افغان صدر کا دورہ پاکستان
افغان جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین بے گھر ہو کر پاکستان آ گئے جن کا پاکستان نے حق میزبانی ادا کیا۔
WASHINGTON:
افغانستان کے صدر اشرف غنی کے حالیہ دورہ پاکستان کو تاریخ ساز کہا جا رہا ہے۔ اپنے دورے کے حوالے سے افغان صدر کا یہ تبصرہ تاریخی ہے کہ ہم نے 13سال کی رکاوٹوں کو صرف تین دن میں دور کر لیا ہے۔ پاکستان افغانستان کی تاریخ کا طویل عرصہ الزامات و تحفظات سے عبارت ہے۔ جب پاکستان کا قیام عمل میں آیا تو اقوام متحدہ میں افغانستان نے اس کے خلاف ووٹ ڈالا۔ ایک طویل عرصے تک پاک افغان تعلقات پر پختونستان کا سایہ رہا جس نے دونوں ملکوں میں بدگمانی اپنی انتہا پر پہنچا دی۔ سردار داؤد تک یہ سلسلہ پوری شدت سے چلتا رہا۔
سردار داؤد کے زمانے میں پاکستان کی یہ کوشش تھی کہ ڈیورنڈ لائن جو انگریزوں نے دونوں ملکوں کے درمیان حد فاصل کے طور پر قائم کی تھی افغانستان اسے تسلیم کر لے لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ اس سلسلے میں کہا جاتا ہے کہ پس پردہ معاملات سردار داؤد کی حکومت کے آخری دور میں طے پا چکے تھے مگر ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا۔ اس کے بعد افغانستان میں امریکی مفادات کے تحفظ کے لیے جنگ سوویت یونین کے خلاف شروع ہوئی جس میں سوویت یونین اور افغانستان کی کمیونسٹ حکومت ایک طرف تھی تو امریکا یورپ پورا مغرب و پاکستان دوسری طرف۔ اس افغان جنگ کے نتیجے میں لاکھوں افغان مہاجرین بے گھر ہو کر پاکستان آ گئے جن کا پاکستان نے حق میزبانی ادا کیا لیکن یہ افغان جنگ پاکستان اور افغان عوام کے درمیان دوری کا باعث بن گئی۔
یہ دوری اس حد تک ہے کہ پاکستان کے اچھے اقدامات کو بھی شک وشبہ سے دیکھا گیا۔ افغان مہاجرین کی مدد کے حوالے سے کہا جاتا ہے کہ پاکستان خطے کے حوالے سے امریکی سازشوں کا حصہ نہ بنتا تو افغان بھی لاکھوں کی تعداد میں بے گھر نہ ہوتے۔ بہرحال یہ سب ماضی کا حصہ ہے جس کے بارے میں افغان صدر نے کہا کہ اب ہم ماضی کے اسیر نہیں رہیں گے۔ پاکستان افغانستان کی نظر اب مستقبل پر ہے اور نہ ہی ہم اس بات کی کبھی اجازت دیں گے کہ ماضی ہمارے مستقبل کو تباہ کرتا رہے۔
افغان صدر کا دورہ تاریخی اس لیے بھی ہے کہ اشرف غنی نے اسلام آباد آمد کے فوراً بعد جی ایچ کیو کا دورہ کیا جس سے پتہ چلتا ہے کہ وہ اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ پاک افغانستان تعلقات کی کنجی کہاں پر ہے۔ برسبیل تذکرہ یہاں یہ بات کرنا غیرمناسب نہ ہو گا کہ افغانستان ہو یا بھارت دونوں سے تعلقات میں بہتری کا انحصار صرف اور صرف پاکستانی فوج ہی پر ہے۔ چاہے سرحد پر دونوں کے درمیان کتنی ہی جھڑپیں ہوتی رہیں۔ عالمی برادری کبھی بھی پاک بھارت جنگ کی اجازت نہیں دے گی۔
اس کا مطلب تو یہ ہو گا کہ مرتی ہوئی دہشت گردی کو ایک نئی زندگی دینا۔ وہ بھی اس صورت میں کہ جب امریکا کی قیادت میں 60 سے زائد ممالک داعش کے خلاف جنگ میں متحد ہو چکے ہیں۔ اس کو اس صورت میں بھی دیکھا جاسکتا ہے کہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کا جن جس کو امریکا اور اس کے اتحادیوں نے سوویت یونین کے خلاف بوتل سے نکالا تھا اب اس کو واپس بوتل میں بند یہی طاقتیں کرنے جا رہی ہیں۔ اس حقیقت کو پاکستان آرمی چیف راحیل شریف نے اپنے دورہ امریکا میں اس طرح بیان کیا ہے کہ پاکستان افغانستان پر داعش کا سایہ بھی نہیں پڑنے دے گا۔
طالبان ہوں یا حقانی گروپ تمام گروپوں کے خلاف بلاتفریق کارروائی کی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان دہشت گردی کے خلاف مل کر لڑیں گے۔ جنرل راحیل شریف نے کہا کہ وہ پاک فوج کی کمان سنبھالنے کے بعد ان شدت پسندوں کے خاتمے کے لیے پرعزم تھے جنھوں نے ہمارے فوجیوں کو شہید کیا اور ان کے سروں سے فٹ بال کھیلتے رہے۔ یہ وحشی اور جنگلی ہیں۔ انھوں نے کہا کہ دہشت گردوں کے خلاف پاک فوج کا آپریشن جس طرح ہے اگر افغان تعاون بھی اسی طرح جاری رہا تو امریکا اور عالمی برادری کے تعاون سے ''بہت جلد تبدیلیوں کا ایک سمندر'' دیکھنے کو ملے گا۔
ان تبدیلیوں کے نتیجے میں خطے میں امن و استحکام دوبارہ سے قائم ہو جائے گا۔ جنرل راحیل شریف نے اپنی پانچ منٹ سے بھی کم مختصر عرصے کی تقریر میں کہا کہ پاکستان انتہائی خلوص اور کمٹمنٹ کے ساتھ افغانستان کے ساتھ مل کر کام کا آغاز کر رہا ہے۔ آرمی چیف نے پاک افغان خطے میں دہشت گردی کو دفن کرنے اور آئندہ کسی بھی دہشت گرد گروہ کو سر اٹھانے سے قبل اس کے خاتمے کے واضح عزم کا اظہار کیا۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ پاکستانی صدر کی طرف سے افغان صدر کو جو عشائیہ دیا گیا اس میں چین' امریکا' روس' فرانس اور برطانیہ کے سفیروں اور ہائی کمشنرز نے شرکت کی۔
اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ یہ تمام عالمی طاقتیں کس شدت سے پاکستان افغانستان کے درمیان امن واستحکام کی خواہش مند ہیں۔ پاکستانی آرمی چیف کا دورہ کابل ہو یا افغان صدر کا دورہ پاکستان' ان سب کو عالمی طاقتوں کی تائید حاصل تھی۔ یاد رہے کہ افغان صدر نے پاکستان کے دورے سے پہلے چین کا دورہ کیا۔ چین کو دہشت گردی سے جو خطرات لاحق ہیں اس سے افغانستان اور پاکستان آگاہ ہیں۔ پاک افغان تعلقات ہوں یا آپریشن ضرب عضب' دونوں کے نتائج امریکا کے لیے اطمینان بخش ہیں۔
ماضی گواہ ہے کہ پاکستانی سویلین حکومتیں خطے میں پائیدار امن و استحکام کے لیے مسلسل ناکام رہیں۔ امریکا اور پوری دنیا نے اس حقیقت کو تسلیم کرلیا ہے کہ ان سویلین حکومت کے ذریعے امن کا حصول ممکن نہیں۔ اس مقصد کا حصول صرف پاکستانی فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ بھارت سے امن کا حصول بھی صرف پاک فوج کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ سویلین حکومت کے ذریعے اس مقصد کے حصول کا مطلب یہ ہے کہ جمہوریت کے نام پر پاکستانی عوام کئی نسلوں کے لیے خاندانی بادشاہتوں کے لیے غلام بن کر رہ جائیں۔
پس تحریر: لاہور میں یکم سے 3 دسمبر ایشین پارلیمنٹری یونین کا اجلاس مقامی ہوٹل میں منعقد ہو رہا ہے جس کے میزبان چیئرمین سینیٹ نیر بخاری اور میڈیا کوارڈی نیٹر مسرور حسین ہیں۔
پاک بھارت تعلقات میں بہتری دسمبر جنوری میں آسکتی ہے۔
سیل فون: 0346-4527997