدالتی فرمان سے پہلوتہی کے لیے مختلف حیلے بہانے تراشے جا رہے ہیں۔
یہ صورتحال صرف پاکستان ہی میں نہیں ہے، دنیا کے بیشتر ممالک میں مقتدر اشرافیہ اسی طرح آئین و قانون کی من پسند تفہیم کرتی ہے۔ قانون کی تشکیل اور اہمیت کے بارے میں معروف عربی شاعر اور دانشور خلیل جبران کا شہرہ آفاق مقولہ ہے کہ "Law is a sand house made near the sea shore by the children with great enthusiasm, and destroyed in a laughter"۔ یعنی قانون کی مثال ریت کے اس گھروندے جیسی ہے، جسے بچے ساحل سمندر پر انتہائی جوش وخروش سے تعمیر کرتے ہیں اور ہنسی ہنسی میں لات مار کر ڈھا دیتے ہیں۔
پاکستان میں قانون کی اہمیت، بالادستی اور عملدرآمد روز اول ہی سے متنازع رہا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ اس خطے پر صدیوں سے مسلط قبائلی و جاگیردارانہ کلچر کی مضبوط جڑیں ہیں، جنھیں انگریزوں نے جاری رکھا اور قیام پاکستان کے بعد مقتدر اشرافیہ نے اسے ختم کرنے کے بجائے اپنے مذموم مقاصد کے حصول کے لیے مزید مضبوط کیا۔ لہٰذا یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ پاکستان میں روز اول ہی سے سیاسی عمل کو اس طرح ترتیب دیا گیا ہے کہ اس میں فکری تنوع کے لیے گنجائش پیدا نہ ہوسکے اور ایک مخصوص طبقہ سیاست پر حاوی رہے۔
اس سلسلے میں چار کلیدی اقدامات کیے گئے۔ اول، ابتدائی برسوں میں راولپنڈی سازش کیس کے بعد کمیونسٹ پارٹی کے علاوہ انجمن ترقی پسند مصنفین اور ڈیموکریٹک اسٹوڈنٹس فیڈریشن (DSF) پر پابندی عائد کرکے ملک میں بائیں بازو کی سیاست پر تمام دروازے بند کردیے گئے۔ نتیجتاً وقت گزرنے کے ساتھ بائیں بازو کی سیاست گہناتی چلی گئی۔ دوئم، ان تمام مذہبی جماعتوں کی سرپرستی کا فیصلہ کیا گیا، جو 13 اگست 1947 تک قیام پاکستان کی مخالف تھیں۔ سوئم، عوامی مسائل پر آواز اٹھانے والی لبرل جماعتوں اور اتحادوں کا بھی راستہ روکنے کی کوشش کی گئی۔
اس کی مثال یہ ہے کہ 1953 میں جگتو فرنٹ نے سابقہ مشرقی پاکستان میں فقیدالمثال کامیابی حاصل کی، مگر اسے اقتدار سے محروم رکھا گیا۔ چہارم، ریاست کو فلاحی کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ اس عمل کا آغاز 1954 میں ایوب خان کو کابینہ میں وزیردفاع بنا کر کیا گیا۔
اسی طرح پاکستان کا انتخابی نظام اور انتظامی ڈھانچہ بھی اسی انداز میں ترتیب دیا گیا کہ صرف اسٹبلشمنٹ کا ایک مخصوص منظور نظر طبقہ ہی اقتدار میں آسکے۔ اس عمل کے نتیجے میں سابقہ مغربی پاکستان (موجودہ ملک) میں جہاں سیاسی کلچر خاصا کمزور اور فیوڈل اثرات زیادہ گہرے تھے، دائیں بازو کی جماعتوںکے علاوہ فیوڈل سیاستدانوں کو کھل کر پنپنے کا موقع ملا۔ جب کہ سابقہ مشرقی پاکستان کی سیاسی اور سماجی صورتحال خاصی مختلف تھی، اس لیے وہاں مقتدر اشرافیہ کو مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوسکے۔ چنانچہ جلد ہی اس سے چھٹکارا پا لیا گیا۔
سقوط ڈھاکا کے بعد فیوڈل سیاستدانوں کو کھل کر گل کھلانے کا موقع ملا۔ کبھی انھوں نے مذہب کو آلہ کار کے طور پر استعمال کیا، کبھی قوم پرستانہ جذبات کو ابھار کر اپنے مقاصد حاصل کیے۔ یوں طاقت کے غلط استعمال (Power Abuse) کا ایک ناختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوگیا۔ جس میں قانون کی اہمیت اور بالادستی اور اس کے بلاتفریق نفاذ کا کوئی تصور نہیں ہوتا۔ جبرواستبداد کے اس نظام کو آمریتوں میں مزید تقویت حاصل ہوئی۔ منتخب دور میں کمزور ہوتا فیوڈل کلچر ہر نئی آمریت کے نتیجے میں مزید مضبوط ہوا۔ یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے اور طاقتور حلقے فیصلہ سازی پر حاوی ہونے کے ساتھ ساتھ قانون کو بھی گھر کی باندی سمجھتے ہیں، جس کی وجہ سے سماج میں مختلف خرابیاں جڑیں پکڑ رہی ہیں۔
جمہوریت خاص طور پر پارلیمانی جمہوریت میں مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کی حدود متعین ہوتی ہیں۔ اسی طرز پر برٹش انڈیا میں سول سروس کا جو نظام متعارف کرایا گیا، اس کا مقصد گوکہ نوآبادیاتی نظام کو تحفظ فراہم کرنا تھا۔ لیکن سول سرونٹ جوابدہی سے مبرا نہیں تھے، بلکہ احتساب کا ایک واضح میکنزم موجود تھا۔ یہی وجہ ہے کہ برٹش دور میں سول سروس کے بارے میں وہ شکایات نہیں تھیں، جو آج پیدا ہوچکی ہے۔
اس کی وجہ یہ ہے کہ آج سول بیوروکریسی ریاست کی ملازم ہونے کے بجائے حکومت وقت کی غلام بنادی گئی ہے۔ عوام کی خدمت کے بجائے Politicised ہوچکی ہے اور صاحب اقتدار شخصیات کی خوشنودی کو ترقی کا زینہ سمجھتی ہے۔ اس لیے قانون پر عملدرآمد محض ایک سراب ہوکر رہ گیا ہے۔ لہٰذا جو بھی خرابی بسیار انتظامی ڈھانچہ میں نظر آرہی ہیں، ان کا سبب ریاستی انتظامی ڈھانچہ کا غلط استعمال ہے۔
اب اس تناظر میں مختلف معاملات ومسائل کا جائزہ لیا جائے تو حکومتیں اور انتظامیہ ہر جگہ اور ہر مرحلے پر ناکام نظر آئے گی۔ چاہے تھر میں قحط سالی کے نتیجے میں بچوں کی تسلسل کے ساتھ اموات ہوں۔ سرگودھا میں 8 نومولود بچوں کا مناسب طبی سہولیات نہ ہونے کی وجہ سے جاں بحق ہونا ہو۔ 2005 کے زلزلہ اور 2010 اور 2011 کے سیلاب متاثرین کی آبادکاری ہو۔
اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ سیاسی جماعتیں اور ریاستی منتظمہ (اسٹبلشمنٹ) قدرتی آفات، حادثات وسانحات سے نمٹنے کی اہلیت، صلاحیت اور بصیرت سے عاری ہیں۔ لہٰذا ان میں ہنگامی صورتحال سے نمٹنے کی پیشگی منصوبہ بندی اور Pro-active اقدامات کرنے کی بھی صلاحیت نہیں ہے۔ یوں اقتدار کی رسہ کشی میں مصروف سیاسی جماعتیں محض ایک دوسرے پر الزام تراشیاں کرکے دراصل اپنی خامیوں اور کمزوریوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کرتی ہیں۔ نتیجتاً ان کی اس نااہلی کا خمیازہ عوام کو بھگتنا پڑتا ہے۔
اس صورتحال کا ایک دوسرا پہلو یہ ہے کہ سقوط ڈھاکا کے بعد بالعموم اور جنرل ضیاء کے دور سے بالخصوص ملک میں نظریاتی وفکری بنیادوں پر سیاست ختم ہوچکی ہے۔ یہی کچھ صورتحال سیاسی اتحادوں کی ہے، جو حکومت بنائو یا حکومت گرائو کے ایک نکاتی ایجنڈے پر قائم کیے جاتے ہیں۔ نظریاتی ہم آہنگی کی عدم موجودگی کی وجہ سے دیرپا ثابت نہیں ہوتے۔ اس کی واضح مثالیں قومی اتحاد (PNA) اور تحریک بحالی جمہوریت (MRD) ہیں، جو بالترتیب بھٹو مرحوم اور جنرل ضیاء کی حکومتوں کے خاتمے کے ساتھ ہی کسی منطقی جواز کے بغیر ختم ہوگئے۔
آج بھی جو اتحاد قائم ہورہے ہیں، ان میں عوامی مفادات سے زیادہ سیاسی مفادات کو فوقیت حاصل ہے اور ان میں کسی قسم کی نظریاتی یا فکری ہم آہنگی کا کوئی عنصر نہیں ہے۔ اسی طرح جو سیاسی سرگرمیاں جاری ہیں، ان میں گوکہ عوام کی بات کی جارہی ہوتی ہے، مگر عوامی مفاد کہیں نہیں ہوتا، بلکہ پورا مرتکز و محور سیاسی مفادات ہوتے ہیں۔ یوں وہ تمام معاملات و مسائل جنھیں ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جانا چاہیے تھا، پس پشت جاچکے ہیں۔
اس وقت جو مسائل ومعاملات ترجیحی بنیادوں کے متقاضی ہیں۔ ان میں اقتدار واختیار کی نچلی سطح تک حقیقی منتقلی، تاکہ امن وامان کی صورتحال کی بہتری کے ساتھ سماجی ترقی میں عوام کی براہ راست شرکت کو یقینی بنایا جاسکے۔
معاشی اہداف کے حصول کے لیے خارجہ اور مالیاتی پالیسی کی تشکیل نو اور ترمیم و اضافہ۔ دہشت گردی اور مذہبی شدت پسندی کے خاتمے کے لیے مربوط پالیسی۔ بھارت اور افغانستان کے علاوہ خطے کے دیگر ممالک کے ساتھ دوطرفہ تعلقات۔ عالمی منظرنامہ میں پاکستان کے کردار کا تعین۔ توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے سائنسی بنیادوں پر فوری فیصلہ سازی۔ تعلیم، صحت اور سماجی ترقی کے شعبہ جات کی نچلی سطح تک منتقلی اور ان کی تشکیل نو۔ زرعی اصلاحات اور محنت کشوں کے حقوق کا تحفظ۔ یہ تمام ایسے مسائل ہیں جو واضح سیاسی فکر کے ساتھ فوری توجہ کے متقاضی ہیں۔ مگر ان معاملات ومسائل پر تقریباً سبھی جماعتوں کے بیانیے (Narrative) ضرور موجود ہیں، مگر انھیں کس طرح عملی شکل دی جائے گی، ہر سیاسی جماعت یہ میکنزم دینے میں ناکام ہے۔
بہرحال ایک حقیقت کو تسلیم کرنا پڑے گا کہ تمام مشکلات اور دشواریوں کے جمہوری عمل کا تسلسل کے ساتھ جاری رہنا، ایک اچھا شگن ہے۔ ذرائع ابلاغ پر کھلا بحث ومباحثہ اور سول سوسائٹی کی تنظیموں کی مختلف عوامی مسائل پر تحقیق وپیروی (Advocacy) بھی عوام کے سیاسی و سماجی شعور میں اضافے کا سبب بنا ہے، جس کی وجہ سے مسائل کے بارے میں آگہی اور ان کے حل کے لیے تڑپ میں اضافہ ہوا ہے۔
دوسرے الفاظ میں عوام کی سوچ اور طرز حیات آگے کی جانب بڑھے ہیں، جب کہ سیاسی جماعتوں کی سوچ اور طرز عمل آج بھی سرد جنگ کے دور کی نفسیات سے باہر نہیں نکل سکا ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آج بھی فرسودہ طرز سیاست پر اصرار کرتی ہیں۔ لہٰذا وقت اور حالات کا تقاضا ہے کہ سیاسی جماعتیں خود کو Transformation کریں اور اقتدار واختیار کی مرکزیت کے ذریعے طاقت کے غلط استعمال یعنی Power Abuse اور اقربا پروری جیسے رجحانات سے چھٹکارا پانے کی کوشش کریں۔ میرٹ، شفافیت اور 'قانون سب کے لیے' کے اصول پر سختی کے ساتھ عمل کرنے ہی کے نتیجے میں جمہوریت مستحکم ہوگی اور معاشرہ آگے کی جانب بڑھے گا۔